چاہ یوسفی۔ چراغ تلے سے شام شعر یاراں تک کا سفر


یہ تحریر پہلی مرتبہ 24 نومبر 2014 کے دن شائع ہوئی تھی۔
مشتاق احمد یوسفی نے بلاشبہ اردو کے ممتاز ترین مزاح نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان کی حال میں ہی سامنے آنے والی کتاب ”شام شعر یاراں“ کو مایوس کن اور یوسفی کے معیار سے ہٹی ہوئی کتاب کہا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے؟ لوگوں کی توقع تھی کہ چوبیس سال کے طویل انتظار کے بعد یوسفی ایک نیا شاہکار مزاح پارہ لے کر منظر پر آئیں گے، لیکن شام شعر یاراں، توقعات کے برخلاف ایک ایسی کتاب نکلی جس کے مضامین کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو یہ لگتا ہے کہ کتاب کا نام ”شام شعر یاراں“ کی بجائے ”خطبات یوسفی“ ہوتا تو بہتر تھا کیونکہ یہ ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو کہ یوسفی نے مختلف مواقع پر کیں۔ لیکن، اگر ان کی تصانیف پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس میں یوسفی ہی کی زندگی کے پانچ ادوار جھلکتے ہیں۔

چراغ تلے انیس سو اکسٹھ میں لکھی گئی، جب کہ یوسفی کی عمر اڑتیس سال تھی۔ اس کتاب میں زندگی کے شوخ رنگ جھلکتے ہیں۔ خالص مزاح ہی نظر آتا ہے اور زندگی کا لطف بھرپور انداز میں اٹھایا گیا ہے۔ یہ ایک جواں سال اور جواں دل شخص کی تصنیف ہے۔

خاکم بدہن، انیس سو انہتر کی تصنیف ہے، جب یوسفی کی اپنی عمر چھیالیس سال ہو چلی تھی۔ اس میں ایک ادھیڑ عمر شخص ابھی تک زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ بائی فوکل کلب میں ادھیڑ عمری کی زندگی کی چند معمولی سی تبدیلیوں کا تذکرہ ہے تو صبغے اور دوسرے مضامین میں بوڑھے اور عملی زندگی میں ناکام ہوتے ہوتے ہوئے یا پھر پروفیسر عبدالقدوس کی طرح کامیاب ہوتے ہوئے کردار نظر آتے ہیں جو کہ پرانی زندگی کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

انیس سو چھہتر میں شائع ہونے والی کتاب ”زرگزشت“ ایک تریپن سالہ شخص کی تصنیف ہے جو کہ اپنی پروفیشنل زندگی میں کامیابی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ وہ ایک بڑے بینک کا صدر ہے۔ وہ اپنی پرانی زندگی پر ایک نظر ڈالتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ وہ کیسے برے حالوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچا ہے۔ ایک کامیاب شخص کی خودنوشت نظر آ رہی ہے جو کہ اوج پر پہنچ کر اب سکون کا ایک سانس لے رہا ہے اور دوسروں کو بتا رہا ہے کہ ہمت سے کام لیا جائے تو زندگی میں کامیابی ملتی ہے۔

پرانے وقتوں میں جو واقعات اسے نہایت پریشان کن لگتے ہیں، اب وقت کی گرد جھاڑ کر ان کو دیکھ رہا ہے تو وہ اسے پرلطف لگتے ہیں۔ گو کہ اس میں شاہجہانی روزن جیسی نیلی دھند کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور اپنی اور دوسروں کی مشکلات اور جدوجہد بھی نظر آتی ہے۔ مختلف شخصیات کا ایک انبوہ ہے جو مشکل حالات سے گزر رہا ہے لیکن زندگی کواس کے باوجود ایک وقار اور اچھے انداز سے جی رہا ہے۔

آب گم، انیس سو نوے میں 67 سال کی عمر میں لکھی گئی۔ اس دور میں یوسفی اپنے دوستوں کو کھو رہا تھا۔ اس کا دیباچہ اس عالم کو بیان کرتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو کہ اب بوڑھے ہو کر عملی زندگی سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا مقصد بھی ڈھونڈ رہے ہیں، اور کھوئے ہوئے سنہرے وقت میں بھی لوٹنا چاہتے ہیں۔

گو کہ مزاح کی کتب میں اس کا ایک اعلٰی مقام ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ کتاب المیوں کو بیان کرتی ہے۔ ان لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی زندگی تمام کر چکے ہیں۔ اگر واقعات کا خلاصہ دیکھا جائے تو یہ کتاب مزاحیہ نہیں، بلکہ خالصتاً المیہ ادب کی نمائندہ ہے۔ لیکن یوسفی کے باکمال قلم اور شگفتہ انداز بیان نے ان واقعات کو اس طرح سے رقم کیا ہے کہ پڑھنے والا غمگین ہونے سے زیادہ مسکراتا ہے۔

