ادھورا سماج، ادھورا فتویٰ اور پوری عورت


دو کہانیاں 20 دن سے دماغ میں حشر برپا کیے ہویے ہیں۔ ایک کہتی ہے مجھے کاغذ پر اتار دو تو دوسری بول پڑتی ہے میں کہاں جاؤں؟ آج سوچا وہ جو جال دونوں کہانیوں نے ذہن میں بن ڈالا ہے اس جالے کا سرا ہاتھ میں آنے کا نہیں پھر بھی کوشش کرتی ہوں۔ یہ جالا ان دو کہانیوں نے بنا بھی نہیں۔ اس کا جولاہا ایک مکڑا ہے۔ اس مکڑے کو پکڑتی ہوں۔ اس مکڑے کے پاس ہی سارا تانا بانا ہے۔ یہ مکڑا سب بولے گا۔ کمزور ترین گھر بنانے والا عنکبوت۔

یہ عنکبوت اپنی بال سے باریک مکروہ ٹانگیں پھیلاۓ بڑی بے شرمی سے میرے سامنے چھوٹے چھوٹے کیڑے کھا رہا ہے۔ اور مجھے یہ کہ رہا ہے کہ اے اشرف لمخلوقات تیرے گھرمیں تو میرے گھر میں ہونے والا شکار اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ ذرا آنکھیں کھول اور دیکھ اور اگر دیکھ لے تو اس پر لکھ۔ مکڑے کی باتوں سے کچھ گتھیاں سلجھ رہی ہیں۔ ذہن کے جالے صاف ہو رہے ہیں۔ مکڑے نے ایک تار سا جیسے میری الجھن کا میرے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ الجھی ہوئی کہانی کا سرا ہاتھ میں آ رہا ہے۔ یہ کہانی نہیں بلکہ ایک مقدمہ ہے جو صدیوں سے فیصلے کے انتظار میں ہے۔

مقدمے کا متن پیش کرتی ہوں۔ ایک زندگی سے بھرپور لڑکی پندرہ سے بیس سال کے درمیان عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے۔ شادی یا نکاح واحد وہ بندھن جو انسان اپنی مرضی سے باندھتا ہے۔ پھر خدا کی رضا ہو تو نسلِ انسانی آگے بڑھتی ہے۔ جب اس لڑکی سے جو اس مرد کی منکوحہ ہے اس سے اس مرد کا دل بھر جائے تو مرد دوسری عورتوں میں دلچپسی لینے لگتا ہے۔ لڑکی اس وقت تک عورت بن چکی ہوتی ہے۔ وہ عورت مرد سے وفاداری اور محبّت کا تقاضا کرتی ہے۔ جواباً اسے شوہر کی طرف سے بہلاوا یا پھر بے اعتنائی کے مزید بڑھ جانے کا تحفہ ملتا ہے۔

شوہر سے تو یہ تحفہ ملتا ہی ہے۔ اگر وہ اپنے سگے ماں باپ سے بھی دل کی بات کہتی ہے کہ اس کا دل جل رہا ہے تو ماں باپ بھی یہ تسلّی بھرا جملہ بول کر چپ کروا دیتے ہیں کہ صبر کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آئے روز میاں بیوی میں تکرار رہتی ہے۔ مانا کہ مرد کو دوسری شادی کا حق ہے مگر اسے معاشقوں کا حق کس مذہب یا سماج نے دیا ہے۔ آئے  روز کے نئے نئے معاشقوں سے بیوی کا دل زخمی ہو جاتا ہے۔ اور اس کے پاس سوائے خون رونے کے اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسی بیویوں کو شوہر کی محبّت اور توجہ بھیک کی طرح ملتی ہے۔ بیوی کی عزت نفس پر پہلا قدم جس کا پڑتا ہے وہ اس کا اپنا شوہر ہوتا ہے۔ عورت خاموشی سے اپنی محبّت اور مقام کا قتل برداشت کبھی بھی نہیں کر سکتی۔ وہ بھکارن بن جاتی ہے۔ ہر وقت کاسہ اس کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اور وہ اپنا حق مانگتی رہتی ہے۔

شوہر کو اپنے مطلق العنان ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ ادھر بیوی نے کچھ کہا اور فارغ کر دینے کی دھمکی آن موجود۔ جو کہانیاں میرے ذہن میں حشر برپا کیے ہوے تھیں، ان کہانیوں میں تو بے لگام شوہر گھریلو جھگڑے میں بڑے آرام سے طلاق دے دیتا ہے۔ وہ رشتہ جسے جوڑنے کے لئے کئی افراد نے برات میں شرکت کی تھی۔ ولی ، وکیل اور گواہان کا بندوبست کیا تھا۔ ایک کاغذ پر باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا اس کو بند کمرے میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ لڑکی ماں باپ کے گھر آجاتی ہے۔ اور اس بہشتی زیور پڑھی لڑکی کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ایسے طلاق نہیں ہو جاتی، واپس جاؤ۔ وہ تو غصّے میں اس کے منہ سے نکل گیا ہو گا۔ وہ لڑکی واپس آ جاتی ہے۔ چار دن بعد پھر وہی جا، تجھے طلاق ہے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے کہ بات بے بات “طلاق دی میں نے” کا جملہ لڑکی سنتی رہتی ہے۔ اور ایک دن مستقل طور پر سب چھوڑ کر میکے آ جاتی ہے۔

