پنجاب میں الیکشن 2018  کا ممکنہ منظر نامہ 


الیکشن 2018 کا وقت تیزی سے قریب آتا چلا جارہا ہے، تقریبا پانچ ہفتے رہ گئے ہیں۔ ہم سب کو امید ہے کہ پچیس جولائی کو الیکشن بخیر و خوبی ہو جائیں گے۔ لیکن اب بھی کچھ سازشی قوتیں ایسی ہیں جو اس بات پر بضد ہیں کہ پچیس جولائی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔ ابھی تک الیکشن کی وہ ہوا نہیں چلی جس کے بارے میں روائیتی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انتخابات کس کے حق میں اور کس کے خلاف جارہے ہیں۔ الیکشن دو ہزار اٹھارہ کا حقیقی میدان جنگ پنجاب میں سجے گا۔

پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جو کسی سیاسی شخصیت کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرے گا۔ اسی لئے آج پنجاب میں انتخابی سیاست پر تجزیہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہہ نہیں کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو مسلم لیگ ن کو چیلنج کرسکتی ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب میں ابھی وہ ہوا یا لہر نہیں چلی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو شکست دے سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کے لئے اب بھی وہی صورتحال ہے کہ ہنوز دلی دور است۔

عمران خان کا سب سے اہم اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ پنجاب میں بیوروکریسی تبدیل کی جائے کیونکہ ان کے مطابق مسلم لیگ ن اس بیوروکریسی کی بدولت جیت جاتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بنی گالہ میں پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن احتجاج کررہے ہیں، ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں نظریاتی کارکنوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کرکے دوسری پارٹیوں سے آنے والے سیاسی لوگوں المعروف الیکٹیبلز کو ٹکٹیں دی گئی ہیں۔ بہت حد تک احتجاج کرنے والے سچی باتیں کررہے ہیں، لیکن حقیقتی صورتحال کچھ اور ہے؟

پہلے چلتے ہیں جنوبی پنجاب کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ وہاں ن اور پی ٹی آئی کی کیا صورتحال ہے؟ انتخابی سیاست کے ماہرین اور مبصرین کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس جنوبی پنجاب میں طاقتور الیکٹیبلز کی کمی ہے، ان کے پاس وہ الیکٹیبلز نہیں جنہیں دیکھ کر یہ کہا جائے کہ انہیں کامیابی مل سکتی ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کے پاس اگر نمبر ون الیکٹیبلز نہیں تو نمبر ٹو الیکٹیبلز تو ہیں، اور اگر ہوا کا رخ بدلا تو جنوبی پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن بہت ساری سیٹیں جیت سکتی ہے۔ کیونکہ مقابلہ کرنے والے امیدوار اب بھی مسلم لیگ ن کے پاس ہیں، جو انتخابی سیاست کی سائنس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق جنوبی پنجاب میں انتخابی سیاست کا ماحول ملا جلا رہے گا، ہوسکتا ہے پی ٹی آئی مسلم لیگ ن سے دو چار سیٹیں زیادہ جیت جائے، اس کے علاوہ جنوبی پنجاب پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بھی ساز گار ماحول کا حامل ہے، اس لئے پیپلز پارٹی بھی کچھ سیٹیں یہاں سے نکال لے گی۔ یہ تو تھی جنوبی پنجاب کی صورتحال کا ممکنہ جائزہ۔ اب چلتے ہیں پنجاب کے حقیقی بیٹل گراونڈ یعنی سنٹرل پنجاب کی طرف۔ سنٹرل پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل 95 قومی اسمبلی کی سیٹیں ہیں۔ یہ علاقہ مسلم لیگ ن کا روائیتی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر مسلم لیگ ن نے طاقتور سیاسی پہلوانوں کو ٹکٹیں دینی ہے۔

نواز شریف کے ںظریہ مزاحمت سے لبریز سنٹرل پنجاب میں نوازشریف کو مسلم لیگ ن کا بھٹو مانا جاتا ہے، اس لئے یوں سمجھ لیں کہ اس علاقے میں عمران خان کا مقابلہ زوالفقار علی بھٹو سے ہو سکتا ہے۔ سنٹرل پنجاب میں مسلم لیگ ن کے پاس نمبر ون الیکٹیبلز ہیں اور پی ٹی آئی کے پاس نمبر ٹو الیکٹیبلز ہے اور زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی یہی ہیں۔ مبصرین کی رائے کے مطابق اب تک یہاں کی صورتحال مسلم لیگ ن کے کنٹرول میں ہے، ن یہاں پر مستحکم دیکھائی دے رہی ہے اور نوازشریف کے سیاسی نظریئے کو بھی یہاں خوب پزیرائی مل رہی ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی یہاں کچھ سیٹیں لینے میں کامیاب رہی تو پھر وہ مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے، اگر پی ٹی آئی کی ہوا نہ چلی، ن یہاں سے جیت گئی تو مبصرین کے مطابق پھر ن دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے نہیں دے گا۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ نہ ہی پی ٹی آئی اور نہ مسلم لیگ ن پورے پنجاب میں سویپ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، حکومت تو مخلوط ہی بنے گی چاہے وہ ن کی ہو یا پی ٹی آئی کی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر اچھے امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، زیادہ تر ان سیاسی افراد کو ٹکٹیں دی گئی ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیاں چھوڑ کر آئے ہیں۔ بنی گالا میں جو احتجاج ہورہا ہے وہ پنجاب کی صوبائی ٹکٹوں کے حوالے سے ہے۔

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے پنجاب اسمبلی کے امیدوار اچھے نہیں ہیں، دو سو پندرہ کے قریب ن کے وہ امیدوار پنجاب میں الیکشن لڑ رہے ہیں جو پہلے بھی پنجاب اسمبلی کے اراکین رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں قومی اسمبلی کی سیٹوں پر نئے چہرے لانے پڑے ہیں، یہاں پر ان کے لئے ٹف مقابلہ متوقع ہے۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی ووٹرز اس لئے احتجاج کررہے ہیں کہ انہیں فوقیت دینے کی بجائے دوسری پارٹیوں سے آنے والوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ عمران خان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے، یہی گراونڈ ریئلیٹی ہے۔ الیکٹیبلز برے ہوتے ہیں، لوٹے ہوتے ہیں، بے وفائی کرکے سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں، لیکن پنجاب میں الیکٹیبلز جیتتے ہیں، ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے، ماضی کے انتخابی نتائج دیکھ لیں، یہی سچ ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان نے الیکٹیبلز کو ٹکٹیں بانٹیں ہیں۔

مبصرین کے مطابق عمران خان اور پی ٹی آئی نے جیت کے حوالے سے یہ فیصلہ درست کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وہ نظریاتی پارٹی ورکرز جو دو ہزار تیرہ میں بھی عمران خان کے ساتھ تھے اور اب بھی ان کے ساتھ ہیں، لیکن مایوس ہیں، احتجاج کررہے ہیں۔ عمران خان کو چایئے تھا کہ وہ کم از کم دس فیصد ٹکٹیں نظریاتی ورکرز کو دیتے لیکن انہوں نے صرف ایک فیصد ٹکٹیں ان کارکنوں کو دی ہیں۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ مکس اینڈ میچ والا فارمولا آزماتے، لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔ اس لئے بنی گالہ مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ جہاں پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف مقبول وہاں کم از کم نظریاتی وررکرز کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی، لیکن عمران خان نے یہ رسک لینا بھی پسند نہیں کیا۔

ادھر مسلم لیگ ننے پنجاب کی سیاست کے حوالے سے فیصلہ سازی کا کام تو مکملکرلیا ہے، لیکن باقاعدہ اعلان نہیں کیا کہ وہ کونسے سیاسی کھلاڑی سامنے لانے والے ہیں۔ البتہ مسلم لین ن کے جن امیدواروں نے پنجاب میں الیکشن لڑنا ہے، انہیں بتادیا گیا ہے کہ وہ کاغزات نامزدگی جمع کرادیں۔ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ شدید علیل ہیں، اس وجہ سے مسلم لیگ ن کے سیاسی چہرے سکرینوں اور عوام میں نظر نہیں آرہے، لیکن مسلم لیگ ن کے لئے بیگم کلثوم نواز کی علالت بھی ہمدردی پیدا کررہی ہے۔ یہ تو تھی پنجاب میں اب تک کی سیاسی صورتحال کا ایک مختصر جائزہ۔ آگے دیکھتے ہیں کہ پنجاب کی انتخابی سیاست میں کس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے یا پیدا کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).