لاہور کی مال روڈ اور عمران کی انا کے ٹکڑے


\"edit\"قانون کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے آج لاہور میں واضح کیا ہے کہ وہ خود کو ہر قانون اور ضابطہ سے بالا سمجھتے ہیں۔ اس طرح لوکل انتظامیہ کے مشورے کے باوجود مال روڈ پر جلسہ منعقد کر کے انہوں نے کسی بھی مہذب معاشرے میں مروج اصول و ضابطہ اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کا واضح مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح اگرچہ ” میں سب سے بہتر …. میں سب سے نیک“ کے زعم میں مبتلا لیڈر کی انا کو تو تسکین ملی ہو گی لیکن وہ جس مقصد کے لئے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں، اس کا بھانڈا بہرطور پنجاب اسمبلی کے چوراہے میں پھوٹ چکا ہے۔ اسی کے ساتھ عمران خان کی نام نہاد انا پسندی کا راز بھی فاش ہو گیا ہے۔ جو لیڈر ملک میں غیر قانونی طریقے سے دولت کمانے کا حساب کرنا چاہتا ہے، وہ آج یہ واضح کرتا رہا ہے کہ وہ خود کسی اصول اور قانون کا احترام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسا خطرناک پیغام ہے جو ملکی سیاست میں ایک نئے جارحانہ اور تشدد آمیز رویہ کو جنم دے رہا ہے۔

تحریک انصاف کے لیڈر نے غیر قانونی طور پر منعقد جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پرانے الزامات کو دہرایا اور دعویٰ کیا کہ سب سے پہلے وزیراعظم کا احتساب ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاناما پیپرز میں اگرچہ 200 سے زائد پاکستانیوں کا ذکر ہے لیکن انہیں صرف وزیراعظم نواز شریف کے احتساب سے غرض ہے۔ ان کا احتساب کر کے وہ انہیں صرف اقتدار سے ہی محروم نہیں کریں گے بلکہ ان کے جرم کی سزا کے طور پر جیل بھی بھجوائیں گے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کے مطالبوں اور احتجاج کا طریقہ کسی انارکسٹ کی طرح سب کچھ تباہ کرنے کے اصول پر استوار ہے۔ روز بروز یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان کی اقتدار کی خواہش اس قدر شدید اور بے قابو ہو چکی ہے کہ وہ تخت یا تختہ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کسی قانون کا احترام کرنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ وہ انتظامیہ یا حکومت کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی جاہ پسندی اور جلد از جلد اقتدار کی خواہش میں وہ اس قدر مغلوب ہو چکے ہیں کہ دو برس سے بھی کم عرصہ قبل ناکام دھرنا حکمت عملی کے بعد وہ احتجاج ، مظاہروں اور دھرنوں کے نئے سلسلہ کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان کا نشانہ درحقیقت لاقانونیت یا قانون شکن نہیں ہیں بلکہ وہ صرف اس شخص کو نشانہ بناتے ہیں جو برسر اقتدار ہو۔ کیونکہ وہ یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ملک کی وزارت عظمیٰ پر ان کا اولین حق ہے اور جو شخص اس وقت یہ عہدہ سنبھالے ہوئے ہے ، اس نے ان کی حق تلفی کی ہے۔ اسی لئے اس وقت نواز شریف ان کے نشانے پر ہیں اور کل تک جو لوگ ان کی نظر میں چور اور لٹیرے تھے، آج وہ کسی نہ کسی صورت ان سے اتحاد کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان اتنی جلدی میں ہیں کہ وہ مزید 2 برس کے بعد 2018 کے انتخابات میں حصہ لے کر ” کامیابی“ حاصل کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ بلکہ ان کے رویہ اور باتوں سے تو یہ لگتا ہے کہ وہ اگرچہ عوام کی ہمدردی اور حکمرانی کی بات کرتے ہیں لیکن عوام پر سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس لئے وہ ایک جمہوری حکومت کو کسی بھی طریقے سے گرا کر کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جو انہیں سیدھا ملک کی حکمرانی تک لے جائے تا کہ وہ سب معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق درست کر سکیں۔ کیونکہ عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کے سوا کوئی شخص نہ تو ایماندار ہے اور نہ ہی اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اس ملک کے بگڑے ہوئے حالات کو درست کرسکتا ہو۔ یہ ایک ایسا گمراہ کن گمان ہے جس کی ایک جمہوری نظام میں حصول اقتدار کی کوشش کرنے والے کسی لیڈر کے دماغ میں موجودگی، تباہ کن نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ اسی لئے عمران خان ملک میں جاری لولے لنگڑے جمہوری نظام کے لئے دن بدن خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ جمہوریت میں بہت سے لوگ اجتماعی شعور اور کاوش سے معاملات درست کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان اس کے برعکس تن تنہا سارا بوجھ خود اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ گمان یا تو مطلق العنان مزاج کا حصہ ہوتا ہے یا دیوانگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جمہوری سیٹ اپ میں اس رویہ سے بہتری کی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔

تحریک انصاف کے رہنما نہ صرف یہ کہ خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس کا احتساب کیسے ہونا چاہئے بلکہ وہ طریقہ کار اور سزاﺅں کا انتخاب بھی خود ہی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطالبے کی روشنی میں حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پاناما پیپرز کی روشنی میں سامنے آنے والی صورتحال میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی ہے۔ چیف جسٹس نے ابھی اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن عمران خان اس فیصلہ کے منتظر بھی نہیں ہیں۔ وہ خود یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ نواز شریف مجرم ہیں۔ اب انہیں سزا ملنی چاہئے۔ چیف جسٹس یا ان کا مقرر کردہ کمیشن اگر یہ فیصلہ صادر نہیں کرتا تو عمران خان کی نظر میں وہ بھی اتنا ہی قصور وار ہو گا جتنا جرم ان کی خیال میں وزیراعظم کر چکے ہیں۔ کمیشن کی درخواست کرنا اور اس کے ٹی او آرز TOR,s بنانا حکومت کا اختیار ہے۔ لیکن عمران خان اس اختیار کو قبول نہیں کرتے۔ حالانکہ وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کا مقرر کردہ کمیشن اگر ان قواعد میں تبدیلی کرنا چاہے گا تو اسے اس کا اختیار ہو گا اور حکومت ایسی ترامیم کو قبول کر لے گی۔ لیکن اب عمران خان بتا رہے ہیں کہ انہوں نے خود یہ قواعد و ضوابط مرتب کر لئے ہیں جنہیں دیگر پارٹیوں سے مشورہ کے بعد سپریم کورٹ کے حوالے کیا جائے گا۔ گویا اگر عدالت عظمیٰ عمران خان کے اس غیر قانونی اور غیر روایتی طریقہ کو ماننے سے انکار کر دے تو ماضی کی طرح وہ خود عمران خان کی نظروں میں معتوب ٹھہرے۔

الزامات عائد کرنے کے جوش میں عمران خان جو اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، وہ حقیقی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آج لاہور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ سال بھر میں یہ رقم 4380 ارب روپے بنتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ملک کا گزشتہ سال کا بجٹ 3800 ارب روپے مالیت کا تھا۔ اگر قومی دولت / بجٹ کا ہر روپیہ کرپشن پر صرف ہو جاتا ہے تو بھی اس حساب میں 580 ارب روپے کا ”خسارہ“ نہ جانے کیسے پورا کیا جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے فرمایا ہے کہ ملک میں 53 لاکھ افراد بیروزگار ہیں اور حکومت کرپشن اور ہوس کاری کی وجہ سے انہیں روزگار فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کر سکی۔ ملک کی ستر فیصد آبادی 35 برس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے 20 کروڑ آبادی کے ملک میں کم از کم 10 کروڑ کی ورک فورس کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بیروزگاروں کی جو تعداد عمران خان نے پیش کی ہے، اس کے مطابق ملک میں اس وقت پانچ ساڑھے پانچ فیصد بیروزگاری ہے۔ یہ شرح تو کسی بھی ترقی یافتہ اور خوشحال ملک میں بیروزگاری کی شرح سے کم ہے۔ اس وقت اکثر یورپی ملکوں میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جنوبی یورپ کے ملکوں میں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس طرح اگر عمران خان کے اعداد و شمار کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان تو روزگار کے خواہشمندوں کے لئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما الزام تراشی تو کرتے ہیں لیکن یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان کے پاس جادو کی وہ کون سی چھڑی ہے جس کے ذریعے وہ ملک میں کرپشن کو پلک جھپکتے ختم کر سکتے ہیں۔ جبکہ قاعدہ قانون کے احترام کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مال روڈ اور اس سے ملحقہ سڑکیں جو عام لوگوں کی آمدورفت کا ذریعہ ہیں، زور زبردستی سے پی ٹی آئی کا جلسہ کروانے کے لئے بند کروا دی گئیں۔ اسمبلی سے ریگل چوک تک کرسیاں لگا کر شارع عام کو ”جلسہ گاہ“ بنا لیا گیا۔ اقتدار میں آنے کا خواہشمند ایک لیڈر اور اس کی پارٹی اگر عام شہریوں کے حق پر اس قسم کا ڈاکہ ڈال سکتی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دفتر کے کلرک سے لے کر افسر تک اور دیگر شعبوں کے افراد اپنے اختیارات کو دوسرے کے حقوق پامال کرنے کے لئے کیوں کر اور کس طرح استعمال کرتے ہوں گے۔

مال روڈ پر جلسہ کرنے کی ایک وجہ تو عمران خان کی ضد ہو سکتی ہے لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تحریک انصاف اب گزشتہ چند سالوں کی طرح لوگوں کو جلسوں میں آنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے وہ کسی بڑی جلسہ گاہ میں ریلی منعقد کر کے اپنی مقبولیت کا پول کھولنے سے ڈرتی ہے۔ عام استعمال کے راستوں اور سڑکوں کو روک کر شہریوں کو ایک دن عذاب میں مبتلا کر کے کم از کم یہ بھرم تو قائم کیا جا سکتا تھا کہ یہ پارٹی اب بھی مقبول جماعت ہے اور عوام اس کے نعروں کی حمایت کرتے ہیں۔

نواز شریف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کے چار سوالوں کا جواب دے کر گلو خلاصی کروا لیں۔ اسی طرح عمران خان کو چاہئے کہ وہ عوام کو یہ بتا کر سرخرو ہو جائیں کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ جو سہولتیں اور مراعات دینے کا وعدہ اپنے جلسوں میں کرتے ہیں، ان کے لئے وسائل کہاں سے لائیں گے۔ یا کرپشن میں ضائع ہونے والے فرضی 12 ارب روپے روزانہ اس مقصد کے لئے کافی ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments