ایک صدی قبل اجمیر شریف کی زیارت کا سبق آموز احوال (مع نادر تصاویر)


(میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے متعلق ان کا کہنا ہوتا تھا کہ انھوں نے اس کا چپہ چپہ دیکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام” سفری زندگی“ رکھا تھا۔ ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔ ذیل کے اقتباس میں انہوں نے اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین کے روضہ کی زیارت کا احوال بیان کیا ہے)

٭٭٭     ٭٭٭

1922ء کا اخیر تھا۔ میں بڑودہ سے دس روز کی رخصت پر گھر جا رہا تھا۔ راستے میں اجمیر شریف میں جناب حضرت معین الدین صاحب چشتی کے روضہ کی زیارت کا احوال تحریر کرنا نہایت ضروری خیال کرتا ہوں۔

بھائی، جان محمد ،میرا رفیق سفر تھا جو ہمیشہ گھر سے لاپتہ رہتا تھا۔ اب افریقا سے اپنے وطن واپس آیا تھا اور گودھرا میں ہمارے پاس آ کر ٹھہر گیا تھا۔ اس کے پاس روپیہ پیسہ کچھ نہیں تھا۔ صرف افریقا سے لایا ہوا کھوپو یعنی ناریل کے پتوں کی بنی ہوئی ایک ٹوکری تھی جس میں ایک سیفٹی ریزر، ایک صابن دانی اورایک سیاہ آبنوس کی لکڑی کا رول تھا۔ بستر وغیرہ بھی شاید نہیں تھا۔

جب میرا پاس وغیرہ آ گیا، جو کہ براستہ اجمیر شریف تھا، تو ہم ہر دو گھر کو روانہ ہوئے۔ مکان سے چلتے وقت بھائی جان محمد نے اپنے خاکی کوٹ کی آستینیں، جو کہ قدرے اچھی تھیں، پھاڑ ڈالیں۔ جب میں نے کہا یہ کیا کرتے ہو، کوٹ خراب کرتے ہو تو کہنے لگا تم کو کیا۔ میں چپ ہو گیا کیونکہ بھائی جان محمد طبیعت کا بڑا اکھڑ اور عقل کے مادہ سے خالی تھا۔

 ہم دوہد سے روانہ ہو کر اگلے روز صبح اجمیر شریف پہنچ گئے۔ گاڑی سے اتر کر ایک مسافر خانہ میں، جو کہ سٹیشن کے قریب ہی تھا، جا ٹھہرے۔ جب سٹیشن سے نکل کر جا رہے تھے تو ایک شخص جو کہ خانقاہ کا مجاور معلوم ہوتا تھا، سٹیشن کے باہر دروازہ پر ملا اور پوچھا کیا روضہ پاک کی زیارت کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا آئے تو اسی نیت سے ہیں۔ اس نے ہم کو کچھ سوکھے ہوئے پھول دیے اور کہا میں تم کو بوقت زیارت فلاں دروازہ پر ملوں گا۔

میں اجمیر شریف سے بالکل ناواقف تھا۔ ہم لوگ مسافر خانہ میں چند گھنٹے آرام کر کے اور کپڑے بدل کر چل دیے۔ جب دروازہ پر پہنچے جس کو نظام گیٹ کہتے ہیں، تو ایک شخص ہمارے ساتھ ہو لیا اور مسجد میں،جو کہ روضہ کے احاطہ میں ہے، لے گیا۔ ہم کو کہنے لگا پہلے یہاں پر نماز پڑھو۔ میں نے کہا نماز کا کوئی وقت نہیں ہے۔ تب اس نے کہا نفل ہی پڑھ لو۔ خیر نیک کام میں حجت کیا، ہم نے وضو کیا اور دو رکعت نفل پڑھے۔ اس عرصہ میں وہ شخص مسجد سے باہر ہمارا انتظار کرتا رہا۔ جب ہم مسجد سے نکلے تو پھر وہی شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ۔ہم کو روضہ شریف کے سامنے برآمدہ میں ایک اور شخص، جو کہ وہاں پر پڑا تھا اور ہمارے جانے پر اٹھ کر بیٹھ گیا، کے سامنے لے جا کر بٹھلا دیا۔ خود پیچھے ہٹ کر کھڑا رہا۔ اب ہم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے ہم کو فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا جیسا کہ عام مسلمانوں میں رواج ہے بلکہ ضروری ہے۔

Dargah-of-Khwaja-Mu-in-ud-din-Chisti-in-1914

ابھی ہم نے فاتحہ خوانی سے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے کہ اس شخص نے جس کے سامنے ہم دو زانو بیٹھے تھے، کہا نذر نیاز کا اعلان کرو (یعنی منت مانو)۔ میں نے کہا ہم کسی مطلب یا مراد کے لیے نہیں آئے۔ بس رخصت پر گھر جاتے ہوئے ارادہ کیا کہ چلو خواجہ صاحب کے روضہ کی زیارت کرتے چلیں۔ پھر اس نے کہا واہ صاحب۔ یہاں آیا ہوا کوئی نذر نیاز کے بغیر نہیں جاتا، ضرور کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا۔ آخرکار مجبور ہو کر کہا کہ چلو بتاشوں کے لیے سوا روپیہ دے دیتے ہیں لیکن وہ شخص ہم سے تقاضا کرکے ڈھائی روپے تک لے گیا۔ میں نے اسی وقت پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اس کو دے دیا او ر وہ شخص جو کہ ہم کو ساتھ لایا تھا، ابھی پیچھے ہی کھڑا تھا، فوراً آگے بڑھا اور نوٹ پکڑ کر نیاز اور شیرینی لے آیا جو کہ زیادہ سے زیادہ چار آنے کے ہوں گے۔ اس نے یہ شیرینی لا کر اس دوسرے شخص کے آگے رکھ دی جس نے دوبارہ فاتحہ پڑھ کر کہا تم اسے تقسیم کر دو۔ میں نے کہانہیں تم خود ہی بانٹ دو۔

 اس کے بعد وہی شخص کہنے لگا کہ اب اٹھ کر روضہ کی زیارت کے لیے چلو۔ پس ہم ہر دو کو اندر روضہ کے سرہانے لے جا کر بٹھا دیا اور کہنے لگا کہ فاتحہ پڑھو۔ میں نے کہا ابھی باہر دروازہ کے فاتحہ پڑھی تو ہے۔ کیا وہ خواجہ صاحب نے نہیں سنی یا ان تک نہیں پہنچی؟ یہ بزرگ تو ہزاروں میل سے لوگوں کی فریادیں سن لیتے ہیں۔ کیا نزدیک سے ان کو فاتحہ سنائی نہیں دی؟ اس پر وہ صاحب جو وہاں پر تھے آنکھیں لال پیلی کرنے لگے۔ میں نے یہی سمجھا کہ آخر نیک کام میں حجت کیا، فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ ابھی پہلے کی طرح فاتحہ خوانی سے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے کہ پھر وہی نذر نیاز کا مطالبہ ان اندر والے مجاوران نے شروع کر دیا۔ مزہ یہ کہ وہ ایک من پختہ چاول، گھی اور کئی چیزوں کے لیے مناتے تھے اور 80 آنے نقد۔ مجھے فاتحہ شریف تو بھول گئی۔ میں ان سب جنس کی تعداد اور نرخ رکھ کر رقم کی تعداد جمع کرنے لگ گیا جو کہ میرے خیال میں 30 یا 40 روپے بنتے تھے۔ آخر کار مجھے جب کوئی اور جواب نہ سوجھا تو میں نے کہا میرے پاس رقم نہیں ہے۔ جب یہ الفاظ میری زبان سے نکلے تو اسی وقت اس شخص نے، جس کو پانچ روپے کا نوٹ دیا تھا اور ابھی اس کی طرف ڈھائی روپے بقایا تھے، میرے ہاتھوں پر، جو کہ ابھی فاتحہ کے لیے اٹھے ہوئے اور میں حساب کتاب کر رہا تھا، رکھ دیے کہ لیجیے جناب آپ کا بقایا باہر والا۔ پس اس وقت میں لاجواب ہو گیا۔ پھر میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا یعنی دو روپے تو جیب میں ڈال لیے اور آٹھ آنے مزار پر پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے جو جھٹکا دیا تو جو مجاور میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ان کے سر روضہ کے جنگلے سے ٹکرائے۔ ایک چکر روضہ کے اردگرد لگا کر باہر نکل آئے۔ یہ میرا روضہ کے اردگرد طواف نہیںتھا بلکہ ایک طرح سے باہر نکلنے کا بہانہ تھا۔

