ڈاکٹر عافیہ صدیقی کس حال میں ہیں؟


دو ہزار آٹھ سے امریکی تحویل میں پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی ٹیکساس کی فورٹ ورتھ جیل میں کس حال میں ہیں؟ اس بارے میں ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے بارہ صفحات پر مشمتل رپورٹ متعلقہ حکام کو جمع کرا دی ہے۔ عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے فیڈرل میڈیکل سنٹر کارزول فورٹ ورتھ جیل میں تئیس مئی کو دو گھنٹے طویل ملاقات کی۔ پاکستانی قونصل جنرل اس سے پہلے بھی عافیہ صدیقی سے تین بار ملاقات کر چکی ہیں، لیکن ان ملاقاتوں میں عافیہ صدیقی بات چیت سے گریزاں رہیں۔

حالیہ ملاقات میں البتہ عافیہ صدیقی نے کھل کر اظہار خیال کیا جس کی تفصیلات مذکورہ رپورٹ میں درج کی گئی ہیں۔ باوثوق ذرائع سے حاصل رپورٹ میں عائشہ فاروقی لکھتی ہیں کہ عافیہ ملاقات کے دوران شدید نروس رہیں، وہ فوبیا کی سی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیں، ان کے چہرے پر خوف طاری تھا، وہ جیل میں تعینات عملے کے سلوک اور زدوکوب کرنے ایسے رویوں سے سخت تکلیف میں تھیں۔ اس سب کے باوجود عافیہ کا اللہ کی ذات اور پاکستان پر اعتماد غیر متزلزل دکھائی دیا۔ انہیں ابھی بھی امید ہے کہ ایک دن انہیں ضرور رہائی ملے گی۔

عائشہ فاروقی نے رپورٹ میں اپنے مشاہدات کے ساتھ ساتھ کچھ سفارشات بھی مرتب کی ہیں جن میں وہ پر زور طریقے سے پاکستان کے اعلی حکام کو تجویز کرتی ہیں کہ عافیہ صدیقی کو لاحق خطرات اور ان کی جانب سے جیل عملے پر عائد الزامات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے اور اس مسئلے کو فوری طور پر اعلی سطح پر اجاگر کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ عافیہ کی باقی ماندہ سزا پاکستان میں لا کر مکمل کرائی جائے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ ان کی بہن کو پاکستان منتقل کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔

اس درخواست پر سماعت کے دوران رواں ماہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل اور دفتر خارجہ کو ہدایات جاری کیں کہ وہ تین دن کے اندر عافیہ صدیقی کے بارے میں رپورٹ جمع کرائیں کہ کیا وہ زندہ ہیں؟ سپریم کورٹ کے احکامات کے تناظر میں قونصل جنرل ہیوسٹن نے عافیہ صدیقی سے ملاقات کے بعد رپورٹ دفتر خارجہ کو ارسال کی جو ذرائع کے مطابق عدالت عظمی میں بھی جمع کرائی جا چکی ہے۔

عائشہ فاروقی اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ وہ عافیہ صدیقی کے اس کمرہ نما سیل میں بھی گئیں جہاں انہیں رکھا گیا اور پھر ان سے ملاقاتیوں کے لئے مختص جگہ پر بھی نشست ہوئی۔ عافیہ اپنی سپروائزر ‘اینی نیبلٹ’ کی غیر موجودگی میں زیادہ مطمئن اور خوش دکھائی دیں۔

عافیہ نے قانونی معاونت کے لئے سٹیون اور کیتھی نامی وکلا پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ وکلا ان کی بہن فوزیہ صدیقی نے ہائر کئے تھے۔ عافیہ نے فیملی سے گزارش کی ہے کہ ان وکلا کو بدلا جائے اوراپنی پہلی وکیل ٹینا فوسٹر کو دوبارہ معاونت کے لئے رکھا جائے۔ عافیہ کے مطابق ٹینا فوسٹر کی ہی کاوشوں سے ان کے بیٹے احمد کو افغانستان کی خفیہ جیل سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ اس بارے ہم نے جب فوزیہ صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ عافیہ کو جیل میں غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ وکلا کے بارے میں بددل ہیں۔ فوزیہ صدیقی کے مطابق عافیہ کے بیٹے احمد کی رہائی میں ٹینا فوسٹر کا کوئی کردار نہیں ۔

رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ عافیہ صدیقی جیل کی ٹیلی فون لائن کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے بات چیت پر اعتماد نہیں رکھتیں، انہیں یقین ہے کہ ان کی ٹیلی فون لائن کو سپروائز کیا جاتا ہے اور ان کی پرائیویسی ملحوظ خاطر نہیں رکھی جاتی۔ انہیں لگتا ہے کہ عملہ ان کے گھر کا درست نمبر ڈائل نہیں کرتا اور اسی عملے کی موجودگی میں وہ گھر والوں سے کھل کر بات کرنے میں ہچکچکاہٹ کا شکار رہتی ہیں۔

اہل خانہ کے فون نمبر بھی عافیہ کے پاس اب نہیں رہے کیونکہ عافیہ کے مطابق ان کا تمام سامان جیل عملہ اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ یہ سن کر عائشہ فاروقی نے ایک کاغذ پر عافیہ کو اہل خانہ کے نمبرز لکھ کر دیے۔ عائشہ فاروقی کے استفسار پر کہ کیا وہ چاہتی ہے کہ ان کی والدہ اور بہن ان سے یہاں آکر ملیں؟ عافیہ نے فوری نفی میں سر ہلایا کہ وہ ایسا ہر گز نہیں چاہتیں کہ ان کی والدہ اور بہن یہاں آئیں۔ عافیہ کے مطابق دو ہزار دس گیارہ میں ان کے خلاف ٹرائل کے دوران ان کی والدہ نے امریکہ میں ان سے ملاقات کی کوشش کی تھی لیکن انہیں امریکہ آتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس بارے میں فوزیہ صدیقی نے ایک بار پھر تردید کی ان کی والدہ کبھی امریکہ نہیں گئیں۔ عافیہ کو ایسی معلومات دے کر بد دل کیا جاتا ہے۔ تاہم فوزیہ صدیقی اپنی ہمشیرہ کی حالت کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کئی مواقع ضائع کئے لیکن اب بھی عافیہ کی پاکستان واپسی ممکن ہے۔

رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ عافیہ کے مطابق انہیں ان کے کمرے میں مسلسل ڈسٹرب کیا جاتا ہے، ان کی پرائیوسی باقی قیدیوں کی طرح محفوظ نہیں، عملہ انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں آئے روز زدوکوب کیا جاتا ہے۔ ان کی وکیل اینی نیبلٹ عملے کے ہمراہ ایک روز ان کے کمرے میں آئے، ان کی اشیا اپنے قبضے میں لیں، ان کا تمسخر اڑایا اور سکارف کھینچا۔

عائشہ فاروقی کے مطابق پہلی تین ملاقاتوں میں عافیہ کسی دوا کے اثر میں دکھائی دیں اور انہوں نے چہرہ تک دکھانے سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ چوتھی ملاقات میں وہ تمام تر امور پر کھل کر بات کرتی رہیں۔ انہوں نے جیل سٹاف ‘رامیریز’ کا نام بار بار شکایت کے اندازمیں لیا اور کہا کہ وہ اپنی والدہ کے لئے ایک کمبل بُن رہی تھیں کہ اس شخص نے اس کمبل پر پیشاب کر ڈالا۔

عافیہ نے اپیل کہ کہ یہ شخص چھٹیوں پر ہے اور اسے دوبارہ اس جیل میں تعینات نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ شخص سیریل ‘ریپسٹ’ ہے اور مسلمانوں  کے بارے میں نفرت انگیز خیالات رکھتا ہے۔ عافیہ کے مطابق رواں سال فروری میں اینی نیبلٹ اور دیگر نے ان کیساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اللہ نے ہمیشہ ایسے موقع پر بچایا۔ عافیہ کے مطابق عملے کے ان افراد نے قران کی بے حرمتی بھی کی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹں دبائیے

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami