سرحد پر جدا ہونے والے بچی کی کہانی


دو سالہ بچی

امریکی بارڈر پٹرول کے لیے یہ ایک نیا کیس تھا۔ ایک اور پناہ گزین خاندان، جس کے پاس کسی قسم کے کوئی دستاویزات نہیں تھے، ٹیکسس کے میک ایلن علاقے میں پھنس گیا تھا۔

لیکن گیٹی امیجز کے ایک فوٹو جرنسلسٹ جان مور وہاں موجود تھے۔ ان کے کیمرے کے لینز نے ایک ایسی بچی پر فوکس کیا جو بارڈر پٹرول کی جانب سے اپنی ماں کے علیحدہ کیے جانے پر زارو قطار رو رہی تھی۔

جو تصویر بنی وہ پناہ گزین بچوں اور ان کے والدین کی درد ناک جدو جہد کی ایک علامت بن چکی ہے جو ہر بار بچھڑے جانے پر ایسی ہی تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔

اس تصویر کو وائرل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور یہ ایسے وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی پناہ گزین خاندانوں کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر الک کرنے کی پالیسی پر تنقید کی جا رہی ہے۔

مور نے بی بی سی کو بتایا ‘میرا دل چاہتا تھا کہ میں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ اس بچی کی ماں نے بتایا کہ وہ ہنڈورس سے آئے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی دو سالہ بچی کے ساتھ ایک ماہ سے سفر کر رہی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

بچوں کو والدین سے جدا کرنے سے نفرت ہے: میلانیا ٹرمپ

غیر قانونی مہاجرین کے دو ہزار بچے والدین سے الگ

امریکہ: نوجوان تارکینِ وطن کے تحفظ کا ڈریمر پروگرام منسوخ

امریکہ:غیر قانونی تارکین وطن کے لیے نئی گائیڈ لائن جاری

امریکی بارڈر پیٹرول

مور کے مطابق ‘اس خاتوں کی عمر 30 سال تھی اور اس نے بچی کو اپنی بانہوں میں تھام رکھا تھا۔‘

فوٹو جرنلسٹ نے بتایا ‘بارڈر پٹرول نے اس خاتون سے کہا کہ وہ بچے کو فرش پر چھوڑ دے تاکہ وہ اس خاتون کی شناخت کر سکیں اور اس کی تلاشی لے سکیں‘ لیکن جوں ہی ماں نے بچی کو اپنی گود سے اتارا اس نے رونا شروع کر دیا۔

مور کے مطابق وہ اس منظر سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے متصل علاقے میں دس سال کام کیا ہے۔

‘مجھے رک کر خود کو سنبھالنا پڑا۔ میں ایک صحافی ہوں لیکن ایک والد بھی ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ اس عمر کے بچے ماں باپ سے الگ ہونے پر کس اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘

بچی اپنی والدہ کے ساتھ

John Moore for Getty Images

مور کو یہ سب دیکھنا مشکل محسوس ہوا کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ امریکہ میں پناہ گزینوں سے متعلق نئی پالیسی کے تحت اس بچی کو اس کی والدہ سے الگ کر دیا جائے گا۔

مور کا کہنا ہے ’یہ کچھ ایسا ہے جو میں بہت بار دیکھ چکا ہوں لیکن اس بار یہ بدتر محسوس ہوا۔‘

’میں نے بہت سی چیزیں دیکھی ہیں‘

یہ تصاویر امریکی بارڈر پیٹرول کے ساتھ منسلک ایک طویل شفٹ ختم ہونے کے بعد آئی ہیں۔

مور نے بتایا ’میں نے یہ تصاویر آدھی رات کے قریب کھینچیں لیکن اس سے قبل میں نے دن میں کتوں اور ہیلی کاپٹروں کو پناہ گزینوں کا پیچھا کرتے دیکھا۔ میں نے ایسی بہت سی چیزیں دیکھی ہیں۔‘

مور نے میکسیکو اور امریکہ کی سرحد کے درمیان واقع ریو براوو نامی دریا کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک گروہ کو بھی دیکھا تھا۔

مور کے مطابق اس گروہ نے میکسیکو کے قصبے رینوسا سے چلنا شروع کیا اور دریا عبور کرنے کے بعد انھوں نے پھر چلنا شروع کر دیا۔

مور کا خیال ہے کہ یہ لوگ میک ایلن کے قریبی علاقے جسے ایل رینک بھی کہا جاتا ہے اکھٹے آئے تھے۔

’یہ جگہ پناہ گزین خاندانوں کے لیے میٹنگ پوائنٹ بن گیا ہے جو امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت خوفزدہ تھے، ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے جن کا تعلق سینٹرل امریکہ سے تھا۔ ان میں سے متعدد افراد بہت زیادہ تھکے ہوئے، نیند میں اور فکر مند تھے۔

انھوں نے الگ الگ سفر کیا تھا لیکن امریکہ میں داخل ہونے کے بعد ان کا سفر اکھٹے جاری رہا۔

مور کا مزید کہنا ہے کہ بارڈر پیٹرولز ’پروفیشنل تھے اور انھوں نے پناہ گزینوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ پناہ گزینوں کی شناخت کے بعد انھیں ہولڈنگ سینٹرز پہنچا دیا گیا۔

مور نے اس چھوٹی بچی کی تصویر لینے کے بعد سے اسے نہیں دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp