خیبر پختونخوا میں مختلف سیاسی جماعتوں کی پوزیشن


پختونوں کا سیاسی مزاج عمومًا انتہاؤں پر بٹا ہوا نظر آیا۔ تاریخی اعتبار سے یہاں معتدل سیاست بہت کم دیکھنے میں آئی۔ روس کی پسپائی اور سوشلزم کی موت سے قبل اس پیچیدہ اور متنازعہ نظام کے حق میں اگر کوئی طاقتور عوامی لہر اُٹھی بھی تو اسی خطّے میں اُٹھی جہاں پختون قوم کا بسیرا ہے۔ یہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ولی خان اور اِن کی جماعت ہی تھی۔ جسے کئی بار طاقتور عوامی مینڈیٹ ملا جبکہ پاکستان کے کسی دوسرے حصّے میں بائیں بازو کی اس سیاسی کامیابی کی مثال نہیں ملتی گو کہ پیپلزپارٹی پارٹی مختلف اوقات میں پنجاب اور سندھ میں بھاری مینڈیٹ سمیٹتی رہی لیکن اصل میں پیپلزپارٹی کو بائیں بازو کی سیاسی جماعت کہنا بعد کے حالات نے ایک سیاسی مغالطہ ہی ثابت کیا۔

تاہم نیپ ( بعد میں اے این پی) بائیں بازو کی واحد جماعت تھی جو اپنے نظریات کے ساتھ نہ صرف دیر تک سیاسی محاذ پر ڈٹی رہی۔ بلکہ اپنے صوبے خیبر پختون خواہ میں عوامی تائید بھی حاصل کرتی رہی، لیکن حیرت انگیز طور پر یہاں دائیں بازو کی سیاست کو بھی کبھی کمزور اور ناتواں ہوتے نہیں دیکھا گیا، بلکہ وہ اپنی طاقت اور رفتار میں ہمیشہ تیزی لاتی رہی ہے۔ 70 کے عشرے تک خان قیوم بائیں بازو کی سیاست کے مقابل ایک توانا رہنما کے روپ میں اسی لئے موجود رہے کہ اس وقت مذہبی جماعتوں نے عمومی طور پر عوامی سیاست کا رُخ نہیں کیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ دائیں بازو کا ووٹر خان قیوم کے اردگرد نظر آتا رہا، لیکن 1970ء کے الیکشن میں جمیعت العلماء السلام قدرے محدود مینڈیٹ اور صوبائی حکومت تک رسائی کے بعد دائیں بازو کی مذہبی ووٹ کو اپنی طرف کھینچنے لگا۔

اس سلسلے میں جے یو آئی کو خاطرخواہ کامیابی بھی ہمیشہ حاصل ہوتی رہی، تبھی تو 1970ء کے الیکشن میں محض چار صوبائی سیٹیں جیتنے والی پارٹی جے یو آئی 2002ء کے انتخاب میں اسمبلی فلور پر سب سے بڑی جماعت رہی، اور صوبائی حکومت کی باگ دوڑ انہیں کے ہاتھ میں تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر جماعت اسلامی اپنی بہترین تنظیمی صلاحیت اور مستعد کارکنوں کے باوجود وقت کا فائدہ اُٹھانے میں ناکام نظر آئی، کیونکہ وہ بھاری مذہبی ووٹ بینک سے حصّہ بقدرجُثہ بھی وصول نہ کرسکی اور جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست نہ دِیر کے چند حلقوں میں قلعہ بند ہوکر رہ گئی، بلکہ کئی عشروں سے وہ کبھی آئی جے آئی تو کبھی متحدہ مجلسِ عمل اور کبھی تحریک انصاف کو انتخابی کامیابی کا سہارا بنا کر اپنے چند بندے پار کرا دیتی ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی عوامی سطح پر بالعموم اور مذہبی حلقوں میں با الخصوص جماعت اسلامی کے کردار اور اثرورسوخ کو ہرگز نظر انداز یا فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کرپشن اور بددیانتی کی دلدل میں لت پت سیاست میں قدرے بہترین ٹریک ریکارڈ کی حامل بھی ہے، گو کہ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت میں شمولیت کے بعد بعض معا ملات کی وجہ سے چھینٹے ان کے دامن تک بھی پہنچے لیکن جماعت اسلامی کو اب بھی اس حوالے سے ایک اعتبار حاصل ہے۔ 2002ء میں معرضِ وجود میں آنے والی خیبر پختون خواہ اسمبلی میں جمیعت العلماء السلام ( سمیعُ الحق ) شامل تھے۔ ان مذہبی جماعتوں نے مخلوط حکومت بھی تشکیل دی۔ لیکن دراصل یہ جمیعت العلماء السلام (ف) کی حکومت تھی۔ مقررہ مدّت پوری کرنے اور اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی متحدہ مجلسِ عمل بھی منتشر ہوگئی، بلکہ مولانا سمیعُ الحق تو پہلے ہی خُدا حافظ کہہ چکے تھے، لیکن کچھ عرصہ قبل گمشدہ مجلسِ عمل لاہور کے نواح میں قائم جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں اچانک پھر سے اپنا مکھڑا دکھا گئی۔ لیکن اب کے خیبر پختون خواہ میں متحدہ مجلسِ عمل کو اندرونی اور بیرونی طور پر فضا قطعًا میّسر نہیں ہوگی جو آج سے پندرہ سال پہلے تھی، کیونکہ انتخابات سے پہلے جماعت اسلامی اور خصوصًا مولانا سمیعُ الحق قطعًا یہ اندازہ نہیں کرسکے تھے، کہ جنرل الیکشن میں اتنا بھاری مینڈیٹ مجلسِ عمل کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔

تبھی تو انھوں نے اپنے لئے ذیادہ سیٹوں پر اصرار نہیں کیا لیکن الیکشن نتائج نے جماعت اسلامی اور مولانا سمیعُ الحق کو حیرت سے زیادہ پشیمانی سے دوچار کیا تھا۔ مولانا فضلُ الرحمٰن سیاسی طور پر کسی کے محتاج ہی نہ تھے۔ جبکہ مولانا سمیعُ الحق کے پاس دو ممبران تھے، سو ایک عدد ڈپٹی سپیکر کا غیر اہم منصب ہی حصّے میں آیا، اور بعد میں وہ مخلوط حکومت سے نکل بھی گئے۔ جبکہ جماعت اسلامی بے دلی کے ساتھ برائے نام حکومت کا حصّہ رہی لیکن اب کے صورتحال یہ ہے کہ ماضی کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی زیادہ سیٹوں پر اصرار کرے گی تاکہ ایک اور ’انہونی‘ کی صورت میں ایک اور پشیمانی سے بچا جا سکے۔ جبکہ مولانا فضلُ الرحمٰن کو بھی اپنے اوقات سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس لئے اب کے ٹکٹوں کی تقسیم تنازعات کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ جس کا فائدہ یقینًا حریف جماعتیں اٹھا سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ 2002ء سے ذرا پہلے افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے مذہبی قوتوں کے حق میں عوامی سطح پر ہمدردی کی ایک لہر بھی اٹھی تھی اور مجلسِ عمل کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے مقابل سیکولر جماعتیں یعنی اے این پی اور پیپلزپارٹی ہی میدان میں تھیں اور ظاہر ہے۔ معروضی فضا نے ووٹروں کا رُخ دائیں جانب موڑ دیا تھا۔ ساتھ ساتھ نوجوان طبقے میں مقبول تحریک انصاف بھی منظر پر نہیں ابھری تھی۔ یاد رھے کہ اسی تحریک انصاف نے پچھلے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو بہت حد تک ڈینٹ کیا تھا۔ تحریک انصاف کو میڈیا کے علاوہ طاقتور منطقوں کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ جبکہ نواز شریف کے حق میں ایک خاموشی لیکن توانا لہر ہمدردی کا طوفان اٹھانے کی سکت سے ہرگز محروم نہیں لیکن اس کا دارومدار پولیٹیکل مینجمینٹ پر ہے۔

اے این پی کی لیڈر شپ نے سائنسی بنیادوں پر اپنی پالیسی وضع کی اور اس کا سخت جان ورکر روایتی جذبے کے ساتھ اٹھا تو پشاور اور ملحقہ اضلاع کے علاوہ سوات ڈویژن میں وہ مجلسِ عمل سمیت تمام جماعتوں کو بہت بھاری پڑے گا۔ ایک تجزیہ یہ بھی کہ تحریک انصاف اور مجلسِ عمل کا ٹارگٹ وہی ووٹ بینک ہوگی جس کا تعلق کسی سیاسی جماعت کی بجائے عمومی جذباتی فضا سے ہوتا ہے۔ اور جو اپنے سیاسی ٹھکانے بدلتا رہتا ہے۔ مذکورہ عوامل کو مدنظر رکھ کر کم از کم ایک بات یقین ہے کہ ساتھ کہی جا سکتی ہے، کہ سیاسی طور پر مجلسِ عمل کو سازگار فضا قطعًا میّسر نہیں جو اپنے پہلے الیکشن میں اسے فتح سے ہمکنار کر گئی تھی۔ تاہم اپنی بہترین منصوبہ بندی اور محنت کے بل بوتے پر مجلسِ عمل کی قیادت بہت سے مشکلات پر قابو پا سکتی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).