ڈائو میڈیکل یونیورسٹی میں استقبال یوسفی


محترمی و مکرمی مشتاق احمد یوسفی صاحب

محترم وائس چانسلر ڈائو میڈیکل یونیورسٹی، محترم اساتذئہ کرام اور ڈائو میڈیکل کالج کے ساتھیو جو ہم سبق بھی ہیں، ہم مشرب بھی اور ہم راز بھی۔

محترم شعرائے کرام اور سامعینِ مشاعرہ، خواتین و حضرات،

آج میں گھر سے نکلا تو راستے میں ایک دیوار آگئی۔ سچ مچ کی دیوار نہیں، ورنہ میں اس سے سر پھوڑ کر وہیں بیٹھ رہتا اور آج کی محفل سے بچ نکلنے کا ایک معقول بہانہ مل جاتا۔ دیوار جو ملی تو وہ یاد کی دیوار۔ یہ اس وقت کی دیوار ہے جب آتش جواں تھا اور ڈائو میڈیکل کالج میں طفلِ مکتب تھا۔ آج کل تو فتور کا زمانہ ہے اور وہ بھی نیت کے، ان دنوں کراچی میں فساد ہو رہا تھا، لسانی فساد اور اس طرح کہ زبانیں اپنے بولنے والوں کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھیں۔ دیوار یہی ڈائو میڈیکل کالج کی دیوار تھی، جس کے سایہ میں بیٹھ کر ہم خود کو فرماں روائے ہندوستان سمجھتے تھے کہ اگر ہم ڈائو کے طالب علم ہیں تو پھر ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا۔ اس زمانے میں نوشتۂ تقدیر پڑھنا اتنا ضروری نہ تھا، کالج کی اس دیوار کو پڑھ لینا کافی تھا، جس پر ہر عقیدے اور سیاسی وابستگی، ہر قوم اور ہر جنس کے حق میں حق، ناحق نعرے لکھے ہوتے تھے۔ کسی نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر دیرینہ مطالبہ لکھ رہا تھا —مکرانی کو قومی زبان کا درجہ دو۔

اس کے نیچے کسی دل جلے نے سیاہی مائل سرخی سے بلکہ یوسفی صاحب کے بقول خونِ دل کی سیاہی سے لکھ دیا تھا— یہ مُنھ اور مسور کی دال۔

ہم تو اس وقت بھی یوسفی صاحب کے پڑھنے والے تھے۔ ہمیں آٹے دال کے بھاؤ کی کیا خبر تھی۔ ہاں، یہ سُن رکھا تھا کہ غالب کو جب بہادر شاہ ظفر نے دال بھیجی تو انہں نے دال کی مداحی میں لکھا:

یہ شاہ پسند دال ہے، بے بحث و جدال

ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال

دال کی داد غالب کی درباری مجبوری تھی، ہم اس دال سے بھی محروم ہیں کہ اگر وہ میسر ہوجاتی تو یوسفی صاحب کے روبرو کچھ کہنے کی جسارت کرتے اور یوں بودمِ بے دال نہ بنتے۔

دال اور دیوار بھی اس وقت سے یاد آئے جارہی ہے جب آج صبح سویرے محترم سلطان احمد صاحب کے ٹیلی فون سے آنکھ کھلی اور انہوں نے ایک عدد سسرالی حکم نامہ جاری کیا کہ محفل میں شریک ہونا اور یوسفی صاحب کے بارے میں گفتگو کرنا ہے۔ ان کو سمجھانا چاہا کہ مجھے یہ طاقت، یہ مجال کہاں۔ مگر ہاں کیے ہی بنی اور وہ بھی یوں کہ سلطان بھائی کے نام کا خیال آ گیا۔ مجھے ان سے جو ڈر لگتا ہے وہ ان کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ آپ جس تجزیہ نگار کا کالم اٹھا کر پڑھ لیں، آخر میں اعتراف یہی نکلتا ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ خوئے سلطانی نہیں گئی۔ یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ کوئی غافل یہ گماں نہ کرے شاید یہ سلطان بھائی کے ’’گھر میں سے‘‘ ہوں اور اگر ان کے گھر میں سے، ’’ہمارے گھر میں سے‘‘ شکایت کر دیں تو پھر یوسفی صاحب کے مداح ہونے کے باوجود ہم کسی کو منھ نہ دکھا سکیں گے۔ مسور کی دال ہی پیٹتے رہ جائیں گے۔

سلطان بھائی کا حکم مجبوری ٹھہرا اور وہ بھی گھریلو! اس پر محترم وائس چانسلر صاحب کا ارشاد گرامی۔ یہ بلاوا ملنا تھا کہ پھر یہ لحاظ کیے بغیر کہ یہ میری حیثیت اور مقام سے بڑھ کر ہے، ڈائو کے نام پر میں کھینچا چلا آیا۔

میں بھی جلے ہوئوں میں، ہوں داغِ ناتمامی

اس درس گاہ کے در و دیوار میں کیسے سہانے خواب بُنے اور کیسی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں ان دنوں سے۔ ان ہی میں سے ایک یاد ڈائو کے مشاعروں کی بھی ہے۔ یہ مشاعرے ایک روایت بن گئے تھے، دیارِ علم کی روایت، اسی شہر کی روایت۔ شعر و ادب کے کتنے ہی بڑے ناموں کو یہاں دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔ ہم ایسے طالب علموں کو لگتا تھا کہ علم و ادب کی کہکشاں سے ستارے اُترے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مارشل لاء کے دنوں میں احمد فراز نے یہاں اپنی نظم محاصرہ پڑھی اور ہم نے ایک سرخوشی کے عالم میں سُنی۔ ان مشاعروں کا مخصوص انداز ان کی ہوٹنگ میں نمایاں تھا۔ ایک جدید شاعرہ نے نظم شروع کی کہ، میرے اندر ایک چھوٹی سی بچی ہے اور پیچھے سے آواز آئی، گائنی کا کیس ہے بے گائنی کا!

ڈائو میڈیکل کی ایک روایت تھی کہ یہ میڈیسن اور سرجری میں اختصاص و مہارت کے لیے اعلیٰ درجے کی درس گاہ تو تھا لیکن زندگی کے ہُنر اور علم و فن کے تمام شعبوں میں اپنے طالب علموں کی صلاحیتوں سے جگمگاتا تھا۔ ہمارے ایک دوست تھے جو دیوانِ غالب سے میڈیسن کے ہر معاملے کی فال نکال لیا کرتے تھے۔ مثلاً وہ شعر پڑھا کرتے—

پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا

یوں ہو تو چارہ غم الفت ہی کیوں نہ ہو

ان کا کہنا تھا کہ فارما کولوجی کا دقیق علم اسی شعر سے پھوٹا ہے۔ مشکل اس وقت پڑتی تھی جب وہ سرجری کے معاملات میں غالب کے شعر لے آیا کرتے تھے۔

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے

میری آہیں، بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں

مگر چاک گریباں کے بجائے وہ اس شعر کا رشتہ بریسٹ کینسر کی گروتھ سے جوڑ دیا کرتے تھے۔ ناطقہ بگریباں ہے۔۔۔

یوسفی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں پروفیسر صاحب کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اردو ادب میں وہ مہارتِ تامہ حاصل کی کہ عذر سے پہلے دلی کے سودا بیچنے والوں کی آوازوں پر اعلیٰ تحقیق کرنے کے لیے لندن سدھار گئے۔ میں یوسفی صاحب کی توجہ اس فصیح و نستعلیق بولی کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا جس میں ڈائو کے طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ بڑی سے بڑی اور گہری سے گہری بات اس طرح کہہ جاتے تھے کہ شرمندئہ الفاظ بھی نہ ہوتے۔

یوسفی صاحب کے سامنے لب کشائی کرنے کی جسارت کرتے ہوئے آج ڈائو کی اسی فصیح و بلیغ زبان کا سہارا لینے کو جی چاہتا ہے کہ ان کے فن کا حق شاید اسی میں ادا ہوسکتا ہے۔ ڈائو کا کوئی بھی طالب علم یوسفی صاحب کی مزاح نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے باآسانی کہہ سکتا ہے کہ آج کل اردو ادب میں طنز و مزاح رو بہ زوال ہیں، طنز و مزاح کا ٹیپا نکل گیا ہے اور سارے لکھنے والے لہسن ہیں۔ یوسفی صاحب کو پڑھیے تو لگتا ہے کہ وہ زمشتا زار زار ہیں، یوسفی صاحب پھریری ہیں، بلکہ شوم پھریری۔ میں یہ وضاحت کردوں کہ ڈائو میڈیکل کالج کے فصحا نے پھریری کی وضاحت کی تھی کہ یوں تو ہر آدمی میں پھریری ہے، مگر اصل میں پھریریوں کی تین قسمیں ہیں۔ سمپل پھریری، جس میں پھریری ہو اور کچھ نہ ہو۔ پھر شوم پھریری۔ جو اوپر سے نیچے پھریری ہی پھریری ہو اور اس سے بھی آگے لٹل ہائوس آن دی پھریری۔ یعنی وہ پھریری جس میں قیام کی بھی گنجائش ہو۔ پروفیسر چارلز ڈی پھریرا کی ٹیکسٹ بک میں پھریریوں کی یہ تین اقسام درج ہیں۔

پھریریوں کی اقسام اگر آپ نے کلاس میں نہیں سُنیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت سے طالب علم کلاس میں جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ کینٹین میں بیٹھ کر درسِ طب و ادب حاصل کرلیا کرتے تھے۔ وہیں بیٹھ کر ہم نے بھی یوسفی صاحب کی کتابیں پڑھیں اور اگر سرجری کا ذکر نہ کر رہا ہوتا تو ضرور یہ بتاتے کہ یہ روایتیں اور یہ پسندیدگی سینہ بہ سینہ چلتی آ رہی ہے۔

اس طویل طویل تمہید کا مقصد یہی تھا کہ آپ سمجھ لیں کہ طب و ادب، ڈائو میڈیکل کالج اور یوسفی صاحب کا رشتہ کتنا گہرا اور دیرپا ہے۔ پروفیسر چارلز ڈی پھریرا یا ان کے دیسی مقّلد نے یہ ضرور لکھا ہے کہ Laughter is the best medicine ۔ ہم نے شہر کے کئی ماہرین سے پوچھا، سبھی نے اس کی تصدیق کی۔ (سوائے ڈاکٹر شیرشاہ سیّد کے،جنہں نے کہا مجھ سے نہ پوچھو، میں تو گائنی کولوجسٹ ہوں!) اور جب یہ بات درست ٹھہری تو پھر یوسفی صاحب کو مریضوں کے زُمرے سے نکال کر ڈاکٹروں کی صف میں شامل کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ وہ اپنے قلم سے جادو جگاتے ہیں، ان کی تحریروں میں شگوفے پھوٹے ہیں، وہ کہیں قہقہے اور کہیں تبسم بکھیرتے ہیں۔ یہ ان کا اعجازِ مسیحائی ہے۔ اس لیے عین مناسب ہے کہ مسیحائی سے وابستہ یہ درس گاہ، یوسفی صاحب کو خراجِ عقیدت اور نشانِ سپاس پیش کرے۔ بلکہ میں تو محترم وائس چانسلر صاحب سے یہ پرزور سفارش کروں گا کہ اس مسیحائی کے باوصف وہ مشتاق احمد یوسفی کو اعزازی ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگری تفویض کرے۔

خواتین و حضرات، یوسفی صاحب کے کمالِ فن کا تجزیہ کرنے کا یہ موقع نہیں۔ ان کو مبارک باد دینا بھی میرے لیے چھوٹا منھ بڑی بات ہے۔ مبارک باد کے قابل تو ہم سب ہیں کہ یوسفی صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں۔ میں پھر دُہرائوں گا کہ ہم اس وقت اردو ادب کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔ تو آج ہم اس عہد ساز شخصیت کو دیکھ رہے ہیں، سُن رہے ہیں۔ ایسے موقعوں پر غالب ہی یاد آتا ہے—

ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں

ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

رہا ان کے فن کا تعارف اور گفتگو— تو ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی؟

مجھے اگر کوئی گلہ ہے تو ان کی کم آمیزی کا۔ یوسفی صاحب نے طے کر رکھا ہے کہ گیارہ سال کے وقفے کے بعد کتاب شائع کرتے ہیں۔ مانا کہ سرکاری منصوبہ سازوں اور دوسرے بوجھ بجھکڑوں کے مطابق، وقفہ ضروری ہے مگر اتنا طویل ضروری نہیں۔ ہم یوسفی صاحب کی تحریروں کے مشتاق ہیں اور وہ اردو شاعری کی روائتی بُتِ طناز کی طرح مشتاقِ جن۔ ہم پھر بھی ہل من مزید کہے جائیں گے— یہ شعر غالب نے مشتاق یوسفی صاحب کے لیے تو کہا تھا—

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بے داد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

(ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام عالمی مشاعرے میں مشتاق احمد یوسفی کو پیش کیا جانے والا سپاس نامہ، اپریل 2005ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).