محترم انصار عباسی کی حق گوئی کو سلام ہے


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

محترم انصار عباسی کا مورخہ دو مئی 2016 کو شائع ہونے والا کالم پڑھا تو بے اختیار ان کی جرات رندانہ کو سلام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکی ریسرچ ادارے پیو نے جس بری طرح ہمارے دیسی لبرلز کو بے نقاب کیا ہے، اس کی نقاب کشائی کا شرف صرف عباسی صاحب کو ہی حاصل ہوا ہے۔ اس مرد مجاہد نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ اس طرح ببانگ دہل حق بیان کرنے سے اس کا روزگار بھی چھن سکتا ہے اور اس نے بے دھڑک میر شکیل الرحمان کے سامنے کلمہ حق کہہ دیا۔

نوٹ کرِیں کہ کس طرح واضح انداز میں میڈیا مالکان کی اسلام دشمنی، اسلامی نظام کی مخالفت، پاکستان کو اسلامی اساس سے جدا کرنے کی سازش، محب وطن آوازوں کو دبانے، بے شرمی اور بے حیائی کے خلاف بات کرنے والوں کو شدت پسند قرار دینے، بے ہودہ فیشن شوز اور فحش اشتہارات و ڈرامے چلانے کی عباسی صاحب نے خوب مذمت و تذلیل کی ہے۔ کٹ حجتی پر اترے ہوئے ڈھیٹ اور شرمسار دیسی لبرل کہیں گے کہ یہ سب لکھنے سے عباسی صاحب کی نوکری کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ ان عقل کے پوروں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ صرف نام نہیں لیا، ورنہ صاف نظر آ رہا ہے کہ عباسی صاحب جیو نیوز اور جنگ گروپ کے مالک جناب میر شکیل الرحمان صاحب پر فرد جرم عائد کر رہے ہیں۔ میر صاحب ایک تجربہ کار صحافی اور بزنس مین ہیں، وہ ہماری طرح سادہ دل نہیں ہیں کہ اس بات کو سمجھ نہ پائیں کہ عباسی صاحب کس کا نشانہ لے رہے ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی پوری دلیری سے عباسی صاحب نے ان محترم کا سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔

میر شکیل الرحمان صاحب کے لتے لیتے ہوئے عباسی صاحب نے میڈیا کو کنٹرول کرنے والے لبرل چیمپئینز کو اس بات پر خوب شرم دلوائی کہ وہ پیو کے سروے کو ٹی وی پر نہیں چلا رہے ہیں کہ 78 فیصد پاکستانی ملک میں قرآنی تعلیمات کے مطابق بنائے گئے قوانین کا مکمل طور پر اطلاق چاہتے ہیں اور 16 فیصد پاکستانی نرم رویہ رکھتے ہوئے اسلامی اصولوں کے مطابق قوانین چاہتے ہیں۔ صرف دو فیصد دیسی گمراہ لبرل ایسے ہیں جو کہ پاکستان کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے کے حامی ہیں۔ عباسی صاحب نے نہایت دلیرانہ انداز میں یہ نشاندہی کی کہ تین سال پہلے کے سروے میں 84 فیصد پاکستانی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے تھے لیکن اب 78 فیصد کی یہ مرضی ہے۔

انہوں نے ایک اور سروے کا ذکر بھی کیا ہے جو کہ پردے کے بارے میں ہے۔ جنوری 2014 میں پیو نے سروے کیا تھا جس کے مطابق پاکستان کی تین فیصد خواتین افغانی شٹل کاک برقع پہن کر گھر سے باہر نکلنا چاہتی ہیں، بتیس فیصد وہ برقع پہننا چاہتی ہیں جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں اور اکتیس فیصد وہ برقع پہننا چاہتی ہیں جس میں صرف چہرہ نظر آئے۔ یعنی خواتین کی چھیاسٹھ فیصد تعداد، یعنی ہر تین میں سے دو خواتین، برقع پہننا چاہتی ہیں۔ فقط چوبیس فیصد سر پر سکارف اور آٹھ فیصد سر پر دوپٹہ پہن کر گھر سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ صرف دو فیصد عورتیں اور لڑکیاں ایسی ہیں جو کہ سر یا جسم چھپانے سے انکاری ہیں۔ اس رپورٹ کو بھی دیسی لبرل میڈیا مالکان نے جیو اور دیگر چینلز پر بلیک آؤٹ کیا لیکن محترم انصار عباسی نے نہایت جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  آج اسے میڈیا پر پیش کر دیا ہے۔

\"نواز

لیکن چینل والے تو جو بھی کریں، ہمیں اور عباسی صاحب کو اس سروے پر پورا پورا اعتماد ہے۔ فقط گمراہ دیسی لبرلوں کی مزید تشفی کے لیے ہم نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے مختلف مینا بازاروں کا دورہ کیا اور وہاں موجود خواتین کو خوب غور سے دیکھا۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گمراہ مردوں نے ان چھیاسٹھ فیصد خواتین کو زبردستی برقع نہ پہننے پر مجبور کر دیا گیا ہے جو کہ برقع پہنے بغیر گھر سے نکلنا نہیں چاہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بے پردگی کا سبب ان کے گھر والے ہی ہوں گے، یا پھر نواز شریف کی انتظامیہ اس کی ذمہ دار ہے جو کہ نئی نئی دیسی لبرل ہوئی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے بازاروں میں خفیہ والے ویسے ہی خواتین کے برقعے اترواتے پھر رہے ہیں جیسا کہ سعودی عرب اور ایران میں خفیہ والے خواتین کو برقعے پہناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ لبرل حکمران خوش نہ ہوں، یہ مت بھولیں کہ انصار عباسی صاحب بھی بڑی سے بری سازش پکڑنے والے ایک انویسٹی گیٹو جرنلسٹ ہیں اور یہ خاکسار بھی۔ کسی دن عباسی صاحب اور راقم الحروف برقعے میں ملبوس ہو کر خواتین کے بازار میں جائیں گے اور خواتین میں گھل مل کر ان دیسی لبرل حکمرانوں کی اس سازش کو بے نقاب کر دیں گے۔

بازار کی اس اندوہناک صورت حال کا خود مشاہدہ کرنے کے بعد، ہمارا صدمے سے برا حال ہے کہ حکومتی جبر کی وجہ سے اب چھیاسٹھ فیصد خواتین برقع پہننے سے قاصر ہیں حالانکہ ان کا دل بہت چاہتا ہے۔ لیکن دل میں امید کی کرن ابھی باقی ہے۔ نوجوان نسل عام طور پر باغی ہوتی ہے اور ریاستی جبر کو خاطر میں نہیں لاتی ہے۔ ہم اب اس کا ذاتی طور پر مشاہدہ کرنے کی خاطر ایک منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر انصار عباسی صاحب راضی ہوں اور میر شکیل الرحمان صاحب اس ریسرچ کو فنڈ کریں، تو ہم دونوں صحافی اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے گرلز کالج کے باہر کھڑے ہو کر نئی نسل کا مشاہدہ کر لیتے ہیں اور اپنا ذاتی سروے کرتے ہیں تاکہ اسے جھٹلایا نہ جا سکے۔

ہمیں یقین ہے کہ کسی بھی گرلز کالج میں ہمیں سو میں سے تین لڑکیاں شٹل کاک برقعے میں ملبوس نظر آئیں گی، اور سو میں سے تریسٹھ طالبات کالے نیلے ماڈرن برقعے میں اڑی اڑی پھر رہی ہوں گی۔ وہاں ہم ان دو فیصد برقع مخالف لبرل لڑکیوں کو بھی خوب دیکھ بھال لیں گے جو کہ برقع پہننے سے انکاری ہیں اور عباسی صاحب کی معتبر گواہی کے مطابق ٹی وی چینلز کی کوشش کی وجہ سے برقع، چادر، دوپٹہ پہنے بغیر روشن خیالی، ترقی اور حقوق نسواں کے نام پر بے لباس پھر رہی ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
22 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments