تھائی لینڈ کے پتایا ساحل کی سیر


دن کے اختتام پہ ٹریننگ کوآرڈینیٹر میڈم منٹی نے اعلان کیا کہ کل ہم نے پتایا ساحل کی سیر کو جانا ہے۔ وہاں انڈین بریانی کا لنچ بھی ہو گا۔ بریانی کا نام سنتے ہی ہماری رال ٹپکنے لگی اور ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ ہم بلاوجہ تالیاں بجانے کے عادی نہیں۔ کرکٹے میچ کے چھکے پہ، قریبی رشتہ دار یا دوست کی ناکامی پہ یا پھر مفت کھانے کی آفر پہ ہی تالی بجاتے ہیں۔ ہمارے تھائی میزبان حیران تھے کہ ہمیں پتایا ساحل سے زیادہ دلچسپی بریانی کھانے میں تھی۔

ہمیں بنکاک آئے ہفتہ ہو چلا تھا اور ہم پاکستانی کھانوں کو ترس گئے تھے۔ تھائی ڈشز جو دنیا بھر میں شہرہ رکھتی ہیں ان کا ذائقہ اتنا عجیب اور بو دار تھا کہ ان کو دیکھ کر ہی ہم بھوک بھول جاتےتھے اور نانی یاد آ جاتی تھی۔ لہذا بریانی کا نام ہی ہماری رال کے بند توڑنے کو کافی تھا۔ رات کو خواب میں بھی بریانی کی اشتہا انگیز خوشبو آتی رہی اور چکن پیس بیلی ڈانس کرتے دکھائی دیتے رہے۔

صبح نو بجے تین عدد گاڑیاں ہوٹل کے باہر کھڑی تھیں جن کا انتظام ہمارے میزبان ادارے ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( AIT) بنکاک نے کیا تھا۔ گاڑی کے پاس کھڑی تھائی میزبان خاتون اور ڈرائیور نے اپنے مخصوص تھائی سٹائل میں ’سوا دی کھا‘ (خوش آمدید) کہا۔ تھائی لوگ دونوں ہاتھ جوڑ کر، ہلکا سا جھک کر، دھیما سا مسکرا کر آپ سے یوں تپاک سے ملیں گے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔

ہوٹل کے مرکزی دروازے پہ لب سڑک ایک چھوٹا سا مندر ہوٹل انتظامیہ نے بنایا ہوا تھا جس میں چھوٹا سا دیدہ زیب سنہری رنگ کا مجسمہ نصب تھا۔ مجسمے کے گلے میں گیندے کے پھولوں سے بنے ہار لٹکے رہتے تھے۔ تھائی خواتین اور ڈرائیورز نے وہاں بھی ہاتھ جوڑ کے دعائیں مانگیں۔ ڈرائیور کے بالکل سامنے گاڑی میں سدھارتھ بدھا کا مقدس مجسمہ رکھا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے ہاتھ جوڑ کر مجسمے کے سامنے آنکھیں بند کر کے خاموشی سے دعا کی۔

بند آنکھیں، گول مٹول موٹا چہرہ، سر کے بال تازہ مونڈھے ہوئے، ہاتھ جوڑے وہ ڈرائیور بالکل بھکشی یا خرقہ پوش ملنگ بابا لگ رہا تھا بس گیروے رنگ کا چولا نہیں پہنا تھا۔ ہم پیار سے ڈرائیور کو ’کاکا منا‘ کہتے تھے جو غالبا پی ٹی وی کے کسی پرانے ڈرامے کا کوئی کردار ہوا کرتا تھا۔   ایک بہت ہی دلکش ننھا سا مجسمہ ڈرائیور مرر کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ تھائی لینڈ میں بدھا کے مجسمے آپ کو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ مندر، ہوٹل، مارکیٹ، گاڑی، دکان ہر جگہ جاذب نظر مجسمے توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں جن پہ تھائی لوگ پھولوں کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور گھٹنوں کے بل کھڑےمن کی مرادیں مانگتے نظر آتے ہیں۔

جب ڈرائیور بدھا کے سامنے جھکا تھا تب ہم بھی آیت الکرسی پڑھ کر اپنے گریبان میں پھونک مار رہے تھے۔ ویسے بھی ہم پاکستانی سڑکوں پہ  سفر کرتےاللہ اللہ کا ورد کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سڑک پہ ایسے کرتب دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

بنکاک سے پتایا کا دو گھنٹے کا سفر بہت خوب کٹا۔ ڈرائیور اور کوآرڈینیٹر کے علاوہ عمران فاروقی، قیصر وسیم، محمد مشتاق، میڈم میمونہ اور میڈم عالیہ بتول اسی گاڑی کے مسافر تھے۔ دو گھنٹے کا سفر لطیفوں، شعروں اور قہقہوں میں یوں کٹا کہ مزہ آ گیا۔   ایک آدھ لطیفہ تھائی خاتون اور ڈرائیور کے لیے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی سعی بھی کرتے۔ انگریزی ایسی لولی لنگڑی نکلتی کہ ترجمہ بذات خود ایک لطیفہ بن جاتا۔ سفر اتنا اچھا گزرا یقینا بدھا نے کاکے منے کی اور خدا نے ہماری دعا کو سن لیا تھا۔

عمران نے ہمیں گاڑی میں خبردار کیا اور کہا کہ ہمہ تن گوش سنیں۔ وہ پڑھنے لگا
“نمبر ایک! تھائی لینڈ میں سر عام، سر بازار یا سر ساحل کسی کے بے حد قریب ہونے سے اجتناب کریں۔
نمبر دو! تھائی لینڈ ساحلوں پہ بغیر کپڑوں کے سن باتھ ممنوع ہے۔ (مشتاق کھی کھی ہنسنے لگا)۔
نمبر تین! خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر چھو نہیں سکتے۔ “ (قیصر نے کہا ’اور مرضی پوچھنے کی کوشش بھی نہ کرنا)۔

عمران کے ہاتھ میں وہ صفحہ تھا جو تھائی لینڈ آنے سے قبل ہمیں ای میل کیا گیا تھا جس میں تھائی کلچر کا مختصر تعارف کروایا گیا تھا۔ تھائی مندروں میں داخل ہونے کے آداب بھی درج تھے۔ جوتے اتار کے مندر میں داخل ہوں۔ خاموش رہیں اور اونچی آواز میں بات سے پرہیز کریں۔ بدھا کے مجسموں کا احترام کریں۔ تھائی لوگ اونچی آواز میں سوال پوچھنے کو اچھا تصور نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب عمران نے قصدا نہیں پڑھا۔ کہنے لگا آپ پتایا ساحل جا رہے ہیں بس یہی باتیں دھیان میں رہیں۔

پتایا شہر پہنچے تو ڈبوں میں بند بریانی اور سموسے کھانے کو دیے گئے۔ انہیں دیکھ کر کافی مایوسی ہوئی۔ گزری شام کو بریانی کے نام پہ ہمارا رال ٹپکانا رائیگاں گیا۔ بریانی کا نہ تو ذائقہ بریانی کا تھا نہ خوشبو۔ نہ مرچ مصالحہ وہ جس سے ہم پاکستان میں آشنا تھے۔ بس بے مزہ چاول تھے۔ چکن پیس بد ذائقہ۔ ہم نے خواب میں جو ڈانس کرتے لیگ پیس دیکھے تھے وہ شاید لاہوری بریانی والے دیکھے تھے۔ بنکاک کے کھانوں سے آنے والی بو ڈبوں میں بند تھی جس سے ہماری جان جاتی تھی۔   بہرحال قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ انسان جو چاہتا ہے وہ بھلا کہاں ملتا ہے۔ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ میڈم منٹی ہم سب کے اترے چہرے دیکھ کے پریشان ہو رہی تھی۔ قیصر وسیم کا سنایا شعر یاد آ رہا تھا
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
ہم نے انڈین بریانی کے تیر کو اپنے جگر پہ جھیل لیا اور صرف پانی پی کر ساحل سمندر کی راہ ہو لیے۔

گلف آف تھائی لینڈ کے ساحل پہ آباد پتایا شہر بلند و بالا ہوٹلوں، شاپنگ مالز، گوگو بارز، طرح طرح کے پکوانوں سے بھرے ریستورانوں، کلبوں، مساج سنٹرز، غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم اور خوبصورت ساحلوں کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ جو بھی بنکاک آتا ہے وہ پتایا دیکھنے ضرور جاتا ہے۔ کیونکہ یہ شہر بنکاک اور سنوارنا بھومی ائیرپورٹ کے قریب پڑتا ہے۔ یہ تھائی لینڈ کا بنکاک کے بعد دوسرا شہر ہے جو سب سے زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

پتایا شہر لیڈی بوائز کے نائٹ شوز، سیکس ٹریڈ اور نائٹ لائف کے حوالے سے بھی کافی جانا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں پتایا ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو آج سیاحوں کے لیے خوبصورت شہر کا روپ دھار چکا ہے۔

شہر سے ساحل سمندر کی طرف جانے والی چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں۔ پتایا میں ہر راستہ آپ کو سمندر کی طرف لے جاتا ہے۔ اس شہر کے سارے رنگ سمندر کے مرہون منت ہیں۔ انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ ’سارے راستے روم کو جاتے ہیں‘۔ پتایا میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارے رستے سمندر کو جاتے ہیں۔

ساحل پہ ہم پہنچے تو چہار سو پھیلی خوبصورتی دیکھ کر حیراں رہ گئے۔ پتایا ساحل انگریزی اور اردو دونوں کی Bay  ’ب‘ تھا۔ سمندر کنارے ریت پر نیلے، پیلے، سرخ، سبز، سرمئی، کالے اور کاسنی رنگ کی چھتریاں تا حد نگاہ لگی تھیں جن کے نیچے لاؤنج کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ کرسیاں اور چھتریاں مل کر ایسے رنگ دکھا رہی تھیں کہ اگر اونچائی سے پتایا بیچ کو دیکھا جائے تو گماں ہو کہ قوس و قزح آسمان سے اتر کر زمیں پہ ٹھہر گئی ہو۔ یہ یقینا کرائے پہ ملتی ہوں گی۔ ہم چونکہ ’مفت خوری‘ میں حکومت پنجاب کے خرچ پہ ٹریننگ کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے لہذا ہم بے فکر ہو کے کالا چشمہ لگائے کرسیوں پہ دراز ہو گئے اور سمندر کا نظارہ کرنے لگے۔

سامنے تا حد نگاہ سمندر کا پانی تھا جس میں کشتیاں جا بجا تیرتی پھرتی تھیں۔ ساحل پہ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ کالے، گورے، ایشیائی، افریقی، عربی، یورپی، امریکی سب گھوم پھر رہے تھے۔ کچھ سمندر میں نہا رہے تھے۔ کچھ ریت پہ اوندھے منہ لیٹے دھوپ سینک رہے تھے۔ چونکہ تھائی لینڈ میں ’نیوڈ سن باتھ‘ خلاف قانون ہے لہذا قانون کے احترام میں انہوں نے کپڑوں کے چند دھاگے سے باندھ رکھے تھے جو انتہائی قریب سے غوروفکر کے بعد دکھائی پڑتے تھے۔ عمران فاروقی پمفلٹ سے جو سخت ہدایات ہمیں پڑھ کر سنا رہا تھا ان سے یہ لوگ بالکل نابلد تھے۔

نیکر شرٹ کا رواج عام ہے۔ خواتین کو دیکھ کے یوں لگتا تھا جیسے بچوں کے سکول بیگز پر بنی ’باربی ڈولز‘ سکول لائف سے اکتا کر نیکر شرٹ پہن کر پتایا کی سیر کو نکل آئی ہوں۔ تھائی باربییز بوڑھے ریٹائرڈ، موٹے توند والے گوروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم پھر رہی تھیں۔ (ہمیں بالکل حسد کا احساس نہیں ہوا)۔
ہم کافی دیر تک سمندر اور ساحل پہ پھرتے لوگوں کو آنکھوں میں سموتے رہے۔ میڈم منٹی نے بریانی کھاتے ہمارے چہرے دیکھے تھے۔ اسی لیے شاید ترس کھا کر کے ایف سی سے چکن پیس اور فرائز منگوا لیے تھے اور پچھلا حساب برابر کر دیا تھا۔

چکن پیس اور فرائز چٹ کرنے کے بعد ہم بھی ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ بے شمار پھیری والے ہیٹ پہنے رنگا رنگ اشیاء بیچتے پھرتے تھے۔ ساحل پہ اتنے رنگ بکھرے تھے کہ سڑک کنارے لگے ناریل کے درخت بھی چھتریوں کے اوپر سے گردن لمبی کیے سمندر میں جھانکنے لگے تھے۔ ناریل کے پیڑوں سے ذرا پرے بلند و بالا عمارتیں بھی مبہوت کھڑی نظارہ کر رہی تھیں۔ ریت پہ ننگے پاؤں چلتے بھانت بھانت کے لوگ ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ دھنگ رنگ چھتریوں کے سائے میں بیٹھے کچھ لوگ تھائی سٹریٹ فوڈ کا لطف اٹھا رہے تھے تو کوئی ٹیٹوز بنوا رہے تھے یا پھر فٹ مساج کروا رہے تھے۔ کچھ من چلے ہلا گلا کر رہے تھے۔ کبھی گنگناتے تو کبھی ناچنے لگتے۔ جو چلتے چلتے تھک گئے تھے وہ منہ پہ ہیٹ رکھے اونگھ رہے تھے۔

تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ سورج کی کرنیں پانی میں منعکس ہو کر حرارت میں مزید اضافہ کر رہی تھیں کہ یکا یک بادل امڈ آئے۔ سیاہ بادل۔ جیسے سمندر سے ابھی سیر ہو کر نکلے ہوں اور فضا میں تیرنے لگے ہوں۔ سہانے موسم میں رونق اور بھی دوبالا ہو گئی۔ ہر طرف لوگ تصویریں بنا رہے تھے۔ کلک۔ کلک۔ کلک۔   ہر کوئی منظر کو کیمرے اور موبائل میں قید کر لینا چاہتا تھا کہ جب پتایا سے دور اپنے گھروں میں بیٹھے تصاویر دیکھیں گے تو چند ساعتیں پھر سے خوشگوار بیت جائیں گی۔

ہم سمندر میں نہائے بھی لیکن گدلا مٹیالا پانی ہمیں کچھ زیادہ نہ بھایا اور ہم نے پھر سے ساحل پہ چلنے کو ترجیح دی۔ بچپن میں ہم دوست راجباہ میں نہایا کرتے تھے تو کتنا اچھا لگتا تھا۔ آج نہ جانے کیوں اتنا بڑا سمندر وہ لطف نہ دے سکا جو ہمارے گاؤں میں بہتے، فصلوں کو سیراب کرتے چھوٹے سے راجباہ میں نہانے سے آتا تھا۔
عمر رواں پھر کبھی نہیں مسکرائی بچپن کی طرح
میں نے گڑیا بھی خریدی کھلونے بھی لے کر دیکھے

ناریل کے درختوں تلے ساحل کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پہ پیدل چلنا بھی ایک خوبصورت تجربہ تھا۔ ایک طرف نیلا سمندر، دوسری طرف رنگ برنگے لوگوں کا بحر رواں اور سڑک پہ دوڑتی ہر رنگ کی گاڑیاں ہر سیاح کا دل موہ لیتی ہیں۔

میڈم منٹی نے دو کشتیوں کا انتظام کیا اور ہم سب دو دھڑوں میں بٹ کر کشتیوں میں سوار ہو گئے۔ ساحل سے دور جاتی کشتی سے ساحل کا نظارہ بہت سہانا تھا۔ کشتی رانی کے دوران عاصم کے چٹکلوں نے ان پلوں کو یادگار بنا دیا۔ جب قہقہوں کی آواز ہماری کشتی سے اٹھتی تو دوسری کشتیوں میں بیٹھے سیاح اور سمندر میں جھانکتے ناریل کے پیڑ سب مسکرانے لگتے۔ ہماری میزبان تھائی خواتین (جن میں ایک کا تعلق میانمار سے تھا) کو ہماری پنجابی زبان سمجھ تو نہیں آتی تھی مگر وہ مسکراہٹ کی زبان کے ذریعے ہمارے خوشی بھری لمحوں میں شریک ہو جاتیں۔

شام کے پانچ بج رہے تھے۔ ہم بنکاک واپس جانے کے لیے گاڑیوں میں سوار ہو رہے تھے۔ دن اتنا خوبصورت گزرا تھا کہ آئندہ کبھی بھی پتایا آنے کا موقع ملا تو بریانی کھانے کی خوشی میں تالیاں نہیں بجیں گی بلکہ پتایا کی سیر کی خوشی میں دل تالیاں بجانے لگے گا۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti