ہوئے مر کے ہم جو رسوا


میں نے گفتگو کا رُخ موڑنے کی خاطر گنجان قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھتے ہی چپّہ چپّہ آباد ہوگیا۔ مرزا حسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے، دیکھ لینا، وہ دن زیادہ دور نہیں جب کراچی میں مردے کو کھڑا گاڑنا پڑے گا اور نائیلون کے ریڈی میڈ کفن میں اوپر زِپ (ZIP) لگے گی تاکہ منہ دیکھنے دکھانے میں آسانی رہے۔

مری طبیعت ان باتوں سے اوبنے لگی تو ایک دوسرے غول میں چلا گیا، جہاں دونوں جوان ستارے کے غلاف جیسی پتلونیں چڑھائے چہک رہے تھے۔ پہلے ”ٹیڈی بوائے ”کی پیلی قمیض پر لڑکیوں کی ایسی واہیات تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ نظر پڑتے ہی ثقہ آدمی لاحول پڑھنے لگتے تھے اور ہم نے دیکھا کہ ہرثقہ آدمی بار بار لاحول پڑھ رہا ہے۔ دوسرے نوجوان کو مرحوم کی بے وقت موت سے واقعی دلی صدمہ پہنچا تھا، کیونکہ ان کا سارا“ویک اینڈ“چوپٹ ہوگیا تھا۔

چونچوں اور چہلوں کا یہ سلسلہ شاید کچھ دیر اور جاری رہتا کہ اتنے میں ایک صاحب نے ہمت کرکے مرحوم کے حق میں پہلا کلمہ خیر کہا اور میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے صحیح فرمایا ”یوں آنکھ بند ہونے کے بعد لوگ کیڑے نکالنے لھیں، یہ اور بات ہے، مگرخدا ان کی قبر کو عنبریں کرے، مرحوم بلاشبہ صاف دل، نیک نیت انسان تھے اور نیک نام بھی۔ یہ بڑی بات ہے۔ “

”نیک نامی میں کیا کلام ہے۔ مرحوم اگر یونہی منہ ہاتھ دھونے بیٹھ جاتے تو سب یہی سمجھتے کہ وضو کر رہے۔ “جملہ ختم ہونے سے پہلے مدّاح کی چمکتی چند یا یکایک ایک دھنسی ہوئی قبرمیں غروب ہوگئی۔

اس مقام پرایک تیسرے صاحب نے (جن سے میں واقف نہیں) ”روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ“ والے لہجے میں نیک نیتی اور صاف دلی کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی پیدائشی بزدلی کے سبب تمام عمر گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بعضوں کے دل و دماغ واقعی آئینے کی طرح صاف ہوتے ہیں۔ یعنی نیک خیال آتے ہیں اورگزرجاتے ہیں۔

شامتِ اعمال کہ میرے منہ سے نکل گیا ”نیت کا حال صرف خدا پر روشن ہے مگراپنی جگہ یہی کیا کم ہے کہ مرحوم سب کے دکھ سکھ میں شریک اور ادنیٰ سے ادنیٰ پڑوسی سے بھی جھک کر ملتے تھے۔ “

ارے صاحب! یہ سنتے ہی وہ صاحب تو لال بھوککا ہوگئے۔ بولے ”حضرات! مجھے خدائی کا دعویٰ تو نہیں۔ تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اکثر بوڑھے خرّانٹ اپنے پڑوسیوں سے محض اس خیال سے جھک کر ملتے ہیں کہ اگر وہ خفا ہوگئے تو کندھا کون دے گا۔ “

خوش قسمتی سے ایک خدا ترس نے میری حمایت کی۔ میرامطلب ہے مرحوم کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے، ماشا اللہ، اتنی لمبی عمرپائی۔ مگرصورت پرذرانہیں برستی تھی۔ چنانچہ سوائے کنپٹیوں کے اور بال سفید نہیں ہوئے۔ چاہتے تو خضاب لگاکے خوردوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ مگر طبیعت ایسی قلندر نہ پائی تھی کہ خضاب کا کبھی جھوٹوں بھی خیال نہیں آیا۔

وہ صاحب سچ مچ پھٹ پڑے ”آپ کو خبر بھی ہے؟ مرحوم کا سارا سر پہلے نکاح کے بعد ہی سفید گالا ہوگیا تھا۔ مگر کنپٹیوں کو قصداً سفید رہنے دیتے تھے تاکہ کسی کو شبہ نہ گزرے کہ خضاب لگاتے ہیں۔ سلور گرے قلمیں! یہ تو ان کے میک اپ میں ایک نیچرل ٹچ تھا!“

”ارے صاحب!اسی مصلحت سے انہوں نے اپنا ایک مصنوعی دانت بھی توڑ رکھا تھا“ایک دوسرے بدگونے تا بُوت میں آخری کیل ٹھونکی۔
”کچھ بھی سہی وہ ان کھوسٹوں سے ہزار درجے بہتر تھے جو اپنے پوپلے منہ اور سفید بالوں کی داد چھوٹوں سے یوں طلب کرتے ہیں، گویا یہ ان کی ذاتی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ “مرزا نے بگڑی بات بنائی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6