مظلوموں کو اب بیدار ہونا ہوگا


بنوں سے عمران خان کےخلاف الیکشن لڑنےکی خواہش رکھنے والی سو سالہ حضرت بی بی تیس ہزار روپے انتخابی فیس جمع نہ کراسکی۔ جس کے باعث اُنکے کاغذات واپس کردیےگئے۔
ریٹرننگ آفسر نے الیکشن فیس جمع کرانے کے لیے ایک روز کی مہلت دی پیسے جمع نہ ہوئے تو این اے 35 سے کاغذات نامزدگی واپس کردیے گئے۔

حضرت بی بی کا کاغذاتِ نامزدگی واپس کیے جانے پر اُنکا کہنا تھا کہ پچھلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اب تیس ہزار کردی ہے۔ جس کی وجہ سے غریب طبقہ انتخابات لڑنے سے محروم ہے۔

ملک میں اس وقت ہر طرف عام انتخابات 2018 پر بحث ہورہی ہے۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں تجزیہ کار اپنے اپنے طور پرتجزیہ کررہے ہیں کہ فلاں پارٹی جیتے گی یا فلاں امیدوار مضبوط ہے۔ لیکن کوئی ایک بھی تجزیہ کار اس کھلی حقیقت پر لب کشائی نہیں کررہا کہ موجودہ نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں جاگیرداروں وڈیروں کو تحفظ حاصل ہے اسی لیے وہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ شکست غریب متوسط، مظلوم اورمحنت کش طبقے کی ہی ہونی ہے۔

ملک میں گزشتہ 10 سال جمہوری حکومت قائم رہی۔ لیکن اُسکے باوجود کوئی ایک کام بھی جمہور کے لیے نہیں کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جمہوری حکومت میں جمہور کو با اختیار مقامی حکومت کے ذریعے شراکت داری کا موقع دیا جاتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ دو جمہوری دور ہچکولے کھاتے گزرگئے۔ جمہور کی بدولت قانون ساز اسمبلیوں میں جاکر لاکھوں روپیہ ماہانہ وصول کرنے والوں نے جمہور کے حقوق کا کوئی تحفظ نہ کیا لیکن ہاں مراعات یافتہ طبقے کے لیے آسانیوں پر آسانیاں ضرور پیدا کیں۔

موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے عام آدمی کے حالات کبھی نہیں بدل سکتے۔ کیونکہ موجودہ نظام جاگیرداروں، وڈیروں اور ملک کے دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں کرتا، جس کے باعث 98 فیصد مظلوم عوام کے حقوق کچل دیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے چہروں کے بجائے نظام میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جس میں تمام شہریوں کو یکساں مواقع میسر آسکیں۔

عام انتخابات کے انعقاد کا مقصد ہوتا ہے کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے مرضی کے نمائندے کا انتخاب کریں جو ان کے مسائل حل کرسکے۔ لیکن جب عام آدمی کا انتخابات میں حصہ لینا ہی اُسکی پہنچ سے باہر ہو تو عوام الناس کے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے؟ مجبوراً اُنھیں اُن ہی میں سے انتخاب کرنا پڑتا ہے جو آپشن موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے بہت بڑی تعداد میں عام عوام انتخابی عمل سے باہر رہتی ہے اور ووٹ دینا ضروری نہیں سمجھتی۔ اس کے لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام طبقات کے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونا چاہیے۔ الیکشن لڑنے کے لیے کوئی ایسی فیس طے کی جانی چاہیے کہ عام آدمی باآسانی اُس فیس کو ادا کرکے عام انتخابات میں حصہ لے سکے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ نظام نے نہ صرف غریب آدمی کو غربت کی نچلی سطح تک پہنچادیا بلکہ عام آدمی سے اُسکے تمام بنیادی حقوق چھین لیے ہیں۔ ایسے میں ایک عام آدمی کرے تو کیا کرے؟ اس کے لیے صرف واحد راستہ یہ ہے کہ تمام مظلوم اور محنت کش عوام کو متحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اِن جاگیردار وڈیروں اور سرمایہ داروں سے اپنے سلب کیے حقوق حاصل کرنے ہوں گے۔ محنت کش اور غریب مظلوم طبقے کو اپنے حق کے لیے کسی بھی معجزے کا انتظار کرنے کےبجائے خود بیدار ہونا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).