دو ہزار چودہ میں سامنے آنے والی ”شام شعر یاراں“ کا اعلان اشاعت اردو پڑھنے والے حلقوں میں نہایت خوشی اور سرشاری سے سنا گیا۔ اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں سے ایک کی کتاب سامنے آ رہی تھی، اور وہ بھی چوبیس سال کی طویل مدت کے بعد۔ لیکن ”شام شعر یاراں“ پڑھ کر بیشتر لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس میں نہ تو چراغ تلے کا چلبلا پن تھا، اور نہ ہی آب گم کی مزاح میں لپٹی ہوئی شوگر کوٹڈ اداسی۔ یہ تو بس چند تقاریر کا مجموعہ تھا۔ اسے پڑھتے وقت شروع میں اس پر افکار بے سروپا کا گمان ہوتا ہے۔

ان میں بھی کئی واقعات کئی بار دہرائے گئے تھے۔ مزاح کا عنصر بہت کم تھا۔ یوسفی کا شگفتہ انداز بیاں تقریباً ندارد تھا۔ یوسفی کی ایک ہی صفت نمایاں تھی، اور وہ تھی متروکہ الفاظ کو دوبارہ زندہ کر دینے کی روایت۔ ہم سب لوگ یوسفی کی کتابوں کے سفر کو نظر انداز کر گئے تھے۔ کیسے وہ ایک زندگی کا لطف اٹھانے والے چلبلے شخص سے ایک ایسے شخص کا روپ اختیار کر گیا تھا جس کی طویل عمر اس کے لیے ایک عذاب بن چکی ہے۔

بے اختیار وہ روایت یاد آ گئی ہے جس میں سکندر آب حیات کے چشمے پر پہنچ جاتا ہے لیکن وہاں ایک بوڑھے لاغر اور سالخوردہ پرندے کو دیکھنے کے بعد آب حیات پی کر ہمیشہ کی ایسی زندگی جینے کی بجائے ایسی جواں مرگی کو ترجیح دیتا ہے جس میں موت اسے اس وقت لے جائے جب وہ زندگی کا لطف اٹھا رہا ہو۔

شام شعر یاراں کے حاصل کتاب دو حصے ہیں، ایک طویل حصہ جو ابن حسن برنی کی یادوں پر مشتمل ہے۔ اسے پڑھ کر اب آب گم کے دیباچے کی بھی کچھ سمجھ آ رہی ہے۔ اور دوسرا آخری سات صفحات۔ انہیں پڑھ کر پتہ چلتہ ہے کہ کتاب کا نام ”خطبات یوسفی“ کی بجائے ”شام شعر یاراں“ کیوں ہے۔ بہت سے دوست کھونے کے بعد یوسفی کے لیے غالباً آخری صدمہ جس نے اس شخص کو نڈھال کر دیا، وہ [غالباً] دو ہزار سات میں ساٹھ سال تک رفیقہ حیات رہنے والی ادریس فاطمہ کی وفات تھی۔

ایک واقف حال کے کہنے کے مطابق یوسفی کو اس صدمے سے کچھ حد تک سنبھلنے میں ایک سال سے بھی طویل عرصہ لگا تھا۔ یوسفی کی یہ نئی کتاب کئی قسطوں میں بمشکل ختم کی حالانکہ یوسفی کی پرانی کتابیں ایک دو نشست میں ہی ختم کرنے کے لیے نیند قربان کرنا عام بات تھی۔ لیکن آخری سات صفحات پر پہنچ کر کتاب ختم کرتے ہوئے پتہ چلا کہ یہ کس شام کا ذکر ہو رہا ہے۔

یہ ہم سب کی توقعات کے برخلاف یہ یوسفی کا لکھا ہوا ایک فکاہیہ نہیں ہے، بلکہ ایک نثری مرثیہ ہے۔ اور وہ بھی یوسفی کا اپنا مرثیہ۔ آخری سات صفحات پڑھنے سے پہلے لگتا تھا کہ باقی کتاب ٹھیک ہے لیکن کتاب کا عنوان غلط طور پر خطبات یوسفی کی بجائے شام شعر یاراں رکھ دیا گیا ہے۔ کتاب ختم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کس شام کا نوحہ ہے جس پر وہ بمشکل ہنس پاتا ہے۔ یہ یوسفی کی اپنی زندگی کی شام ہے جو شام شعر یاراں کے نام سے سامنے آئی ہے۔

اسے یوسفی کی چاہ میں لکھا ہوا مضمون سمجھیے یا پھر یوسف کے اس کنویں کی طرف اشارہ سمجھیے جو کہ یوسف و یعقوب کے گریے کا مرکز تھا، مگر کچھ بھی ہو، یہ ہے چاہ یوسفی کا ایک ادنیٰ اظہار ہی۔

مشتاق احمد یوسفی
یوم پیدائش چار ستمبر انیس سو تئیس۔
تصنیفات
چراغ تلے (1961ء۔ )۔
خاکم بدہن (1969ء)۔
زرگزشت (1976ء)۔
آبِ گم (1990ء)۔
شامِ شعرِ یاراں (2014ء)۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar