امریکہ اور شمالی کوریا کے صدور کی ملاقات جاپان اور جنوبی کوریا کی تشویش


صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم کی ملاقات کے غیر معمولی اثرات عالمی سیاست اور بالخصوص ایشیاء پیسیفک کی صورتحال پر پڑنے کا امکان موجود ہے۔ اگر یہ معاملہ آگے نہ بھی بڑھ سکا تو اور اسکے باوجود جنوبی کوریا اور جاپان میں یہ تصور بہرحال ضرور پنپ جائے گا کہ امریکہ کسی وقت بھی شمالی کوریا سے براہ راست کوئی معاہدہ کر کے ان کو نئے حالات سے سمجھوتا کرنے کی جانب راغب کر سکتا ہے۔ جو کہ شاید ان کے موافق نہ ہو۔

شمالی کوریا سے امریکہ کے اختلافات کی تاریخ جنگ کوریا کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے اور مقامی حالات کے سبب سے جاپان کے تعلقات بھی شمالی کوریا کے ساتھ خراب بھی رہے جبکہ چین کے تعلقات شمالی کوریا کے ساتھ وقت کے ساتھ ساتھ اچھے ہوتے چلے گئے۔ اور کیونکہ چاپان کے تعلقات چین سے خراب چلے جا رہے تھے ۔ اس لئے جاپان شمالی کوریا سے مزید محتاط ہو گیا۔

چین نے شمالی کوریا کو اس حد تک سہارا دے رکھا ہے کہ شمالی کوریا کی اس وقت 80 فیصد تجارت چین سے ہو رہی ہے۔ اور چین اس کو سہارا دینے والا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔ حالانکہ چین بھی ایٹمی حوالے سے شمالی کوریا کے مؤقف کا حامی نہیں ہے۔ لیکن شمالی کوریا کا یہ مؤقف ہے کہ امریکہ کے جنوبی کوریا سے فوجی معاہدوں اور مشترکہ اقدامات کی وجہ سے شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں اور بلاسٹک میزائلوں کے تجربات کی جانب بڑھنا پڑا ہے۔

امریکہ کے 32 ہزار فوجی جنوبی کوریا میں موجود ہیں اور امریکہ بڑے پیمانے پر جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں وارگیمز کرتا رہتا ہے۔ جبکہ امریکہ نے جنوبی کوریا کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ایٹمی چھتری مہیا کر رکھی ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جنوبی کوریا کے ساتھ اس نوعیت کی فوجی سرگرمیوں کا واحد حدف شمالی کوریا ہی ہو سکتا ہے۔ حالانکہ چین بھی اس صورتحال پر شاکی ہے۔ اس لئے شمالی کوریا نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں ان اقدامات سے خطرہ ہے اس لئے ہم اپنے دفاع میں یہ ایٹمی اور میزائل سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔ 1998؁ء میں شمالی کوریا نے اپنا بلاسٹک میزائل پروگرام شروع کیا۔ جس پر جاپان نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا۔ اور بعد میں جاپانی وزیر اعظم نے شمالی کوریا کے موجودہ صدر کے والد مرحوم جو اس وقت شمالی کوریا کے صدر تھے  سے ملاقات کی اور دونوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ شمالی کوریا میزائل تجربات کے دوران اس امر کا خیال رکھے گا کہ جاپان کی سرزمین کو استعمال نہ کیا جائے۔

مگر 2006؁ء میں ہی شمالی کوریا کی جانب سے اس فیصلے کی خلاف ورزی کر دی گئی اور جاپان صورتحال کی بناء پر مزید تحفظات کا شکار ہو گیا۔ شمالی کوریا کے رہنماء پہلے بھی امریکہ سے براہ راست گفتگو کے قائل تھے مگر امریکی صدور اس سے اجتناب بڑھتے رہے۔ اور دن بدن ان کا رویہ شمالی کوریا کے حوالے سے سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے دور صدارت کے آغاز میں شمالی کوریا کے حوالے سے نہایت سخت لب و لہجہ اختیار کیا اور جواب میں شمالی کوریا کے 34 سالہ نوجوان صدر نے اس سے بھی زیادہ درشت لہجہ اختیار کیا۔ بلکہ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کا بار بار ذکر بھی کیا۔

صدر ٹرمپ نے جب صدر کم سے ملاقات کے فیصلے کا اعلان کیا تو اس وقت یہ دونوں طرف سے اعصاب کی جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس اعصاب کی جنگ کے دوران ایک ترپ کے پتے کے طور پر شمالی کوریا کے رہنماء کو خوفزدہ کرنے کے لئے صدر ٹرمپ نے ملاقات کی منسوخی کی بات بھی کی۔ مگر ان سب کے باوجود شمالی کوریا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ مگر سنگا پور میں گزشتہ ہفتے دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو گئی کہ جس کے بعد صدر ٹرمپ نے نوجوان صدر کم کے متعلق کہا کہ ان کی اور میری کیمسٹری ملتی ہے۔ اور یہ کہ وہ ایک طاقتور سربراہ ہے۔

صدر ٹرمپ کی اس ملاقات کو مبصرین صدر کم کے لئے ایک تحفہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ انہوں نے صدر کم کو دنیا میں Credibility دے دی ہے۔ پھر انہوں نے جنوبی کوریا کے ساتھ امریکی فوجی مشقوں کے خاتمے کی بھی بات کی کہ جس کو شمالی کوریا کے مطالبات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ شمالی کوریا کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جنوبی کوریا کو امریکی ایٹمی چھتری کے معاہدے سے بھی الگ کیا جائے۔ بہرحال صدر ٹرمپ نے ایسا بھی اظہار کیا کہ وہ جنوبی کوریا سے 32 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ 2020؁ء تک شمالی کوریا کے غیر ایٹمی ہو جانے کے خواہش مند ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ چین کے شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے کو حل کرنے کی تجویز جو Freez to Freez کے نام سے مشہور ہے کی ہوبہو نقل ہے۔ اس چینی منصوبے میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا اپنے ایٹمی اور میزائل تجربات کو روک دے جبکہ امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ اپنی جنگی مشقوں کو معطل کر دے۔ جنوبی کوریا اور جاپان اس صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ موجودہ صورت میں ایشیاء پیسیفک میں چین کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ حالانکہ اس ملاقات کے بعد سیکرٹری مائیک پومپیو نے جنوبی کوریا میں جاپان اور جنوبی کوریا کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ شمالی کوریا پر سے اس وقت تک پابندیاں نہیں اٹھے گی جب تک وہ مکمل طور پر غیر ایٹمی ملک نہیں بن جاتا۔

لیکن جب صدر ٹرمپ سے وائیٹ ہاؤس میں Fox کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ شمالی کوریا کے صدر سے کیوں ملے جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام ہے تو انہوں نے فوراً کہا کہ تا کہ آپ کو ان کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے محفوظ رکھ سکوں۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے کتنی تشویش کا شکار ہے تو پھر جاپان اور جنوبی کوریا کی کتنی تشویش ہو گی۔ کیونکہ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ شمالی کوریا اپنے آپ کو غیر مسلح یعنی غیر ایٹمی اور میزائلوں سے پاک ملک بنا لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).