راجا گدھ اور عشق کا عین ،شین، قاف جیسی تحریروں کا جواز


احتساب

ببلی کتیاں والے کو شراب نوشی کے الزام میں دھر لیا گیا۔
ببلی نے اعترافِ جرم کے بجائے اپنی بے گناہی کا واویلا کیا تو ڈیوٹی پر موجود حوالدار کا پارہ چڑھ گیا۔
اُس نے ببلی کی خوب چھترول کی اور ماں بہن کی غلیظ گالیاں دیں یہاں تک کہ وہ تیر کی طرح سیدھا ہو گیا اور مک مکا کی دہائیاں دینے لگا۔
مک مکا کے پیسوں سے شراب کی ایک بڑی بوتل منگوائی گئی۔

پوز

سات سال کا ایک پہاڑی بچہ، ہوا میں کلاشنکوف لہرا رہا ہے۔
اُس نے جو فوجی وردی پہنی ہوئی ہے اس پر تمغۂ شجاعت صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
ابھی کچھ دیر پہلے وہ ایک دیو ہیکل پتھر پر دونوں پاؤں جمائے کھڑا تھا۔
پتھر اپنی جگہ سے سِرک رہا ہے۔
نیچے آٹھ ہزار فٹ گہرائی ہے۔
فوٹوگرافر، ایک شاہکار تصویر کھینچنے ہی والا ہے۔

صدقہ جاریہ

اردو کے لیکچرر نے بزم ادب کی کلاس میں صدقہ جاریہ کا فلسفہ بیان کیا جواُسے فوراً سمجھ آگیا۔
وہ پودوں کو باقاعدگی سے پانی ڈالنے لگا۔
آوارہ بلیوں کو اپنے حصے کی روٹیاں کھلا دیتا۔
چھت پر دانہ ڈالنا کبھی نہ بھولتا۔
ہر چار مہینوں بعد خون کی ایک بوتل ضرور عطیہ کر دیتا۔
اُس نے امتیازی نمبروں سے لاء کا امتحان پاس کیا اور وکالت شروع کر دی۔
وہ آدھے سے زیادہ مقدمے مفت لڑتا۔
اُس نے کئی جبری مزدور رہا کروائے۔
یتیم بچوں کو ان کی وراثت میں حصہ دلوایا۔
پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کی جان بخشی کروائی۔
ایک روز وہ توہینِ مذہب کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار، تیرہ سالہ مسیحی لڑکے کی پیروی کرتے ہوئے مارا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارنے والا بھی صدقہ جاریہ کی تلاش میں تھا۔

تجرباتی جانور

سعادت بزمی ایک مشہور سائیکالوجسٹ ہے جو پچھلے پندرہ برسوں سے بھورے اور سیاہ چوہوں میں اکتسابی بے چارگی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
وہ چوہوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں پوری جانکاری رکھتا ہے مگر چوہے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
بعض اوقات وہ کسی چوہے کو پنیر کا ٹکڑا کھلانے اور اسے بجلی کا جھٹکا دینے کے درمیانی وقفے میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہے کہ کہیں وہ خود بھی ایک تجرباتی جانور تو نہیں۔

آزادیٔ اظہار
بیرکوں میں بند کتے گوشت کی بُو سونگھ کر بھونکنے لگے تو بادشاہ نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونسی اور سارا شہر بہرا ہوگیا۔

راجا گدھ اور عشق کا عین، شین، کاف جیسی تحریروں کا جواز

(ایک شارٹ نوٹ)
خاکسار کو اپنے ایامِ جوانی خوب یاد ہیں کہ جب آتش جوان اور لوہا گرم تھا تو۔ ”سبز پری“ نامی ایک خاتون کی مدح میں سو عدد نظمیں لکھ چکنے (بلکہ نچھاور کرنے) کے بعد ِتلوں میں تیل نہ رہا اور عرض ِشوق کی کوئی کلی چٹک کر معراجِ گل تک نہ پہنچی تو فی الفور معاملات ”وہ، میں اور خدا“ تک جا پہنچے۔ اگلے چند برسوں میں قریب قریب تمام احباب کو اسی بھنور میں ڈوبتے اور اُبھرتے دیکھا تو معلوم ہوا، دو محبتوں کا درمیانی وقفہ ”تصوف“ کہلاتا ہے (یعنی قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں)۔ جلد ہی یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ رومان انگیخت تصوف، خود فریبی کی سیاہ چادر سے زیادہ کچھ نہیں، جو اپنے آخری تجزیے میں ایک ناکام یا ناشاد محبت کے عریاں تن کو ڈھانپنے کا بے ثمر وسیلہ ہے۔

محبت اور تصوف کے رنگوں سے مملو، خواہش اور خوف کی یہ نا مختتم جنگ، ہمارے سماج کے ہرباشعور اور حساس فرد کا نوحہ ہے کہ جس کی جبلّت اُسے محبت کا پھل چکھنے پر اُکساتی ہے تو ٹھیک اُسی لمحے اُس کے چہار اطراف سختی سے کسا ہوا ابدی اخلاقیات کا پھندہ، اِس پھل کو شجرِممنوعہ میں تبدیل کر دیتا ہے۔

دلِ مضطرب، پاسبانِ عقل کی عمل داری سے نکلے تو محبت کے تقاضے سمجھے، عقل نگوڑی بھی کیا کرے کہ ہم لوگ ابھی ہوش مندی اور شعور کی اُن منازل تک پہنچ ہی نہیں پائے جہاں جبلّتوں اور اخلاقیات کے درمیان مصالحت کا کوئی پہلو نکل سکے۔ جبلّتوں اور اخلاقیات کا یہ تصادم اتنا ہولناک اور مہیب ہے کہ عورت اور مرد، دونوں ہی محبت کے بے ساختہ اور برجستہ رخ تک رسائی میں ناکام رہتے ہیں اور محبت کہ جس کا بنیادی وظیفہ آزاد کرنا تھا، بالآخر ہمیں مزید غلام بنا ڈالتی ہے۔

راجا گدھ اور عشق کا عین، شین، قاف جیسی تحریروں کا واحد جواز یہی تشنگی اور نا آسودگی ہے۔ جب تک احساسِ گناہ میں لتھڑی ہوئی محبت باقی رہے گی، لوگ بارش کے التباس کو ابرِکرم جان کر پیاس کی نت نئی فصلیں اُگاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).