زعیم قادری کی علیحدگی: رنگا رنگ سیاسی تصویر کا ایک اور رخ


مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور پنجاب کے سابق وزیر اور شہباز شریف کے سابق مشیر زعیم قادری نے نہایت دھؤاں دار طریقے سے پارٹی سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان کی علیحدگی سے کئی سوال سامنے آئیں گے اور ان میں سے کسی کا بھی واضح جواب میسر نہیں ہو گا لیکن زعیم قادری کی علیحدگی اور ایک پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز اور ان کے والد شہباز شریف کے خلاف تند و تیز باتیں اس بات کا تقاضا ضرور کرتی ہیں کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے اس بات پر غور کریں کہ ان کے اس اقدام سے جمہوریت یا ان کی اپنی سیاست کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔ اس پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے یہ چیلنج کیا ہے کہ ’ لاہور حمزہ یا ان کے باپ شہباز شریف کی جاگیر نہیں ہے‘ اور یہ کہ وہ حمزہ کے مالشیے یا بوٹ پالش کرنے والے نہیں ہیں۔ کسی پارٹی کے ساتھ 20 برس تک وابستہ رہنے کے بعد یہ لب و لہجہ پاکستان کے پارٹی کلچر میں بعض تلخ حقیقتوں کو آشکار کرتا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ تو ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈر پارٹی کارکنوں اور دن رات محنت کرنے والے اوسط درجے کے لیڈروں کو نہ اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں وہ عزت و احترام ملتا ہے جو کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس لحاظ سے تو زعیم قادری کی دکھ بھری اور دردناک باتیں صرف مسلم لیگ (ن) کے لئے ہی تشویش اور پریشانی کا سبب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ دوسری پارٹیوں کو بھی اس سے سبق سیکھنے اور پارٹی کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی کارکنوں کی عزت نفس محفوظ رہے اور سیاسی اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر کسی بھی لیڈر یا کارکن کو علیحدگی کے وقت ایسی باتیں نہ کرنا پڑیں جن سے اس کی تکلیف کا اظہار ہونے کی بجائے یہ بھی پتہ چلتا ہو کہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں عزت و احترام نہیں دیا جاتا۔

پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بعض خاندانوں یا افراد کی ملکیت ہیں۔ کم از کم ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں کے بارے میں تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) میں کوئی فیصلہ نواز شریف کی مرضی یا شریف خاندان کے اشارے کے بغیر نہیں ہو سکتا تو پیپلز پارٹی بھی آصف علی زرداری کی مرضی و منشا کی محتاج ہے۔ وہ بظاہر پارٹی کے معاون چئیرمین ہیں لیکن انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو پس منظر میں دھکیل کر پارٹی کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہؤا ہے اور سارے اہم فیصلے وہ خود ہی کرتے ہیں۔ آصف زرداری کی خود ساختہ جلا وطنی سے واپسی سے قبل بلاول پارٹی کو انقلابی بنیادوں پر استوار کرنے اور پارٹی کا ڈھانچہ کارکنوں اور جاں نثاروں کی شرکت کے ساتھ نئے سرے سے استوار کرنے کا اعلان کرتے رہے تھے۔ لیکن آصف زرداری نے وطن واپس آکر سیاست کا نیا چلن دیکھا اور نواز شریف کی سیاسی مشکلات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا عزم کیا ۔ انہوں نے پارٹی کی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی داغ بیل رکھی اور بلوچستان میں نواز لیگ حکومت کے خلاف بغاوت میں حصہ دار بن گئے۔ اس کے بعد یہ معاملہ سینیٹ چئیرمین کے عہدے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے امید وار کی شکست تک جاری رہا۔ حالانکہ اس کاوش میں پیپلز پارٹی بھی اپنا چئیر مین سینیٹ بنوانے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن آصف زرداری کو یہ تسلی تھی کہ اس طرح نواز شریف کی سبکی ہوئی ہے اور انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جو کھیل وہ پیپلز پارٹی کے خلاف کھیلتے رہے تھے، اس کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ حکمت عملی سیاسی بازی گری اور اقتدار تک پہنچنے کی تگ و دو کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سیاسی پارٹی سے انتقام لینے کا بہترین طریقہ اس کی کارکردگی کی حقیقت عوام کے سامنے لانا اور متبادل پروگرام کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب کامیابی کے حصول کے لئے کوئی اصول اور سیاسی اخلاقیات مانع نہ ہوں تو یہ سارا کھیل اقتدار اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ملک کی دو مستند سیاسی پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے نیا پاکستان بنانے کے نام پر سیاست کرنے کے لئے میدان میں نکلی تھی۔ لیکن آج اس کی صفوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھاگنے والے لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا شخص مشکل سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر بھی تبدیل ہوتے سیاسی موسم کے ساتھ سیاسی وفاداریاں بدلنے والے لوگوں کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں میں ان فیصلوں کے خلاف احتجاج کی لہر موجود ہے لیکن عمران خان دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بنی گالہ میں اکٹھے ہونے والے چند لوگوں کے احتجاج پر اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرسکتے۔ وہ یہ دعویٰ کرنے میں یوں بھی حق بجانب ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کو نئی انقلابی سیاسی تحریک سے قدامت پسند سوچ والی اسٹبلشمنٹ نواز پارٹی بنانے میں چھ برس صرف کئے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد سے انہوں نے ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور شعوری طور پر ان لوگوں کو ساتھ ملانا شروع کیا جو سیاسی تبدیلی لانے میں بھلے تعاون نہ کریں لیکن اسمبلی کی نشستیں جیت کر عمران خان کے وزیر اعظم بننے  کا راستہ ہموار کرسکیں۔

اس زاویہ سے دیکھا جائے تو سیاسی فیصلے کرنے، پارٹی کی حکمت عملی طے کرنے اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم یا عہدے بانٹنے تک کے فیصلے ان تینوں پارٹیوں میں ایک فرد یا اس کے مٹھی بھر حواریوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ یہ صرف مسلم لیگ (ن) کا المیہ نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بھی یہی طریقہ مروج ہے۔ اسے پاکستان کا مزاج اور ضرورت کہہ کر نظر انداز کرنے یا غیر اہم قرار دینے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے لیکن یہ طرز عمل ملک کے جمہوری سفر میں ایک اہم رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ پارٹیوں میں تمام اختیار اور فیصلوں کا حق فرد واحد اور اس کے لواحقین یا محبوب نظر لوگوں کو ہوتا ہے، اس لئے پارٹی کارکن اور اوسط درجے کے لیڈر ہمیشہ مایوسی اور محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ اسی لئے پارٹیوں پر قابض لوگ اپنے کارکنوں کو عزت اور اہمیت دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ زعیم قادری نے ایک خاص حلقہ سے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا گلہ کرتے ہوئے اپنا جو دکھ درد بیان کیا ہے، وہ اسی مزاج کا شاخسانہ ہے۔ لیکن یہ مزاج پیدا کرنے کی ذمہ داری صرف سیاسی لیڈروں پر عائد کرکے نہ مسئلہ کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے کام ہو سکتا ہے۔

زعیم قادری گزشتہ دس برس تک پنجاب حکومت، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے قریبی ساتھی اور گرمجوش وکیل رہے ہیں۔ اب دس برس کی مشقت کے بعد وہ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ پارٹی میں صرف خوشامدیوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ گویا وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ جب تک وہ خود خوشامد کرتے رہے انہیں اہمیت حاصل رہی لیکن جب انہوں نے ایک حلقے سے پارٹی ٹکٹ کی صورت میں اس وفاداری کی قیمت وصول کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مایوسی کا سامنا ہؤا۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی زعیم قادری جیسے لوگوں کو خود ہی اس بات کا جواب بھی دینا چاہئے کہ وہ تو خود اس قسم کا آمرانہ پارٹی کلچر قائم کرنے میں معاون بنے رہے ہیں لیکن اب ٹھوکر کھانے کے بعد خوشامد کلچر کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔ پارٹی کا کارکن اور لیڈر ہونے کے ناتے انہوں کس حد تک اس صورت حال کو تبدیل کرنے اور یہ بات تسلیم کروانے کی کوشش کی کہ پارٹی فیصلے افراد کی بجائے پارٹی فورمز پر ہونے چاہئیں اور ان فیصلوں کے لئے تمام ارکان اور لیڈروں کو اعتماد میں لیا جائے۔ زعیم قادری یا اس قبیل کے سیاسی لیڈر کبھی پارٹی میں ایسی آواز اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن اپنی خواہشات کے راستے میں حائل ہونے والی دیوار کی وجہ سے پارٹی چھوڑ کر تنقید کے تیر و تفنگ لے کر میدان میں اترتے رہے ہیں۔ اس طریقہ اور رویہ سے مسلم لیگ(ن) تو کیا کسی بھی سیاسی پارٹی کا رویہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لئے پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کو پارٹی چھوڑ کر اختلاف ظاہر کرنے کی بجائے پارٹیوں کے اندر اختلاف کرنے اور اسے تسلیم کروانے کے رویہ کو مستحکم کرنا ہوگا۔

پاکستانی سیاست میں پارٹیوں کی ساخت، طریقہ کار اور قیادت کےآمرانہ رویوں کی بحث سے قطع نظر مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے والے ہر لیڈر کے حوالے سے یہ سچ از خود نمایاں ہوتا ہے کہ اس پارٹی کو دیوار سے لگانے اور انتخاب میں اس کی کامیابی کو محدود کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ یہ اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ پارٹی کے متعدد ارکان اسمبلی کو پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے یا آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کے لئے خفیہ ٹیلی فون نمبروں سے نیم دھمکی آمیز ہدایات ملتی رہی ہیں۔ زعیم قادری کا ضمیر جاگنے کی ایک وجہ اس قسم کا کوئی ناقابل برداشت دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ حلقوں نے نیب کی تحقیقات (صاف پانی کیس) کی طرف انگلی اٹھائی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے اندر نواز شریف کے حامی اور مخالف دھڑوں کے بارے بھی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ زعیم قادری نے لاہور میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز اوران کے والد کو نشانے پر لیا ہے لیکن نواز شریف اور مریم کے بارے میں انہوں کوئی بات نہیں کی۔ اس لئے اس گمان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ زعیم قادری کی ’دھمکیاں‘ دراصل پارٹی کے اندر کنٹرول کے لئے چلنے والی جدوجہد کا شاخسانہ ہے۔ اس حوالے سے تیسرا امکان یہ بھی ہے کہ زعیم قادری پارٹی سے اپنی خدمات کی جو قیمت وصول کرنا چاہتے تھے، وہ بوجوہ انہیں دینے سے انکار کیا گیا جس پر وہ مشتتعل ہو کر ہذیان بکتے ہوئے پارٹی اور اس کے لیڈروں کو برا بھلا کہہ کر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔

زعیم قادری کی طرف سے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن ان کی پریس کانفرنس پاکستانی سیاست کی رنگا رنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ المیہ صرف یہ ہے کہ اس رنگا رنگی کے باوجود اس سے سیاست اور مفاد یا سیاست اور دباؤ کا منظر نامہ ہی واضح ہورہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali