ضمیر کی گم گشتہ آواز اور چوہدری نثار کی مایوسی


سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو شاید یہ امید تھی کہ جب وہ مسلم لیگ سے ٹکٹ لینے کی درخواست کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کریں گے کہ انہوں نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں کبھی پارٹی کا ٹکٹ نہیں مانگا اور وہ اب بھی ایسا نہیں کریں گے تو مسلم لیگ (ن) جس کی باقاعدہ قیادت اب ان کے دیرینہ دوست شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے، ان سے کسی نہ کسی قسم کی مفاہمت کرنے کے لئے بے چین ہو جائے گی۔ تاہم جب پارٹی نے ان کے انکار کا جواب ان سب حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کر کے دیا تو انہیں پاکستان تحریک انصاف سے یہ امید ضرور تھی کہ وہ نواز شریف سے اپنی دشمنی نبھانے کے لئے ان کے مقابلے میں اپنا امید وار اتارنے کی بجائے بالواسطہ ہی سہی ان کی حمایت کرے گی تاکہ وہ مسلم لیگ (ن) کے امید واروں کو ہرا کر انتخاب جیتیں اور یہ دعویٰ کرسکیں کہ وہ انتخابی کامیابی کے لئے کسی پارٹی کے محتاج نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں نواز شریف کی اعانت اور تائید کی ضرورت ہے۔ چوہدری صاحب کی یہ دونوں امیدیں نقش بر آب ثابت ہوئی ہیں۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ایک سے زائد بار چوہدری نثار علی خان کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دے چکے تھے لیکن سیاست میں ہر فیصلے کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے۔ وہ وقت گزر جائے تو اس فیصلہ کی کوئی وقعت نہیں رہتی، پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو کر نواز شریف کو چیلنج کرنے کا وقت اب چوہدری نثار علی خان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اس لئے اب وہ نواز شریف کے ’پول ‘ کھول کر انتخاب جیتنے کی اپنی سی سعی کریں گے۔

پاکستان میں جولائی کے انتخابات کے حوالے سے سیاسی حالات بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ با اختیار حلقے معلق پارلیمنٹ کی خواہش اور کوشش کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکے اور مستقبل میں ایک ایسی جمہوری حکومت قائم کرنے یا کروانے کے لئے میدان ہموار کیا جاسکے جو بے اختیار بھی ہو اور منتخب ہونے والا وزیر اعظم ہمہ وقت اپنی کرسی بچانے کے لئے تگ و دو کرتا رہے۔ ایسی صورت میں سنجرانی فارمولے کی بازگشت بھی سنی جا سکتی ہے اور بہت سے حلقے امید کر رہے ہیں کہ اگر کوئی بھی پارٹی قومی اسمبلی میں پچاس ساٹھ   سے زیادہ نشستیں نہ جیت سکی تو مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان اشتراک و تعاون سے قائم ہونے والی حکومت اور وزیر اعظم بے حد کمزور ہو گا اور اس کی حیثیت کسی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہو گی۔

ملک کی اسٹبلشمنٹ کو ایسی حکومت اور وزیر اعظم ہی کی ضرورت ہے کیوں کہ اس طرح ’سول ملٹری‘ تنازعہ بھی ختم ہوجائے گا اور نواز شریف جیسے وزیر اعظم کی طرف سے ’با اختیار‘ بننے کی خواہش سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ ہنگ پارلیمنٹ اور پارٹیوں کی محدود نمائیندگی کی وجہ سے وزیر اعظم کمزور ہونے کی وجہ سے مسلسل اسٹبلشمنٹ کی حمایت کا خواہشمند رہے گا تاکہ اسے اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل رہے۔ ایسی صورت میں اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آئندہ پانچ برس کے دوران ایک سے زیادہ بلکہ کئی وزیر اعظم ملک کا اقتدار سنبھالیں۔ اس طرح ایک بار پھر ملک میں پچاس کی دہائی کی سیاست وا پس آسکتی ہے جب اسٹبلشمنٹ اور بیورو کریسی سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہو رہی تھی اور ملک میں ہر چند ماہ بعد نیا وزیر اعظم سامنے آتا تھا۔ یہ سلسلہ ایوب خان کے مارشل لا نافذ کرنے تک جاری رہا تھا۔ تاہم اب پاکستان پچاس کی دہائی کا ملک نہیں ہے اور دنیا بھی اپنی ضرورتوں اور سیاسی و معاشی ضرورتوں کے معاملہ میں ساٹھ برس آگے بڑھ چکی ہے۔ اس لئے ملک میں کمزور اور محتاج حکومت قائم کرنے کا پرانا تجربہ مہلک اور سیاسی لحاظ سے خطرناک ہو سکتا ہے۔

ان سیاسی حالات میں ہر سیاسی پارٹی کے علاوہ بہت سے افراد بھی اپنے اپنے ماضی اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی وفاداریوں کی وجہ سے مستقبل کا وزیر اعظم بننے کی خواہش لئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک چوہدری نثار علی خان بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری جو معلق پارلیمنٹ اور بڑی تعداد میں آزاد امید واروں کی جیت کی پیش گوئی کرچکے ہیں ، خود بھی وزات عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر 25 جولائی کو ہونے والے انتخاب میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی اور ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی پچاس ساٹھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت اور اسٹبلشمنٹ سے نئی نویلی دوستی کے طفیل اپنی قیادت میں نئی حکومت قائم کرسکیں گے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کی گزشتہ پانچ سال کی ساری سیاسی جدوجہد صرف اس ایک نکتے پر مرکوز ہے کہ وہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم بن سکیں۔ عمران خان گزشتہ برس 65 برس کے ہو چکے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر اس بار بھی وہ وزیر اعظم نہ بن سکے تو 2023 میں خواہ پاکستان تحریک انصاف بڑی پارٹی بن کر ہی سامنے آئے لیکن اس وقت شاید ان کے لئے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنا ممکن نہیں ہو گا۔ اسی جلدی میں انہوں نے 2013 کے انتخابات کے بعد احتجاج اور شریف برادران کی کردار کشی پر استوار سیاست کا آغاز کیا تھا۔

دھرنا سیاست میں ناکامی کے بعد پاناما کیس کی وجہ سے انہیں ایک نیا ہتھکنڈا ہاتھ آگیا تھا ۔ وہ اسے اس حد تک تو مؤثر طور سے استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ نواز شریف کو حکومت اورسیاست سے تاحیات نااہل قرار دلوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اگرچہ نوازشریف کے زوال کا سارا کریڈٹ عمران خان کو نہیں جاتا۔ اس داستان کے بہت سے ایسے گوشے بھی ہیں جن سے شاید کبھی پردہ نہ اٹھ سکے لیکن نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کیسز میں پھنسنے سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ہی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے فرار ہونے والے الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں ہی پناہ لے رہے ہیں۔ اس طرح عمران خان جو سونامی 2013 میں اپنی مقبولیت اور جاں نثار کارکنوں کے بل بوتے پر برپا نہیں کر سکے، ان کا خیال ہے کہ وہ الیکٹ ایبلز کے سہارے اور اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی کی وجہ سے اس بار ضرور سیاسی طوفان لا سکتے ہیں جس میں وہ مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی سیاسی قوت کو بہا کر لے جائیں گے اور اس سال کے آخر میں صرف عمران خان اور تحریک انصاف کا ہی بول بالا ہوگا۔ تاہم یہ امید لگاتے ہوئے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ چرخا جلا کر جتن سے جو کھیر پکائی گئی ہے، اس کی پوری ہنڈیا آخر تحریک انصاف کے حوالے کیوں کی جائے گی۔ سیاست پر ایک پارٹی کی بالادستی اور اختیار پر ایک لیڈر کی دسترس سے بچنے کے لئے ہی تو نواز شریف کو انجام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں کوئی لیڈر بھاری مینڈیٹ کے زعم میں پورے نظام پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔

چوہدری نثار علی خان اسی منظر نامہ کی امید پر اب آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور پنجاب اسمبلی کی چار نشستوں پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہیں مرکز میں ’سنجرانی‘ بننے کا موقع نہ ملا تو وہ سال ہا سال کی وفاداری کے عوض پنجاب کی وزارت اعلیٰ تو لے ہی سکتے ہیں۔ 34 برس کے سیاسی سفر کے بعد انہیں نواز شریف میں جو کمزوریاں اور خرابیاں اچانک دکھائی دینے لگی ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) اب چوہدری نثار علی خان کے مستقبل کے سیاسی خواب کی تکمیل میں معاون کی بجائے رکاوٹ بن رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ وقت ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے اپنی وفاداری کی قیمت بھی وصول کرسکتے ہیں اور وزیر اعظم یا پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن کر اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کا یہ اندازہ درست ہو یا انہیں ان حلقوں کی جانب سے کوئی اشارے بھی ملے ہوں جن کی خدمت کرتے ہوئے اب وہ تین دہائیوں پر محیط ساتھ کو تلخ طریقے سے ختم کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن نواز شریف کے خلاف چوہدری نثار علی خان کے تازہ حملوں کی سب سے بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اب انہیں مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے امید واروں کا سامنا کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں انتخاب جیتنا ہے۔ یہ انتخاب جیتنے کے لئے انہیں جو ووٹ درکار ہیں وہ یا تو نواز شریف کی تائید و حمایت سے مل سکتے ہیں یا ان کی مخالفت میں نعرے بلند کرکے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ پہلا راستہ چھوڑنے کے بعد اب وہ دوسرے راستے پر گامزن ہیں۔ اس بار انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا چونکہ نثار علی خان کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا، اس لئے وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہیں۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف کی کردار کشی کے حوالے سے چوہدری نثار کی طرف سے کئی جارحانہ بیانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔

نواز شریف کی قیادت کا پول کھولنے اور انہیں کمزور اور نااہل لیڈر ثابت کرنے کے لئے گزشتہ روز چکری میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے البتہ چوہدری صاحب نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودا نہیں کیا اور انہوں ضمیر بھی فروخت نہیں کیا۔ چوہدری نثار صرف ایک اصول پر گامزن رہے ہیں کہ ہر قیمت پر اسٹبلشمنٹ سے وفاداری نبھائی جائے خواہ اس کے لئے دہائیوں کا ساتھ بھی چھوڑنا پڑے۔ ان کے منہ سے اصولوں اور ضمیر کی بات عجیب لگتی ہے کیوں کہ پاکستانی سیاست میں نثار علی خان جیسے مفاد پرست افراد کی وجہ سے جمہوریت کا سفر مشکل اور دشوار رہا ہے۔ چوہدری نثار اسٹبلشمنٹ سے تعلقات کی وجہ سے ہی سیاسی طور سے طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ اسٹبلشمنٹ انہیں 25 جولائی کو انتخاب جیتنے کے لئے مدد فراہم نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے انہیں یا تو ان منصوبوں کا حوالہ دینا پڑے گا جو نواز شریف کی حاشیہ برداری کی بدولت وہ اپنے علاقے میں شروع کروا سکے تھے یا نواز شریف کو گالی دے کر ووٹ لینے کی جد و جہد کرنا ہوگی۔ اصول پرست چوہدری نثار یہ دونوں کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali