میں انتخاب میں کیوں جارہا ہوں؟


ہم سمجھتے ہیں پاکستان میں ایک متبادل سیاست کی بہت ضرورت ہے۔ عام انسان کی زندگی سے سیاست کو ایک خاص منظم طریقے سے ختم کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں تباہی ہی ہوئی ہے۔ چاہے آپ معاشی اعتبار سے دیکھ لیں، وسائل کی تقسیم میں نابرابری ہو، مذہبی منافرت ہو یا پھر فاشسٹ طاقتوں کا اوپر آنا ہو۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو کہ عام انسان کی زندگیوں سے شعور اور مذاہمت کو ختم کرنے سے پروان چڑھیں۔ غیر جمہوری قوتوں کو ہی دیکھ لیں کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ نے لوگوں کے ذہنوں کے اوپر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اگر یہی وہ قوتیں ہیں جن کے ہاتھوں میں ہم نے اس ملک کو دینا ہے تو اس ملک کا کوئی مستقبل ہی نہیں ہے۔ اگر ہم نے سماج کا رُخ موڑنا ہے تو جو عام انسان ہے جس کوہم بالکل بھول ہی گئے ہیں، اس کے مستقبل کے لئے اگر ہم نے کچھ کرنا ہے تو ہمیں آگے آنا ہوگا۔

میں اسلام آباد کے حلقہ قومی اسمبلی این اے 53سے عوامی ورکرز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میں اپنے حلقے سمیت ملکی معاملات پر جو ایجنڈا رکھتا ہوں وہ لے کر حاضر ہوا ہوں، ملکی گھمبیر صورتحال میں موجودہ مسائل کو ہماری پارٹی بہت ہی الگ نظر سے دیکھتی ہے۔ ہم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے مسئلے کو سب سے اوپر رکھتے ہیں۔ یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ پیداواری وسائل کس طبقے کے ہاتھ میں ہیں اور جو اکثریتی طبقہ ہے اس کے ہاتھ میں کیا ہے۔ یہ ہمارے لئے سب سے بنیادی مسئلہ ہے، جب تک یہ حل نہیں ہوتا تب تک باقی سوالوں پر نہیں جایا جاسکتا۔ باقی سوالات یعنی کہ مذہب، عورت کے ساتھ صنفی تضاد، ماحول، ریاستی کردار، یہ سب ایک ہی نکتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ نکتہ ہے مسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جو کہ نہیں ہونی چاہیے۔

ہمارے لئے دوسرا اہم پہلو ہماری ریاست ہے۔ ہماری ریاست کی بنیاد ایک نوآبادیاتی ریاست کی ہے جو کہ ابھی بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ اسی طرح سے قائم ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ عوام ریاست کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ ریاست عوام کے لئے ہوتی ہے۔ ابھی بھی ہم دیکھیں کہ جوتحریکیں قومی سوال کے ارد گردکھڑی ہورہی ہیں، چاہے وہ پشتونوں کی تحریک ہو، بلوچ ہو یا سندھی تحریک گرد گھوم رہی ہیں، ان تحریکوں میں بھی بنیادی بات یہی ہے کہ ریاست کو عوام کے ماتحت ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ بہت دہائیوں سے دبا ہوا ہے اور ہم یہ سوال پھر سے اٹھانا چاہتے ہیں کہ ریاست کو صحیح معنوں میں جمہوری بنائیں اور وہ ہر سطح پر ہو۔ چاہے وہ مرکزی سطح کے اختیارات نچلی سطح پر منتقلی کا معاملہ ہو یا پھر غیر منتخب ریاستی اداروں کو عوام کے ماتحت کرنے کی بات ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک چھوٹے سے ادارے میں بیٹھ کر چند سرکاری افسر چاہے وہ جرنیل ہوں یا بیوروکریٹ ہوں، عوام کے لئے پالیسیاں بنائیں، اور ان کو یہ بتائیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے۔ بلکہ یہ تو عوام کو بتانا ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست کیا پالیسی اختیار کرے۔

ملکی سطح کے مسائل کی ہی بات ہورہی ہے تو اس کے علاوہ ہمارے لئے اہم مسئلہ ماحول ہے۔ پاکستان دنیا کے انتہائی Water Stressed ممالک میں سے ہے۔ ہمارے گلیشئیرز بہت تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ ہم نے پانی کی تقسیم کے لئے بھی نہیں سوچا۔ پانی کا مسئلہ بھی جب شدید ہوگا اس میں بھی غریب عوام ہی Suffer کرے گی۔ اس کے بارے میں ہم نے لوگوں کو ابھی سے آگاہی دینی ہے اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ تبھی جا کر ہمیں مسائل کے حل کہیں ملنا شروع ہوں گے۔

اب تو ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارا وجود بھی خطرے میں ہے۔ موسمی تبدیلی کا مسئلہ بہت بڑاہے۔ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ چند سالوں میں اس ملک میں پانی کے مسئلے پر شاید خانہ جنگی ہورہی ہو۔ اور کوئی بھی جماعت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتی۔

اس مسئلے کی جو Systematic بنیادیں ہیں اور پھر اس کا جو سرمایہ داری نظام سے تعلق ہے اس کو کوئی سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ کس طرح منافع خوری نے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اس ملک کی معیشت کو جکڑنے کی وجہ سے اس ملک میں مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی ہم کس طرح سے روک تھام کر سکتے ہیں اس پر کوئی بھی سنجیدگی سے سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے پاس سارے مسائل کے حل ہیں اور ہم سب کچھ ٹھیک کر دیں گے، لیکن بہرحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم وہ واحد سیاسی قوت ہیں جو کہ ملکی مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اب آتے ہیں کہ میرے حلقے کے پہلے تین بڑے مسئلے کیا ہیں جن کو عوامی ورکرز پارٹی بہت سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔ اسلام آباد میں ہم کافی عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ ایک عرصے سے ہم ایک مقصد کے لئے لڑتے آرہے ہیں اور آئیندہ بھی، چاہے سڑکوں پر ہو یا عدالتوں میں، لڑتے رہیں گے وہ مقصد رہائش کا ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان بھر کا ایک نہایت بنیادی مسئلہ ہے جس کو سیاسی طور پر اس طرح سے کبھی دیکھا ہی نہیں گیا۔ حالانکہ یہ سوال بالکل ایک سیاسی نوعیت کا اور نابرابری کا سوال ہے۔ اس ملک کی جو غریب عوام ہے اس کے لئے شہروں میں رہائش کا بندوبست ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے ہاں جو ترقیاتی منصوبے ہیں اس میں ہم نے زراعت کے اوپر فوکس کی بجائے شہری ترقی پر فوکس کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ دیہات سے شہروں کی جانب آئے ہیں۔ چاہے وہ مزدوری کے لئے آئے ہیں، تعلیم کے لئے یا سرکار کے ظلم سے بچنے کے لئے، یہ لوگ آتے ہیں لیکن یہاں ان کی رہائش کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔

سرکار پبلک ہاؤسنگ بناتی ہی نہیں ہے۔ خطے میں دوسرے ممالک سے موازنہ کریں تو ہم تو کچھ بھی نہیں بناتے۔ سوائے سرکاری افسران کے، یہاں کوئی بھی پبلک ہاؤسنگ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر جو بناتا ہے وہ صرف امیروں کے لئے اور اپر مڈل کلاس کے لئے بناتا ہے۔ جو حالیہ ہاؤسنگ اسکیمز ہیں ان میں صرف ایک فیصد لوگ ان کو افورڈ کر سکتے ہیں، 99 فیصد جو رہائش ہے وہ ستر فیصد آبادی افورڈ نہیں کرسکتی۔ چانکہ ہماری زیادہ تر آبادی کا حصہ کچی آبادیوں میں رہتا ہے، ہمارے لئے ان کی رہائش کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا سنگین مسئلہ ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم نے کتنے بچوں کے جنازے اٹھائے ہیں۔ جس طرح کے حالات میں لوگ یہاں رہتے ہیں، ہیضہ، ٹائفائیڈ بخار، ہیپاٹائٹس اور بیشتر مہلک بیماریاں ان نالوں پر بنی کچی آبادیوں میں رہتے لوگوں کی زندگیوں کا خاص حصہ ہوتی ہیں۔ صاف پانی، بجلی، نکاسی کا نظام، کچھ بھی تو نہیں ہے۔

یہ ہمارے لوگ ہیں۔ اس ملک کی آدھی آبادی ہے، یہ لوگ ملک کے مختلف دیہاتوں سے آکر اسلام آباد میں بسے ہوئے ہیں۔ رہائش کا جو بنیادی حق ہے اس پر ہم بہت پہلے سے لڑ رہے ہیں۔ ہم نے ایک پالیسی تیار کرکے سپریم کورٹ میں جمع بھی کرائی ہوئی ہے۔ اس میں ہمارا موقف ہے کہ ان لوگوں کے لئے براہ کرم کسی گھروں کی اسکیم کا اعلان کیا جائے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ لوگوں کو مفت گھر دے دیے جائیں۔ مگر اسکیم بنائی تو جائے، قسط وار ادائیگیوں کا کوئی نظام مرتب کیا جائے۔ کچی آبادیاں موجود ہیں، لوگوں نے اپنے گھر بنائے ہوئے ہیں، ان کو قانونی دائرے میں لایا جائے۔ یہ کیوں نہیں ریگولرائز کرتے، وہ اس لئے کہ یہ بھی لوگوں سے کرائے کی صورت میں بھتہ لیتے ہیں، زمینوں پر بٹھا کر غریب کا خون چوسا جارہا ہے۔ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ سرکاری خزانے میں پیسہ جائے۔ بس لوگوں کے مسائل کا کوئی مستقل حل نکلے۔

اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف کچی آبادیوں کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ پکی آبادیوں میں رہ رہے ہیں وہ بہت صحیح رہ رہے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت سے مناسب کرایوں سے بہت بڑھ کر کرایے لئے جارہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ایک سے دو کمروں کے گھروں کا کرایہ تیس سے چالیس ہزار روپے ہے۔ اس کے لئے بھی ایک منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہم تو اس حد تک کہتے ہیں کہ جو لینڈ لارڈ کلاس ہے اس کو بھی ریگولریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی بڑی اسکیموں، بحریہ، ڈی ایچ اے سب کو ریگولریٹ کیا جائے۔

میرے حلقے کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ نوجوانوں کا روزگار ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری بہت بڑھ گئی ہے۔ ہماری پارٹی میں بھی ایسے لوگ آتے ہیں جن کو کوئی روزگار نہیں ملتا۔ نوجوانوں نے بیچلرز اور ماسٹرز تک کی تعلیم کی ہوئی ہے لیکن کوئی روزگار کا بندوبست ہی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ ایمپلائمنٹ بیورو کے ذریعے بھرتیاں کریں یا پھر labor Department کے ذریعے، لیکن ریاست کی ذمہ داریوں میں روزگار کی فراہمی ضرور ہو۔ عالمی طور پر یہ مسئلہ کئی تجربوں کا حامل رہا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ حکومتیں اس کام کو کرنے میں کتنی سنجیدہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک تو روزگار گارنٹی اسکیموں کا انعقاد ہو جو کہ انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال، لاطینی امریکہ میں بھی رہی ہے۔ حکومتیں پبلک ورکرز کے ذریعے پبلک سروسز کو بہتر بنانے کا ایک ذریعہ بناسکتی ہیں۔ جس میں بنیادی تنخواہ پچیس سے تیس ہزار ہو، اور جنہوں نے بیچلرز اور ماسٹرز کیا ہو ان کو اس سے زیادہ پر کام پر لگایا جائے۔ دیکھا جائے تو دونوں مسئلے ساتھ ساتھ ہیں، لوگوں کو بنیادی سہولیات کی بھی ضرورت ہے اور نوجوانوں کے روزگار کے لئے بھی ریاست کو کچھ کرنا ہے۔ تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے کہ ہم سب مل کر اتنے سارے پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوانوں کو جوڑ کر لوگوں کے مسائل بھی حل کریں اور اس طرح سے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہو۔

تیسرا مسئلہ اسلام آباد کی سطح پر عورت کا سوال ہے۔ اس ملک میں نصف آبادی عورتوں کی ہے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آتیں۔ ماسوائے ان خواتین کے جو اشرافیہ میں آتی ہیں اور وہ اپنی ہی کلاس کی نمائیندگی کرتی ہیں۔ لیکن جو اکثریت ہے وہ نہ ہمیں سیاست میں نظر آتی ہیں، نہ کاروبار میں اور نہ لیبر فورس میں نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں لیبر فورس کا حصہ خواتین جن کی تعداد کل 22 یا 23 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ گھروں میں جو خواتین کام کرتی ہیں، نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے، اور نہ کوئی مراعات دی جاتی ہیں۔ کم از کم اجرت تو کیا ان سے گھروں میں دو سے تین ہزار روپوں میں کام کرایا جاتا ہے۔

اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف غریب عورتوں کا بھی سوال نہیں ہے یہ ایک عمومی مسئلہ ہے۔ آپ مارکیٹ جاتے ہیں، آپ کو کتنے فیصد مرد اور کتنی خواتین نظر آتی ہیں۔ مطلب پبلک اسپیس تک تو عورت کی رسائی اس ملک میں ہے نہیں، اگر وہ باہر جاتی بھی ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ کپڑے سیدھے پہنو اور نیچے دیکھ کر چلو۔ اگر وہ دوپٹہ حجاب بھی کرے تو اس کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک بہت بڑا حصہ ہے جو unrepresented ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نوجوانوں اور خواتین کی جماعت ہیں، ہمارے لئے نوجوانوں کو لے کر سب سے اہم جو دو حدف ہیں، ایک تو ان کو روزگار ملے اور دوسرا تعلیمی نظام۔ چالیس یا پچاس فیصد نوجوان اسکولوں سے ہی باہر ہیں۔ سب سے پہلا کام ان کو اسکولوں میں لانا ہے۔ یہ تو ہمارے آئین میں بھی ہے کہ ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے وہ پورا کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس وسا ئل کی کمی ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا۔ 2010 میں جاکر تو ہماری ریاست نے یہ قبول کیا ہے کہ تعلیم دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے پہلے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ تعلیم ایک نجی مسئلہ ہے اور یہ پرائیویٹ سیکٹر کی ہی ذمہ داری ہے۔ مطلب جس ریاست نے آج تک مانا ہی نہیں کہ تعلیم ریاستی مسئلہ ہے اس ریاست نے Universal enrolment یا literacy کو بڑھانے کے لئے کیا کچھ کیا ہوگا۔
یہ بھی اکاؤنٹی بلٹی کا سوال ہے۔ قانون سازی کے ذریعے سے مقامی حکومتوں سے لے کر وفاقی حکومت تک ان ذمہ داران کا تعین کیا جائے کہ جن کی ذمہ داری بچوں کو اسکولوں میں لانا ہے۔

اور یہ بھی تو دیکھیں کہ آپ پڑھا کیا رہے ہیں۔ بچوں کو ہم اسکولوں میں لے تو جائیں مگر وہاں بھی ان کو غلامی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ کہ کوئی سوال نہیں کرنا، کوئی بات پوچھنی نہیں ہے، جو بتایا جارہا ہے اس پر سر دھننا ہے۔ یہاں یا تو ہم اپنے بچوں کو کلرک بناتے ہیں یا ہم ان کو رجعتی ذہن کا انتہا پسند بنا دیتے ہیں۔ جو کہ پھر تنگ نظر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے پیچھے جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہمارے لئے یہ ایک اہم موقع بھی ہے، یا یہ کہہ لیں کہ ایک بحران ہے ساتھ ہی ساتھ ایک موقع بھی ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو کیا پڑھا نا ہے۔

یہ تو ایک بنیادی لیول کی پڑھائی کی بات ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہوئی ہے کہ پچھلے تیس چالیس سالوں سے پڑھا لکھا طبقہ جو کہ چار پانچ فیصد آبادی کا حصہ ہے جو گریجویشن کے لیول تک پہنچتا ہے اس کو آپ نے سکھایا ہوا ہے کہ اس نے سیاست سے دور رہنا ہے۔ سیاست تو ہے ہی کوئی غیر قانونی چیز۔ تو وہ لوگ جو معیشت، سماجیات کو پڑھتے ہیں ان کے پاس سوچنے کی فرصت ہوتی ہے مگر سیاست کے حوالے سے دل میں بیٹھا ڈر اور خوف ان کو روک دیتا ہے۔ مزدور کے پاس تو فرصت ہی نہیں ہوتی، اس کو تو معیشت کے اندر اتنا دبا دیا گیا ہے کہ اس کے پاس تو کوئی فرصت ہی نہیں کہ وہ کچھ کرسکے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہوا ہے۔

اسی نوے کی دہائی سے جب سے نیو لبرلزم کا دور آیا ہے اس میں ہوا یہ ہے کہ پہلے جو فیکٹری والے مزدور ہوتے تھے ان کو فیکٹریاں توڑ کر ٹھیکے پر دے کر ہر کسی کو تقسیم کیا گیا تاکہ وہ منظم نہ ہوسکیں۔ تاکہ ویجز کو کم رکھا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں مزدور کی تو اب وہ حالت ہی نہیں رہی۔ ٹریڈ یونینز بھی ٹوٹ گئیں، لیبر یونینز بھی کسی نہ کسی چوہدری کے پیچھے لگ گئیں کہ ان کو کوئی نہ کوئی مراعات مل جائیں لیکن مزدور مجموعی طور پر جو ایک طبقہ تھا وہ توڑ دیا گیا۔ باقی جو بچے نوجوان ان کو تو آپ نے سیاست سے اتنا دور رکھ دیا ہے کہ ان کو رویہ بھی بالکل غرق ہوگیا ہے۔
ہم ان تمام باتوں کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور آئندہ الیکشن میں کامیابی کے بعد اسمبلی میں ان معاملات پر مذاہمتی آواز بنن کر عوام کے مسائل پر جدوجہد جاری رکھنے کی پالیسی پر فی الوقت قائم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).