ماں باپ معاشرتی یا معاشی دباؤ کی وجہ سے اسے پھر دھکا دیتے ہیں کہ جا گھر بسا۔ اب لڑکی جانے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ ماں اسے زبردستی جانے کو کہتی ہے جس سے لڑکی کے دل کو چوٹ لگتی ہے کہ یہ ہیں میرے اپنے جو مجھے پھر اسی جگہ جانے کو کہ رہے ہیں۔ جو نہ تو مجھ پر حلال ہے اور نا جہاں میرا کوئی من میت ہے۔ اب نہ یہ گھر اور نہ وہ گھر۔ اب ہو گا ایک اپنا گھر۔ اس کے لئے وہ دل لگا کر محنت کرتی ہے مگر اکیلی عورت کیلئے دنیا مکڑوں سے بھرا ایک جنگل ہے۔ کم تعلیم یافتہ اور بے ہنر لڑکی مسلسل رنگ نہ لاتی محنت، ٹوٹا دل، بچے سے جدائی اور احساس کم مائگی، اس کے اندر کی موجود قابل قدر احترام عورت کو مار دینے کیلئے ابھی کافی نہیں کہ اس پر طرہ یہ کہ مسلسل تنہائی کا عذاب۔ یہ اڈھیر بن اسے ایک ایسی جگہ پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ ایک اور مکڑے نما آدم کے بناۓ جالے میں خود ہی جا بیٹھتی ہے۔ صرف اس لیے کہ پہلے کون سا حلال رشتہ تھا اس مرد سے کہ اب جو ہوگا وہ حرام ہو گا۔ بگڑتے نفسیاتی مسائل کا بوجھ بد ترین واقعات اور حادثات کو جنم دیتا ہے۔

یہ سب پڑھنے کے بعد مجھے بتائیں کہ ہم کس سماج میں جی رہے ہیں؟ سماج کہتا ہے کہ اسی شوہر کے ساتھ رہو اور طلاق کی بات کو پی جاؤ۔ مذہب کہتا ہے کہ یہ حرام ہے۔

میں نے کئی ایسی خواتین کو دیکھا ہے جو شوہر کے ساتھ بے نکاحی رہ رہی ہیں۔ معاشرہ اور سماج سب جانتا ہے مگر آنکھیں بند کیے ہوے ہے اس غیر شرعی عمل پر۔ اچھا یہی ہے۔ وہ عورتیں بھی ٹھیک کر رہی ہیں جو شوہروں کے گھر نہیں چھوڑ رہیں اور بات کو دبا گئی ہیں۔ کر تو وہ عورتیں بھی ٹھیک رہی ہیں کہ اگر حرام ہی کرنا ہے تو تو بندہ تو من چاہا ہو۔ اپنی زندگی پر اختیار تو اپنا ہو۔ سب ٹھیک ہو رہا ہے۔

اس ادھیڑ بن میں کہ کیا ٹھیک اور کیا ٹھیک نہیں۔ وہاں سب ہی کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ ہم کسی کی مصیبت یا مشکل کو کم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ جب ہم قرون اولیٰ کی طرح طلاق کے بعد عورت کے لئے آسانیاں پیدا کر ہی نہیں پائے۔ کوئی لائحہ عمل ہی نہیں ہمارے پاس تو وہ قندیل بلوچ بنے یا کچھ اور، ہمیں بولنے کا کوئی حق ہی نہیں۔ صرف راستہ بتانا بہت آسان ہے۔ ہر کوئی بتاتا ہے مگر کرایہ آج تک نہیں نکلا کسی جیب سے۔ اپنی عزت کا پاس عورت سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کیسی عزت ہے جو عورت کے مخصوص جسمانی اعضا تک ہی محدود ہے۔ کیا عورت کی بحیثت فرد کوئی عزت نہیں؟ اس کی محبّت اور وفا کی کوئی عزت نہیں؟ اس کی نفسیات یا سوچ کسی عزت کی متقاضی نہیں؟ کیا عورت صرف جسم کا نام ہے؟ سوچ ، روح، خیالات، شوق، مزاج ان سب سے عاری ہے کیا عورت؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).