منٹو، امرتا اور ہماری مہوش


زندگی گندے خون کے نکاس کا نام نہیں ہے۔ زندگی کا مفہوممسئلہ ازدواج تک محدود نہیں۔ زندگی مرد اور عورت کے ملاپ کا نام نہیں ہے۔ زندگی نام ہے حرکت کا۔ زندگی نام ہے کشش کا۔ زندگی نام ہے زندہ رہنے کا اور زندگی نام ہے زندہ رہنے کے مطالبے کا ” یہ کہنا ہے سعادت حسن منٹو کا۔ جن پر لگانے والوں نے بڑے بڑے الزام لگائے۔ وجہ وہی کہ منٹو نے اس  پر بات کی جس پر عمل کرنا جائز اور حلال مگر اواز اٹھانا گناہ کے ذمرے میں اتا ہے۔ یہ منٹو کا دور نہیں لیکن اس کا کہا ہر لفظ اج بھی اسی معاشرے میں ہونے والے واقعات اور بننے والے رویوں پر مکمل پورا اترتا ہے۔ ہم جوں جوں ترقی کی منازل طے کررہے ہیں ہماری معاشرتی اقدار کہیں دفن ہوتی جا رہی ہیں۔ بات مذہب کی کریں تو وہ  بھی بس ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ ہر کسی  نے اپنی اپنی سہولت کے تحت تراش خراش کر کے شوکیس  میں سجا لیا ہے۔ بات کو شروع کہاں سے کیا جائے سمجھ سے باہر ہے۔ درد، تکلیف، افسوس یہ بھی اب رسمی جملوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

پیٹ کا ایندھن بجھانے کے لیے اور موت سے بچنے کے لیے اس رب نے حرام  بھی حلال جائز دیا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سی بچیاں صرف اس لیے گھر سے قدم باہر نکالتی ہیں کہ وہ اپنے بوڑھے ماں، باپ کو حلال کھلا سکیں۔ یہ عجب رویہ بن گیا کہ جو لڑکی گھر سے باہر کام کے لیے نکلی وہ باہر کے ہر مرد کے لیے قابلِ استعمال ہو گئی ؟ ہمارے معاشرے میں  بڑی بڑی گاڑیوں اور عہدوں پر براجمان بہت قابلِ عزت حضرات بھی وہ گدھ ہیں جنہیں بس عورت درکار ہے۔ خواہ وہ جو بھی ہو، جیسی بھی ہو۔ اس کی بیٹی کے برابر ہو یا بہن کے۔ ہوس پوری کرنی ہے اور بس۔ اور یہ وہ بے بس بچیاں ہیں جو صرف اپنی گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ اواز اٹھانے کی جرات شاید کبھی کر ہی نہیں پاتیں۔ لیکن اگر کر بھی لیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو ”مہوش ”کے ساتھ ہوا۔

امرتا  پریتم نے ایک بار کہا تھا ” مرد نے عورت کے ساتھ  ابھی تک سونا ہی سیکھا ہے۔ جاگنا نہیں۔ اسی لیے مرد اور عورت کا رشتہ الجھن کا شکار ہے” یہ بات کس حد تک درست ہے اس کا اندازہ مہوش اور اس وحشی درندے کی مردانگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے  مہوش کا گھر سے باہر قدم نکالنا اسے باہر کے مردوں کے لیے جائز بنا دیتا ہے۔ اور اس کی ہوس کی خواہش کی تکمیل نہ ہونے پر اس نے اپنا سب سے کمزور ہتھیار استعمال کیا۔ یعنی ہاتھ اٹھایا۔ لیکن سلام ہے اس نڈر مہوش کو جس نے بے خوف اپنی عصمت کی تنِ تنہا حفاظت کی۔ اس کو بتلایا کہ عورت صرف ہم بستری کے لیے نہیں۔ مار دیا اس نے مہوش کو مگر کیا مہوش خاموش ہو گی؟

میرے قاتل کی اذیت کو یہی کافی ہے
کہ شہرِ قاتل میں میرا سوگ منایا جائے

بلاشبہ یہ مہوش کی اواز کو دبانے کی انتہائی بزدلانہ کوشش تھی۔ جس نے چنگاری کو آگ میں بدلا۔ اور ایسے تمام نامرد جو باہر کام کرنے والی عورت کو اپنے اوپر جائز قرار دیتے ہیں ان سب کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایسی تمام بچیوں کے لیے ایک حوصلہ اور سبق بھی کہ تم کمزور نہیں ہو۔ کم از کم اس مرد سے کسی طرح نہیں جو زندگی پانے کے لیے بھی تمہارے وجود پر محتاج ہے۔ ٹیپو سلطان کا قول ہے کہ “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” تو مہوش نے اپنی زندگی شیر کی طرح گزاری۔ اب آپ کی باری۔

ہماری باری۔ اپنے دفاع کے لیے اپنے وقار کے لیے۔ اپنی عزت اورازادی کے لیے ایسے سورماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا لازم ہے۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کا وقت ہے۔ الزام لگانے والوں نے تو نہ حضرت عائشہ صدیقہ کو بخشا اور نہ ہی بی بی مریم کو۔ ہمیں طے کرنا ہے ہمارا راستہ کیا ہے۔ ہمیں واٹس ایپ پر لوگوں کی چند تعریفوں سے متاثر ہو کر انہیں اپنی تصاویر بھیجنی ہیں یا انہیں سبق دینا ہے کہ عورت صرف جسم نہیں ہے۔ عورت  طاقت ہے، سوچ ہے، فکر ہے  ذہن ہے۔ بادِ مخالف سے گھبرا کر پرواز بدلنے والا کبھی شاہین نہیں بنتا۔ منٹو بھی نہیں جس پر کفر کے کتنے فتوے لگے کیونکہ اس نے ملا اور کوٹھے کی حقیقت بیان کی تھی۔ کالی شلوار کے ذریعے عورت ہے کرب کو لکھا تھا۔ امرتا، جس نے بتایا تھا کہ عورت صرف سہنے کے لیے نہیں، استعمال ہونے کے لیے نہیں ہے بلکہ دماغ اس کی کھوپڑی میں بھی ہے۔ پڑھنے والے اج بھی ان کو پڑھتے ہیں۔ یاد رکھنے والے اس نڈر اور بہادر مہوش کو  بھی ہمیشہ بہادری کی مثال کی طرح دہرائیں گے۔

یہ جو اب کے ہوا
نہ تو پہلا تھا اور نہ ہی تھا آخری حادثہ
کیا پتہ پھر اسی موڑ پر
خواب جھلسا ہوا
پھول مسلا ہوا
کوئی رشتہ کسی خوف میں خون سے لتھڑا ہوا
بھنبھناتے تعفن ذدہ ڈسٹ بن پر۔ لے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).