عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہو جانے کے بعد والا منظر 


کچھ لوگ اپنے تئیں یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ شاید مجھے عمران خان صاحب سے خداواسطے کا بیر ہے۔ وہ مشکل میں گھرے ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔

ایسے لوگوں کی جانب سے جن کے پاس میرا وٹس ایپ والا فون نمبر نجانے کہاں سے آگیا ہے پیر کی رات سے مسلسل وڈیوکلپس بھیجی جارہی ہیں۔ عمران خان صاحب کے بنی گالہ والے گھر کے باہر جاری ہنگاموںکی کلپس۔ ہنگامہ کرنے والے تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن بتائے جارہے ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ ان کے حلقوں میں عمران خان صاحب کے دیرینہ وفاداروں کو نظرانداز کرتے ہوئے نووارد الیکٹ ایبل کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تحریک انصاف کے ٹکٹ جاری کردیے گئے ہیں۔

مجھے بھیجی کلپس میں سے ایک میں خان صاحب مظاہرین کے ایک گروہ سے خطاب کرتے بھی پائے گئے۔ بہت درشتی سے انہوں نے کارکنوں کو بتادیا کہ ان جیسے لوگوں کی تعداد ہزاروں تک بھی چلی جائے تو وہ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیں گے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں جو شکایات ہیں ان کا جائزہ لینے کے لئے ایک ریویو بورڈ بنادیا گیا ہے۔ اسے تحریری طورپر اعتراضات کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور ہوگا۔ محض غل غپاڑے سے بات نہیں بنے گی۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھے خاں صاحب کا یہ انداز پسند آیا۔ نوجوان ہوتا اور تحریک انصاف کا متوالا تو ان کی جانب سے ہنگامہ کرنے والوں کے سامنےکیے خطاب کی کلپ کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لگادیتا اور اسے ”لیڈر ہوتو ایسا“ کا عنوان دیتا۔ میری بدقسمتی کہ برسوں صحافت کی نذر کردینے کی وجہ سے دل میرا مردہ ہوچکا ہے۔ عملی رپورٹنگ سے دست برادر ہوچکا ہوں۔ ”خبر“ نام کی شے مگر اکثر من وسلویٰ کی مانند مل جاتی ہے۔ خبروں کو تناظر میں رکھ کر تجزیے کی عادت برقرار ہے۔ اس عادت کی بدولت ہی یہ کالم لکھ کر اپنا دال دلیہ چلاتا ہوں۔

ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف ہنگامہ کرنے والوں میں گجرات سے ایک کافی مشتعل دِکھتا گروہ بھی نظر آیا۔ اسے گلہ تھا کہ چودھریوں کی قاف لیگ کو ایڈجسٹ کردیا گیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف نے برسوں اس جماعت کی مبینہ کرپشن کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی۔

گجرات سے آئے لوگوں کے غم وغصہ پر نظر پڑی تو اچانک یاد آیا کہ آج سے تقریباً 6 ہفتے قبل مجھے ایک ”باخبر“ دوست نے اطلاع دی تھی کہ تحریک انصاف چکوال کے نواحی حلقے تلہ گنگ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے امیدوارکھڑا نہیں کرے گی۔

یہ نشست چودھری پرویزالٰہی کی سہولت کے لئے خالی رکھی جائے گی۔ مجھے اپنے ”باخبر“ دوست کی بات پر اعتبار نہیں آیا تھا۔ بعدازاں مگروہ درست ثابت ہوا۔ گجرات کے حوالے سے قاف لیگ کو ایڈجسٹ کرنے والی بات سے مشتعل ہوئے کارکنوں کو پرویز الٰہی کی تلہ گنگ میں ایڈجسٹمنٹ نجانے کیوں یاد نہیں رہی۔ اسے یاد رکھتے تو بنی گالہ آکر شور شرابے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ اگرچہ ان کے برپاکیے شوروغوغا نے مجھے ایک بات سمجھا دی ہے۔ میں وہ بات لکھنے سے خود کو باز نہیں رکھ پارہا۔ بہت اعتماد سے یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ میرے لکھے کو دور کی کوڑی لانے کے مترادف گردانا جائے گا۔

تحریک انصاف کے نیک طینت اور سادہ لوح کارکنوں کو یہ حقیقت دریافت کرلینا چاہیے کہ گجرات کے چودھری برادران کو جو اپنی وضع داری اور وسیع دسترخوان کی وجہ سے پنجاب بھر کے الیکٹ ایبل میں مو¿ثر اثرورسوخ کے حامل ہیں ایڈجسٹ کرنا تحریک انصاف کی کامیابی کی خاطر سوچ بچار کرنے والے تھنک ٹینک کی مجبوری ہے۔

”گو نواز گو“ ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف صاحب عوامی عہدے کے لئے تاحیات نا اہل بھی ٹھہرائے جاچکے ہیں۔ اگست 1988میں محمد خان جونیجو مرحوم سے جداہوکر نواز شریف صاحب نے جو ووٹ بینک بنایا اور اسے کئی برسوں کی محنت سے مستحکم کیا ابھی تک مگر انٹیکٹ ہے۔ ”مجھے کیوں نکالا“ والے سوال نے بلکہ اس ووٹ بینک میں ضد اور مزاحمت کی گنجائش بھی پیدا کردی ہے۔ شاید یہی ضد ریاض پیرزادہ صاحب جیسے موقعہ شناس الیکٹ ایبل کو شیر کے نشان کے ساتھ ہی انتخاب لڑنے پر مجبور کررہی ہے۔

25جولائی کی شام تحریک انصاف کسی نہ کسی صورت100 پلس نشستوں کے حصول کے بعد عمران خان صاحب کو وزیر اعظم کے دفتر بھیجتی نظر آئی تو مذکورہ ووٹ بینک کے لئے اسے ہضم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس بینک کی خواہش ہوگی کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ویسے ہی ہتھکنڈے اختیارکیے جائیں جو خان صاحب نے اپنی صحت یابی کے بعد نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اختیارکیے تھے۔

شیر کے نشان کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کانٹے دار مقابلوں اور بھاری سرمایے کے استعمال کے بعد پہنچنے والوں کی اکثریت کو لیکن ایجی ٹیشن کی سیاست پسند نہیں آئے گی۔ دل ہی دل میں وہ عمران خان کو وقت دینے کو تیار ہوں گے۔ ایسے افراد کے پراگمیٹک رویے کو سہارا دینے کے لئے چودھری برادران کی ضرورت ہے۔ ”آزاد“ حیثیت میں منتخب ہوکر چودھری نثار علی خان بھی ہنگاموں سے اُکتائے الیکٹ ایبل کے ہم نوا ہوں گے۔ ”مائنس نواز“ہوچکا۔ اب ان کے نام سے منسوب جماعت میں موجود ”ہنگامہ پرست“ افراد کو کھڈے لائن لگانے کی ضرورت ہے تاکہ عمران خان صاحب وزیر اعظم منتخب ہوگئے تو اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر توجہ دے سکیں۔

مسئلہ فقط وفاقی حکومت تک ہی محدود نہیں۔  محسوس یوں ہورہا ہے کہ صرف اسلام آباد میں حکومت سازی کے ہدف پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے تحریک انصاف پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع نہیں کرپائی ہے۔ مسلم لیگ نون کو وہاں بڑی واضح ایج نظر آرہی ہے۔ وہ سادہ اکثریت حاصل نہ کرپائی تو واحد اکثریتی جماعت ضرور نظر آئے گی۔ پنجاب میں مخلوط حکومت کا قیام اس صورت میں لازمی ہوجائے گا۔ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے لیکن تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ایسی حکومت کا قیام ممکن نہیں۔ ضرورت اس وقت کسی ”قدوس بزنجو“ کی محسوس ہوگی اور یہ ”بزنجو“ چودھری نثار علی خان کے اشتراک سے فقط چودھری برادران ہی ڈھونڈسکتے ہیں۔

بنی گالہ میں قاف لیگ کو ایڈجسٹ کرنے والی بات سے چراغ پا ہوئے عمران خان کے متوالوں کو اس منظر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی جسے میں ”عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد۔ “والا منظر قرار دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).