ajmer 1928 c

 ہاں مجھے یاد آ گیا، وہ کہنے لگے کہ روضہ شریف کے سرھانے جو گڑھا ہے اس سے تبرک خود نکال لو۔ جب میں نے اپنا بازو کچھ دور اندر ڈالا تو مجھے یاد آ گیا کہ کسی شخص نے مجھے کہا تھا کہ بوقت زیارت روضہ شریف کے سرھانے سے تبرک نکالتے وقت خبردار رہنا۔ اندر گڑھے میں ان مجاوروں نے کچھ ایسی ہک لگا چھوڑی ہے جس میں اٹک کر عورت کی چوڑی یا مرد کی انگوٹھی اندر ہی رہ جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ خدا بہتر جانتا ہے۔ پس مجھے وہ بات یاد آ گئی اور میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ فوراً باہر نکال لیا اور وہاں سے بھاگنے میں ہی خیریت سمجھی۔

جب ہم واپس سٹیشن پر آئے تو ایک بوڑھی عورت کو روتے اور فریادیں کرتے سنا کہ مجاوروں نے میرے سے سب کچھ چھین لیا ۔ وہ اس عمر میں لڑکا یا پوتا لینے آئی تھی۔ تب مجھے یقین ہو گیا کہ روضہ شریف پر مجاور نہیں بلکہ ڈاکو، ٹھگ اور بدمعاش لوگ جمع ہوئے رہتے ہیں۔ وہ ناواقف آدمیوں کو جو کہ زیارت کے لیے آتے ہیں، تنگ کرتے اور لوٹ کھسوٹ لیتے ہیں۔ روضہ شیخ عبدالقادر جیلانی صاحب، بغداد شریف، میں بھی گدی نشین ایسے ویسے ہی تھے لیکن اس قدر سینہ زوری وہاں پر نہیں تھی۔ فقیروں کی ٹھیک وہاں پر بھی بھیڑ رہتی تھی لیکن مجاور اتنے ڈاکو نہیں تھے جتنا کہ اجمیر شریف کے روضہ پر۔ بغداد شریف میں بھی ایک دفعہ زیارت کرنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن پھر دوبارہ حوصلہ نہیں ہوا حالانکہ ہم لوگ وہاں پر چھ ماہ رہے تھے۔

پس ہمارے اے مسلمان بھائیو! یہ جو لعنت قبر پرستی اور پیر پرستی ہمارے ہندوستان میں گھر کیے ہوئے ہے اس سے بچو اور اپنا روپیہ پیسہ کسی بھی خانقاہ، پیر یا مجاور کو مت دو جو کہ مفت کا پیسہ عیش و عشرت اور دیگر غیر شرعی کاموں میں گنوا دیتے ہیں۔ مفت کی آمدنی نے ان کو سست اور کاہل بنا دیا ہے۔ پیر پرستی اور خاص کر روضہ پرستی میں کچھ فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ اپنے ایمان و اعتقاد کو خراب کرنا ہے۔ صرف ایک اللہ جل شانہ کی پرستش کرو اور اسی سے سب کچھ مانگو۔ وہی رازق اور کارساز ہے۔ باقی سب عابد بعد وفات چپ اور بے بس ہیں۔ جہاں تک ہو سکے اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو، اپنے اسلامی اور مسلم بھائیوں سے محبت کرو، یتیم اور غریب کی مدد کرو۔ ان ہٹے کٹے مجاوروں کو مت دو اور نا ہی کسی روضہ پر جا کر سوائے فاتحہ کے اپنی مراد مانگو۔ وہ اب کچھ نہیں کر سکتے۔ جیتے جی بھی وہی کرتے تھے جو ان کے اللہ میاں کو منظور ہوتا تھا۔

 یہ پیر پرستی اور روضہ پرستی صرف وہم ہی ہے ورنہ سوائے اللہ اور رسول ﷺ کے اور کوئی نہیں جو ہماری فریادیں سنیں اور اس کی داد رسی کریں۔ اس زیارت کے دوران میں میرے رفیق سفر بھائی جان محمد اچھے رہے کیونکہ ان کو کسی مجاور نے بلایا تک نہیں اور نہ ہی ان سے نذر نیاز کا مطالبہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).