کمپیوٹر اور انسان کے درمیان پہلا دو بدو مباحثہ


آئی بی ایم مصنوعی ذہانت

آئی بی ایم نے سان فرانسسکو میں مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر ’پراجیکٹ ڈبیٹر‘ کا ایک انسان سے مباحثہ کرا کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے

انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کی کمپیوٹر مشین نے انسان سے مباحثہ کیا اور دو موضوعات پر انسانی دلائل کا جواب دیا۔

سان فرانسسکو کے ایک ہال میں ہونے والے اس مباحثے میں کمپیوٹر بنانے والی معروف کمپنی آئی بی ایم کے ’پراجیکٹ ڈبیٹر‘ نے بات کی، دوسروں کی بات سنی اور پھر جو نکتے اٹھائے گئے تھے ان کا دلائل کے ساتھ جواب دیا۔

ماہرین نے اس پیش رفت کو مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کی تاریخ میں ایک بڑا سنگِ میل قرار دیا ہے۔

اس مشین نے کروڑوں دستاویزات پر مشتمل ایک لائبریری کی مدد سے جن میں اخبارات کے آرٹیکلز کے علاوہ اکیڈمک جریدوں کے تحقیقی مقالے شامل ہیں، اپنا استدلال ایسے موضوعات پر پیش کیا جن کے بارے میں مباحثے کے شرکاء کو پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

مصنوعی ذہانت والی مشین کی کارکردگی میں چند ایک سُقم تھے لیکن ہال میں بیٹھے ہوئے حاضرین انسان اور مشین کی کارکردگی پر ووٹنگ کر سکتے تھے۔

انسان کا اندازِ کلام بہتر تھا لیکن مصنوعی ذہانت کی مشین کے دلائل میں گہرائی تھی۔

آئی بی ایم کا کہنا ہے کہ اس کاوش سے اُسے اپنے ہدف کے قریب پہنچنے میں مدد ملی ہے۔ یعنی یہ کہ انسان پہلے کی نسبت زیادہ معلومات کے ذریعے اپنے فیصلے تیزی سے کر سکے۔

اس مباحثے میں شریک، نوا اویڈیا، نے کہا ’میرے خیال میں یہ پیش رفت انسانوں کے حقائق اور اعداد و شمار کے بارے میں ردعمل کی ایک پُرامید پیش رفت ہے۔

’میرے خیال میں مصنوعی ذہانت والی مشین کی افادیت ہے لیکن یہ وہ سب کچھ نہیں کرسکتی ہیں جو دلائل بنانے کے لیے انسانی ذہانت کر سکتی ہے۔‘

نوا اویڈا اسرائیل کی قومی ڈبیٹنگ کے سن 2016 کے چیمپیئن رہے ہیں اور انھوں نے آئی بی ایم میں مصنوعی ذہانت والی مشین کے خلاف مباحثہ کرنے کے لیے شمولیت اختیار کی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’میرے خیال میں اس کے ذریعے جو ہم بحث کرتے ہیں وہ اور زیادہ بہتر انداز میں کرسکیں گے، ان کا (یعنی مصنوعی ذہانت والی مشینوں کا) انسانوں کو معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں، معلومات کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے میں یا معلومات کی بنیاد پر کچھ بھی کرنے میں کافی فائدہ ہوگا۔‘

بغیر انٹرنیٹ کی مدد کے

پراجیکٹ ڈبیٹر اس مباحثے کے دوران انٹرنیٹ سے جُڑا ہوا نہیں تھا۔ بلکہ اس کی تمام معلومات ان دستاویزات اور اعداد و شمار کے ڈیٹا پر مشتمل تھیں جو آئی بی ایم کے ماہرین نے اس مشین کیلئے جمع کر کے اس میں فیڈ کی تھیں۔

اس مشین نے مباحثے کے دو اجلاس میں حصہ لیا۔ پہلے کا موضوع تھا کہ کیا خلائی تحقیقات کے لیے مزید سرکاری رقم درکار ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسرا موضوع تھا کہ کیا ٹیلی میڈیسن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے مزید سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔

مباحثے میں شریک انسان اور مشین دونوں کو اپنے استدلال کا آغاز کرنے کیلئے چار چار منٹ دیے گئے تھے۔ اور اُس کے بعد ہر ایک کو چار چار منٹ دوسرے کے استدلال کا جواب دینے کیلئے دیے گئے اور آخر میں دو دو منٹ اپنے اپنے دلائل کو سمیٹنے کیلئے دیے گئے تھے۔

جب نوآ اویڈا نے اپنا استدلال پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری رقم خلائی تحقیقات کے بجائے دیگر زیادہ اہم ضرورتوں پر خرچ کرنی چاہیے تو مصنوعی ذہانت والی مشین کا جواب تھا کہ ’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دیگر اہم چیزوں پر رقم خرچ کرنا زیادہ ضروری ہے اور میں اس بات سے اختلاف نہیں کروں گا۔ کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کررہا ہے، ہمارے ایجنڈے پر صرف یہی معاملہ ہے۔ لیکن یہاں یہ موضوع نہیں ہے۔

’کیونکہ خلائی تحقیق پر سرکاری رقم کے خرچ کرنے سے معاشرے کو فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے میں کہوں گا کہ حکومت کو اس منصوبے پر رقم خرچ کرنا چاہئیے۔‘

The machine would listen to the arguments being made before providing its rebuttal

پراجیکٹ ڈبیٹر نامی مصنوعی ذہانت کی اس مشین نے دلائل سنے اور پھر ان دلائل کا مدلل جواب دیا۔

مباحثے میں شامل انسان کی طرح مشین کو بھی موضوع کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم آئی بی ایم مشین کے پاس سو کے قریب موضوعات کی ایک فہرست تھی، اور اس کے ماہرین کے خیال میں، پراجیکٹ ڈبیٹر معلومات کے اس ذخیرے کی مدد سے ایک معنی خیز بحث کرسکے گا۔

آئی بی ایم کے ریسرچ ڈائریکٹر اروند کرشنا نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ اور دیگر متعلقہ ایپلیکیشنز میں ان کے استعمال سے ہم اس سسٹم کو ایسے معاملات میں استعمال کرسکیں گے جہاں ابھی ہم نہیں پہنچ پائے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اروند کرشنا نے کہا کہ ’اس کامیاب تجربے سے ہم مصنوعی ذہانت کی اس حد تک پہنچے ہیں جہاں ابھی گوگل نے اپنی کامیابی کا مظاہرہ کرنا ہے۔‘

پراجیکٹ ڈبیٹر دراصل مختلف کمپیوٹر زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے لیے ہے، اور زبانیں ایک شعبہ ہے اور اس معاملے میں غلط اور صحیح کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ (کمپیوٹر لینگوئیج میں غلط اور صحیح کی دوئیت کےذریعے پروگرامنگ کی جاتی ہے)۔

اس لیے ان مباحثوں کے دوران مصنوعی ذہانت کی مشین جس بات میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائی وہ یہ تھا کہ وہ اپنی ایک ہی دلیل کو مختلف الفاظ میں دہراتی رہی، وہ دلیل بار بار، یا اسی دلیل میں نئے زاویوں کے اضافے سے نئے فقرے بناتی جو کہ مشین میں ڈالے گئے گنجلک ڈیٹا کا نتیجہ لگتا تھا۔

عملی فائدہ

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈنڈی کے پروفیسر کرس ریڈ نے مصنوعی ذہانت کی مشین کے اس تجربے کو اہم اور متاثرکن ٹیکنالوجی قرار دیا ہے۔

پروفیسر ریڈ کا آئی بی ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تجربہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ’مجھے جس بات نے متاثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کئی تیکنیکی صلاحیتوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ اور ان کا بحث جیسے پیچیدہ عمل میں استعمال ہونا کوئی آسان بات نہیں ہے۔

’پہلے تو آپ کو کئی مسائل کے حل ڈھونڈنے ہوتے ہیں اور پھر ان سب مسائل کی اکھٹا انجینئیرنگ کر کے حل نکالنا۔‘

مصنوعی ذہانت کمپیوٹر کیسپیروو

مئی 1997 میں شطرنج کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی گیری کیسپیروف ڈیپ بلیو نامی سپر کمپیٹر سے صرف انیس چالوں کے بعد مقابلہ ہار گئے تھے۔

مصنوعی ذہانت کے پبلک کی سطح پر مظاہرہ کرنے کے میدان میں آئی بی ایم نئی نہیں ہے۔ اس کے ’واٹسن‘ نامی سپر کمپیوٹر نے امریکہ کے سن 2011 کے ایک گیم شو ’جیوپرڈی‘ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سے پہلے اُس کے ’ڈیپ بلیو‘ کمپیوٹر نے شطرنج کے عالمی چیمپئین گیری کیسپیروف کو 1997 میں ہرا دیا تھا۔

لیکن ان مشہور ہونے والی دلچسپ کرتب بازیوں کے پیچھے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو کسی مسئلے کے بامقصد حل کے لیے استعمال کرنا ہمیشہ ایک مشکل کام رہا ہے۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے مگر آئی بی ایم نے حال ہی میں اپنے کئی ملازمین کو نوکریوں سے برخاست بھی کیا ہے۔ اور یہ ہیلتھ کیئر ایپلیکلیشن واٹسن پر کام کررہے تھے۔

آئی بی ایم کے اروند کرشنا کا کہنا ہے کے کمپنی کے بڑے رہنما کمرشل مفادات کو اول ترجیح دیتے ہیں۔

’جب آپ کہیں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں تو کبھی فیصلہ آپ خود کرتے ہیں اور کبھی آپ دوسروں کے کہنے پر کرتے ہیں۔‘

پروفیسر ریڈ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ پراجیکٹ ڈبیٹر کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ایک موضوع کے عواقب، آگے پیچھے کی باتوں کو سمجھ کر بات کرتا ہے تو آپ ان کو اس سے بھی زیادہ فائدے والے کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں۔

’میرے خیال میں یہ ایک قسم کی ٹیم بنانا ہے، جہاں انسان ایک گروہ کی صورت میں بحث اور کمپیوٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔

’ظاہر ہے کہ ان میں کچھ کمزوریاں ہوں گی اور کچھ مثبت باتیں ہوں گی۔ مقصد یہ ہے کہ ان ٹیموں کی اس طرح تعمیر کی جائے کہ یہ ایسے کام کریں کہ یہ صرف انسانوں کی اپنی صلاحیتوں سے بہتر کام کرسکیں۔‘

پروفیسر کرس ریڈ کے خیال میں مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی مشینیں بذاتِ خود مسئلہ نہیں ہوں گی بلکہ معاملہ یہ ہوگا کہ ان مشینوں کو کیا ڈیٹا فیڈ کیا جاتا ہے او ان میں کس قسم کے تعصبات ہوں گے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp