مسلم شاور لیک ہونے کا امکان


لوٹا ہمارے معاشرے میں گندگی صاف کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا برتن ہے جسے اکثر غسل خانے میں رکھا جاتا ہے اور استعمال کرنے کے بعد ہاتھوں کو اچھے طریقے سے صاف کیا جاتا ہے ، بلکہ اگر کسی بچے کو کوئی گھر کا بزرگ لوٹے کو ہاتھ لگاتا دیکھ لے تو وہ فوراً بچے کو ہدایت کرتا ہے کہ اسے واپس رکھ کر ہاتھ دھو لے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ سیاسی وفادری بدلنے والے افراد کے لیے لوٹے کی اصطلاح کب، کس نے اور کیوں استعمال کی ، شاید یہ اصطلاح کسی دل جلے نے ان افراد کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کی ہو گی، یا ہوسکتا ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کو سیاسی وفاداری بدلنے سے روکنا ہو کہ اس طرح بدنامی کے ڈر سے لوگ سیاسی وفاداری نہیں بدلیں گے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی وفاداری بدلنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ ان کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بہت سے خاندانی گھرانوں میں لوٹے کو سامان آرائش اور سند شرافت کا درجہ دیتے ہوئے ڈرائینگ روم میں وہاں رکھا جا رہا ہے جہاں مختلف ادوار میں سابق حکمرانوں کے ہمراہ باپ دادا کی تصاویر آویزاں ہیں۔

آئندہ ماہ پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور پوٹھوہاری ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے سیاسی افراد کی ایک بڑی تعداد لوٹا بن گئی ہے۔ ان کی اکثریت نے نادیدہ ہاتھوں کے تراشے ہوئے سیاسی رہنما عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ چند ایک مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں بھی شامل ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں جاتا ہے تو جانے والے کو سابقہ پارٹی کے افراد لوٹا کہتے ہیں جبکہ اگر ان کی پارٹی میں کوئی شامل ہو تو اسے کھلی بانہوں سے ویلکم کیاجاتا ہے ، یعنی’ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کا محاورہ اس صورتحال پر صادق آتا ہے۔

کچھ برس پرانی بات ہے۔ تب پاکستان میں پرویز مشرف کا طوطی بول رہا تھا اور مسلم لیگ (قاف) کا سائیکل راکٹ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک پریس کانفرنس مین صحافیوں نے چوہدری شجاعت حسین سے لوٹوں کے بارے میں سوال پوچھ لیا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، چوہدری شجاعت حسین کی فصاحت اور بلاغت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ چوہدری نے صحافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا، “ہمیں لوٹوں کا طعنہ دینے والے اپنی ٹونٹیوں کی فکر کریں”۔ اردو زبان ایسے بلیغ جملے کی تشریح سے قاصر ہے۔

 پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کہ جو لوگ ان کی پارٹی کو چھوڑ کر کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے انہیں الیکشن سے قبل واپس نہیں لیا جائے گا۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری منظور چودھری کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آصف زرداری نے کیا ہے، ان کے مطابق بہت سے ’’ لوٹوں ‘‘ نے واپسی کے لیے رابطہ کیا جس پر آصف زرداری سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے واپس نہیں لیا جائے گا۔ راقم کا خیال ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں لوٹوں کو لینے سے انکار کردیں تو لوٹا بننے کے رجحان میں کمی آئے گی۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شہروں میں تو لوٹوں کو پذیرائی ملنا مشکل ہے لیکن دیہاتی علاقوں میں شاید ایک بار پھر لوٹے جیت سکتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ شہری اور دیہاتی معاشرت کا فرق قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ خیال کس حد تک درست ہے اس کاجواب تو عام انتخابات کے نتائج سے ہی ملے گا۔ تاہم یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی شہری زندگی میں تو لوٹا تقریباً ناپید ہوگیا ہے اس کی جگہ مسلم شاور نے لے لی ہے لیکن دیہاتی زندگی میں لوٹے کا استعمال بدستور جاری ہے۔ اگر دیہاتی ووٹرز نے بھی منشور اور اسول کی بنیاد پر ووٹ دے دیا تو پھر لوٹے ٹھاہ ہو جائیں گے، اللہ کرے کہ اس بار لوٹے ٹھاہ ہی ہو جائیں۔ بلکہ جہاں سیاست میں لوٹے کی جگہ مسلم شاور استعمال کیا جائے، ایسے مسلم شاور کا بھی ٹھاہ ہونا ہی عوام کے مفاد میں ہے۔

لوٹے کی نہ کچھ فکر کرو، (مسلم) شاور کو سنبھالو

اسہال کی منزل میں بدل جاتی ہیں (شطرنج کی) چالیں

(برِصغیر پاک و ہند کی سیاست میں سب سے پہلے راولپنڈی کے ڈاکٹر محمد عالم کو ” لوٹا “ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد عالم سیاست میں آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے تاہم بعد ازاں انہوں نے فرقہ وارانہ سیاست شروع کر دی۔ جولائی 1935ء میں لاہور کی مسجد شہید گنج کے تنازع میں مسلمانوں کے موقف کی پرزور حمایت کرنے پر ان کی سیاست چمکی۔ اس تنازع میں لاہور کے درجنوں مسلمان شہید ہوئے۔ ڈاکٹر محمد عالم کو 1937ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ”اتحادِ ملّت“ اور مجلسِ احرارِ اسلام کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے کامیابی ملی۔ انہوں نے یونینِسٹ پارٹی کے امیدوار سیّد حبیب کو شکست دی تھی، لیکن منتخب ہونے کے بعد ڈاکٹر محمد عالم اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر کے متحدہ پنجاب کے وزیرِ اعظم اور یونینِسٹ پارٹی کے قائد سردار سکندر حیات خان کے خصوصی مشیر بن گئے تھے۔ عوام کے مینڈیٹ کی اس توہین پر مولانا ظفر علی خان نے انہیں لوٹا کا خطاب دیا اور لوگوں نے ڈاکٹر محمد عالم کے گھر کے باہر درجنوں لوٹے رکھ دیے۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).