معصوم لڑکیاں کہاں جائیں؟


عورت پیشہ کرے تو کنجری کہلاتی ہے لیکن مرد کو اس سے تسکین ملتی ہے کیونکہ وہ اس کو استعمال کر سکتا ہے،  نوچ کھسوٹ سکتا ہے  لیکن یہی عورت محنت کرنے،  کمانے نکلے تو اس کی مردانگی کو تکلیف ہوتی ہے،  وہ اسے کام کرتا نہیں دیکھ سکتا۔ اسے عزت نہیں دے سکتا۔ اس وقت بھی وہ چاہتا ہے کہ یہ عورت محنت نہ کرے، پیشہ کرے۔ یہ کون سے مرد ہیں اس اکیسویں صدی میں، آپ کو نہیں معلوم یہ ہمارے پاکستانی معاشرے کے غیرت مند،  شہوت پرست،  گندی نظروں والے مرد جو بہت ٹھسے سے اپنی موجودگی کی خبر گاہے گاہے دیتے رہتے ہیں کبھی سر راہ لڑکی کو چھیڑ کر،  کبھی رشتہ نہ دینے پر لڑکی کا قتل کرکے، کبھی اپنا بدلہ نکال کر لڑکی کو برہنہ بازاروں میں گھما کر،  کبھی سر راہ گولی مار کر۔

معصوم مہوش جس کی خون میں لت پت تصویر دیکھ کر انسان لرز جائے۔ عزت سے کمانے نکلی اور ایک بے غیرت بدمعاش کی گولی کا نشانہ بن گئی کیونکہ اس نے اپنی عزت کو اس مرد کے حیوانی جذبات کی بھینٹ نہ چڑھایا، اس کی نفسانی خواہشات کو اپنے جوتے تلے روند دیا لیکن نتیجہ کیا ہوا اس جنسی درندے نے اپنی ہوس پوری نہ ہونے پر سرعام سب کے سامنے اسے جان سے مار کر اپنی وحشی جبلت کی تسکین کرلی، کچھ بے غیرتوں نے اس واقعے کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دی تاکہ مجرم بے نقاب ہو لیکن اس کا الٹا اثر ہوگا کسی بے چاری غریب مظلوم لڑکی کی ہمت نہیں ہوگی اپنے گھروالوں کی کفالت کے لیے باہر نکلنے کی، ہر لڑکی ہزار دفعہ سوچے گی اس کی نظر میں مہوش کا انجام ہوگا۔ کیا یہ ویڈیو بنانے والے، تماشہ دیکھنے والے مرد نہیں تھے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی اس بے غیرت سانڈ کو ڈھیر کردیتے، بعد کے نتائج بعد میں دیکھے جاتے لیکن معصوم لڑکیوں کا مان تو رہ جاتا کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ بہت واویلا مچتا کہ قانون ہاتھ میں لے لیا لیکن اس جان سے مارنے والے گارڈ نے بھی تو قانون ہاتھ میں لیا تھا مہوش کی جان لے کر۔

پچھلے دنوں لاڑکانہ سندھ میں بھی ایک درد ناک واقعہ ہوا تھا جہاں لوک گلوکارہ ثمینہ سندھو کو جو حاملہ بھی تھی فنکشن کے دوران گولی مار کر ہلاک کیا گیا وہ تو دہرا قتل تھا،  گانے کے دوران اسے گن پوائنٹ پر کھڑے ہوکر گانا گانے کا کہا اور جیسے ہی وہ کھڑی ہوئی اسے گولیوں کا نشانہ بنادیا، واقعہ کو ہوائی فائرنگ  کا نتیجہ قرار دے کر ہوا میں اڑا دیا گیا۔ غریب گلوکارہ اپنے خاندان کی کفیل تھی اس کے کیس میں آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن اس واقعے  کی ویڈیو بھی چیخ چیخ کر قاتل کا پتہ دے رہی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اور قانون بنانے والے سب سو رہے ہیں کیونکہ یہ کسی امیر کبیر، جاگیردار، وزیر، سفیر کی بیٹی نہ تھی ایک غریب گلوکارہ تھی۔ کب تک اس طرح غریب خواتین ظالم وحشی، ہوس پرست مردوں کی بربریت کا نشانہ بنتی رہیں گی، کب تک مہوش اور ثمینہ جیسی لڑکیاں سر عام موت کو گلے لگاتی رہیں گی۔

سارا ملک الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے۔ سیاست کی گہماگہمی ہے۔ کیا فائدہ ان باتوں سے جو اہنے ملک کے غریب عوام کی زندگی کی حفاظت نہ کر سکیں۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی اس بچی کے خون ناحق پر کچھ کہتا۔ کیوں کہیں انھیں تو اس کیڑے مکوڑے جیسے لوگوں سے ووٹ لیکر اپنے ٹھنڈے ایوانوں  میں جانا ہے جہاں پانچ سال ایک دوسرے کو بے وقوف بنا کر وقت ضائع کرنا ہے، غیر ملکی دورے کرنے ہیں۔ اگر بیمار پڑ جائیں تو علاج کروانے باہر چلے جانا ہے۔ بے وقوف عوام پھر بھی ان کے گن گا رہے ہیں۔ مہوش جیسے واقعات درد مند دل کو تو جھنجھوڑ  سکتے ہیں لیکن بے حس قائدین کی حس نہیں جگا سکتے، ہم آپ لکھ کر اپنی بھڑاس نکال لیں گے لیکن مہوش جیسی ہزاروں لڑکیاں جو گھر سے کمانے نکلتی ہیں ماں باپ کا سہارا بننے کو ان کے ساتھ اس طرح کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ اس طرح کے واقعات سینکڑوں کی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔

 مرد کی تہذیبی تبدیلی ضروری  ہے۔ اس کی تربیت ضروری ہے کہ عورت اس کے لیے کیا ہے۔ عورت لذت کی چیز ہے یا برابر کی انسان۔ معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔ وویمن ہراسمنٹ بل نافذ ہوچکا ہے۔ قانون نافذ ہونے سے جرم ختم  نہیں ہونگے۔ اس کے لیے آگاہی ضروری ہے۔ بچیوں کو پتہ ہو کہ اس قانون کو کس طرح استعمال کرنا ہے، کب شکایت جمع کروانی ہے، مہوش کے کیس میں بات ہراسمنٹ سے بڑھ کر قتل تک جاپہنچی ہے اب تو قاتل کو اس کے جرم کی کماحقہ سزا دینی چاہیے۔ جب تک قانون کی عمل داری نہیں ہو گی، تب تک معاشرہ میں ایسی بدمعاشیاں کھلے عام ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).