سیدانی اور سیاست


جب میں بچی تھی توہمارے محلے میں ایک آنٹی روزینہ رہا کرتی تھیں۔ تھیں تو وہ صرف مڈل پاس گھرگرہستن لیکن جاہ و جلال کسی حاضرسروس تھانیدارنی سے کم نہ تھا اور نئی پرانی، چھوٹی بڑی، موٹی پتلی، زنانہ مردانہ گالیوں کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھیں۔ ”سگھڑ“ اتنی کہ مارکیٹ سے آ کر گھرکے سامنے رکشہ روک کے کھڑِی ہو جاتیں لیکن پچاس روپے کے لئے سو کا نوٹ کُھلا نہ کراتیں۔ عُمر اُن کی کبھی پینتیس سال سے آگے نہ بڑھی۔ اپنی اٹھارہ سال کی بیٹی کوایک عرصے تک اپنی بہن بتاتی رہیں۔ سبزی والے کے ٹھیلے سے ایک آدھ چیز اُچک لینے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ گھر میں اکثر قرآن خوانی کی بجائے صرف سورۃ مزمل کا ورد رکھواتیں تھیں جس میں ہمیشہ صرف محلے دار خواتین ہی موجود ہوتی تھیں۔

وہ صرف ہمیں بیٹھ کے ایسے تکتیں مبادہ شریک خواتین میں سے کوئی اس ورد کی برکت اُچک کر نہ لے جائے۔ سارے محلے پردادا گیری ایسی کہ مرد حضرات بھی کتراتے۔ کبھی کوئی باغی ان کو چیلنج کر بیٹھتا تو ان کا آخری حربہ تھا‫ کہ سید ہوں اور اگر کسی نے مجھے ستایا تو جہنم میں جائے گا اوراللہ بھی معاف نہیں کرے۔ اُس وقت ہم بچے تھےاورسمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیوں ایسا کہتی ہیں؟ لیکن بعد میں ادراک ہوا کہ وہ ان پڑھ خاتون بھی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری، مذہب، کا اپنے مفاد میں استعمال بخوبی جانتی تھیں۔

یہ خاتون مجھے اس لئے یاد آئیں کہ جب سے الیکشن کا غلغلہ اُٹھا ہے ہرشخص اپنے اپنے پسندیدہ اُمیدوارکو اپنے اپنے طریقے سے سپورٹ کر رہا ہے۔ چند دن پہلے میں نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک پوسٹ دیکھی جو حلقہ این اے 243  کے امیدواروں عمران خان (تحریک انصاف) اور سیدہ شہلا رضا (پی پی پی) کے بارے میں تھی۔ اُس پوسٹ میں تحریر تھا: ”ایک طرف حُسین کی پیرو کاراوردوسری جانب یزیدی قوتوں کا حمایت کار، سید زادی پانی پلا پلا کر مارے گی۔ “

بظاہر یہ سوشل میڈیا کی بے ضررسی پوسٹ ہمارے معاشرے میں قول وفعل کے تضادات کی قلعی کھولتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں مذہب کے استعمال پر ہر کس وناکس کی توپوں کا رُخ مولوی حضرات، ضیاء الحق اور مدارس اور مددگار کے طور پر عمران خان کی طرف ہو جاتا ہے۔ لیکن سیکولر نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت کے حامی جب اپنے اُمید وار کی عوامی  خدمات بیان کرنے کے بجائے مذہب یا مذہبی حوالوں سے اُونچ نیچ کا استعمال کرتے ہیں تو یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ متشدد مولوی حضرات تو انتہا پسندی کے درخت کی نظر آنے والی شاخیں اور تنا ہے، لیکن اس کی جڑیں عام آدمی کے اندر بھی اتنی پیوست ہوگئی ہیں کہ انھیں خود بھی احساس نہیں کہ وہ دراصل وہی طرزعمل اپنا رہے ہیں جس کی مخالفت میں وہ کبھی ضیاءالحق کو لعنت ملامت کرتے اور کبھی جماعت اسلامی کو، کبھی خادم حسین کی شامت آتی ہے اورکبھی عمران خان طالبان خان کے نام سے پُکارا جاتا ہے، حالانکہ ہر پاکستانی کے اندر حافظ سعید، مولانا خادم حسین اور ضیاء الحق چھپا بیٹھا ہے۔ ان افراد کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ گھمائی اور سب کو اپنے تابعہ کر لیا۔ یہ دراصل وہی کچھ کرتے ہیں جو عوام کی دلی خواہش ہے۔

یہاں کسی خاص ذات پات یا کسی مذہبی سابقے اور لاحقے کی حیثیت پرتنقید مقصد نہیں، صرف یہ کہنا ہے کہ  ایک غیر سید بھی اتنے ہی اچھے اخلاق اور خوبیوں کا مالک ہو سکتا ہے جتنا کہ ایک سید اور ایک سید بھی اتنا ہی کرپٹ ہو سکتا ہے جتنا کہ ایک غیر سید لیکن ان مذہبی شناختی امتیازیات کو کسی کی قابلیت شمار کرنا سراسر ذہنی بودا پن اور صریحاً  منافقت اور مذہبی انتہا پسندی ہے جس کی بظاہر ہر پاکستانی مذمت کرتا ہے۔

کیا جب ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو اس کی قابلیت مد نظر رکھتے ہیں یا ذات اور نسل؟  درزی سے کپڑے سلوانے جاتے ہین تو کیا اُس کا شجرہ نسب کھنگالتے ہیں؟ جس کے پاس دو پیسے زیادہ آ جائِیں وہ بچے  انگریزی ناموں والے اسکول بھیجتا ہے۔ گھرکی ساری مشینری انگریزی ناموں والی خریدتے ہیں۔ اس وقت ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمیں کسی سید کی ایجاد کردہ سید چوپ، سید واشنگ مشین، سید ریفریجریٹر، سید اے سی، سید فوڈ فیکٹری چاہیے؟ اور مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی اشیاء موجود ہوں بھی تو کوئی پاکستانی ان کو خریدنے پر تیار نہیں ہوگا کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ بس کام بہترین ہونا چاہیے اور اس میں دیسی ٹیکنالوجی غیرملکی مہارت کا مقابلہ نہیں کرسکتی لہذا کوئی اپنا پیسہ اور کام برباد نہیں کرے گا ‫اور کفار و مشرکین کے ملکوں میں تیار ہوئی اشیاء کو ہی ترجیح دے گا۔

جب ہم اپنے چند افراد پر مشتمل گھرانے کے لئے اس قدر چھان پھٹک کر بہترین چیز چنتے ہیں تو لاکھوں افراد پر مشتمل ایک حلقے کے امیدوار کی حقیقی کامیابیاں اور کار کردگی  چھوڑکرمذہبی برتری کی علامت کے حامل نام یا مذہبی نعروں کو اس کی خوبی بنا کر تشہیرکیوں کرتے ہیں؟ یہ شاید اس ناکامی کا اعتراف ہے کہ اُس کے پاس شاندار نام اورجذباتی نعروں کے علاوہ کچھ اور بتانے کے لئے ہے ہی نہیں۔ پولیٹیکل سائینٹسٹس سیاست مین مذہب کے استعمال  کوسیاسی بحران قرار دیتے ہیں۔

آنے والے الیکشن کے دنوں میں یہ سیاسی بحران ہر سیاسی پارٹی کے نعروں سے، بینروں سے، جلسوں سے ظاہر ہو گا۔ کبھی اسلام خطرے میں ہو گا، کوئی ممتاز قادری کی لاش پر سیاست کرے گا، کوئی ناموس رسالت کا محافظ ہونے کا دعویٰ کرے گا، کوئی نفاذ شریعت کا وعدہ کر بیٹھے گا۔ لوگ جیت بھی جائیں گے جن سے بعد میں قوم بجلی، پانی، نوکری، صحت اورتعلیم مانگے لیکن ان کے پاس دینے کے لئے سوائے ثواب کے اورجھوٹے وعدوں کے کچھ نہ ہو گا اور قوم کو شکوہ کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ ببول بو کے گلاب کی امید نہیں کی جاتی۔ ستر سال سے یہ ہی میوزیکل چئیر جاری ہے اور جب تک ہم مذہب، ذات، برادریوں سے بالاتر ہوکر ووٹ کا استعمال نہیں سیکھ جاتے جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).