حوا کی بیٹی، تلاش رزق اور تماش بین


سانپ کے زہر، بچھو کے ڈنک اور کتے کے جبڑے سے تو شاید کوئی معصوم بچی بچ سکتی ہو مگر ان تینوں سے بد تر انسان نما درندوں سے پرندوں کی طرح اڑان بھرتی رزق حلال کی تلاش میں روزانہ 800کلو میٹر سفر کرنے والی ہر طرح کے فقرے، بھوکی نظریں، لہجے برداشت کر کے ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے پیٹ کے جہنم کو بھرنے والی نہ بچ سکی۔

نا مساعد حالات کے باعث نوکری کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا عورت کی مجبوری ہے یہی حالات تھے ثمینہ سندھو کے ساتھ اور یہی سب کچھ بس ہوسٹس مہوش کو بھُگتنا پڑا۔ وہ گانے والی ہو کر دنیا سے زندگی سے دھتکار دی گئی اور یہ بس ٹرمینل کی باسی ہونے کی وجہ سے بے یار و مدد گار، لا چار بے بسی اور بے کسی کی موت مری۔ کسی چوہے اور بلی کی طرح سے مار کر اُسے ٹرمینل کی سیڑھیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ مارنے والے کی واہیات اور ہوس پر مبنی خواہشات کی تکمیل کا باعث نہ بن سکی زندگی کو بے غیرتی کے ساتھ گزارنے میں اُس کا ساتھ نہ دی سکی احتجاج کیا آواز بلند کی مگر نتیجے کے طور پر اُس کی آواز ہمیشہ کے لئے اُس سے چھین لی گئی۔

ایک عمر دراز ہی کیا؟ سینکڑوں مردوں کی سوالیہ بیباک اور ہوس بھری آنکھوں کا سامنا اور مقابلہ ان لڑکیوں کو کرنا پڑنا ہے جب وہ کام کے لئے گھر کی دہلیز سے پاؤں باہر نکالتی ہیں دفاتر، پرائیویٹ اداروں اور حتی کہ گورنمنٹ کے اداروں میں بھی اُس کاجنسی، معاشی، معاشرتی، اور سماجی استحصال جاری رہنا ہے۔ لٹیرے اور ڈاکو اُس کے پیچھے رہتے ہیں پہلے پہلی تو نظر سے کام چلتا رہتا ہے۔ اور پھر موقع دیکھ کر یا تو اُسے ہوس کا نشانہ بنا یا جاتا ہے اور یا پھر زندگی کا گھیرا اُس کے گرد تنگ کر دیا جاتا ہے۔ اگر لڑکی صاحب حیثیت ہو تو شاید مجرم پھانسی کے پھندے تک پہنچ جائے لیکن اگر وسائل نہ ہوں بھوک دروازے پر دستک دیتی ہو تو ورثاء کو با اثر ملزمان سے مجبورا صلح کرنی پڑتی ہے کیونکہ دھمکیاں اور لواحقین کو جان سے مارنے کے نعرے بالا آخر اُن کو جُھکنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

پاکستان میں آئے روز عورتوں کا قتل شرمناک حقیقت ہے دوسرے ممالک کے اخبارات اور سوشل میڈیا میں ایسی خبروں کو بہت اُچھالا جاتا ہے عورت کے استحصال کے حوالے سے یہ پہلی خبر نہیں ہے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ویڈیو کلپ میں دن دہاڑے ملزم کو بس میں مقتولہ کو مارتا دکھائی دیا گیا۔ وہ اپنے دفاع میں بول رہی تھی۔ مگر کوئی ایک بھی زندہ شخص بس میں نہ تھا جو ملزم کو پکڑتا، ٹرمینل پر شکایت کرتا اور اُسے پولیس کے حوالے کرتا۔ اگر یہ ہوتا تو شاید ایسی نوبت نہ آتی اور وہ موت کے منہ میں نہ اُترتی۔ مگر یہ کھوکھلے وجود جن کے کندھوں پر موم کے سرتھے اپنی جگہ سے کھڑے نہ ہو سکے۔

اس مرد نمائندگی والے معاشرے میں عورت کس قدر ارزاں ہے۔ بھیڑ، بکری کی طرح سے اُسے کاٹ کر رکھ دیا گیا اُس کے ارمان، خواہشات خواب جو زندگی کو بہتر کرنے کے لئے تھے سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ چوڑیاں، مہندی، ہار سنگھار کی جگہ اُس کو کفن میں لپٹی عید آئی۔ دل میں ایک الاؤ بر پا ہے حشرکا سماں ہے وہ کیسی گھڑی تھی جب موت کے بے رحم پنجوں نے اُسے اپنی آغوش میں لیا ہوگا۔

چادر اور چار دیواری کا پر چار کرنے والی قوم، جہالت کو جڑ سے اکھاڑ دینے والے نعرے اور تبدیلی کی خواہش رکھنے والے سماج کے پاس کوئی بھی ایسا لائحہ عمل نہیں کہ عورت کومکمل تحفظ حاصل ہو سکے مظلوموں کی داد رسی ہو سکے اور داد رسی ہو بھی تو کیا زندگی واپس ملے گی۔ زندگی جو رنگ ہے خوشبو ہے پیام ہے، جواب ہے، آرزو ہے کیسی آسانی سے چھین لی جاتی ہے صرف ایک لمحے میں۔ یہ بھیڑیے انسان کے رُوپ میں چُھپے نا جانے کب تک درندگی اور ہوس سے بھری خواہشات کی تکمیل میں معصوم بچیوں، معصوم پریوں کو اپنے پیروں تلے روندتے رہیں گے، خُدا انہیں جہنم رسید کرے۔

مہوش کے بہیمانہ قتل پر تو انسانیت بھی شرمندہ ہے زندگی سر جھکائے کھڑی ہے کہ اُس کے وقار کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں معصوم بچیوں کی تذلیل کے واقعات دہرانے سے زخموں کے ٹانکے اکھڑتے ہیں کس قدر غیرمحفوظ ہیں اس معاشرے میں یہ ننھامعصوم اور کمزور وجود جو اپنی کو کھ میں بڑے بڑے سور ماؤں کو جنم دیتا ہے اور پھر انہی کے ہاتھوں یہ ناتواں جسم زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

بس میں موجود افراد اس بھیڑیے کے ہاتھوں کو نہ تو ڑ سکے جب وہ مہوش پر تھپڑوں کی برسات کر رہا تھا اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر ٹرمینل پر جا کر شکایت ہی کر دیتے شاید کہ وہ قتل ہونے سے بچ جاتی اپنے نام کی کچھ سانسیں جی لیتی، کاش۔ اے کاش۔ مگر اس بے حس اور مفلوج سماج سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).