وہ ہجوم میں مجھے ہاتھ لگا رہے تھے


شمالی علاقہ جات

خیبر پختوخوا کے ضلع چترال کے مشہور سیاحتی علاقے کیلاش میں عورتوں کو ہراساں کرنے کی دو سال پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کیلاش آبادی نے سیاحوں کی طرف سے ہراساں کرنے پر کھل کر بات کی ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں چترال پولیس کے مطابق پشاور کا ایک رہائشی لڑکیوں کے منع کرنے کے باوجود ان کی ویڈیو بناتا ہے اور ان کو ہراساں کرتا ہے۔ پولیس کے مطابق ویڈیو دو سال پرانی ہے۔

کیلاش کے رہائشی اور چترال میوزیم کے انچارج سیدہ گل کیلاش نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ تو صرف ایک ویڈیو تھی جو وائرل ہوگئی جبکہ اس قسم کے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے مخلتف علاقوں سے آئے ہوئے سیاح بغیر اجازت تصویریں اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔ ‘ایسا بھی ہوا ہے کہ سیاح بغیر کسی اجازت کے کیلاش لوگوں کے گھروں میں داخل ہوکر گھر میں موجود لڑکیوں کی تصویریں اور ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ کیلاش کے لوگوں کے بارے میں کچھ غلط مفروضے عام ہیں اور لوگ کیلاش کی لڑکیوں کو عجیب اور غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیلاش کلچر میں عورتوں کی عزت پر سمجھوتا نہیں کیا جاتا لیکن چونکہ یہ تعداد میں کم ہیں اور اقلیت ہیں تو یہی وجہ ہے کہ بعض سیاح کیلاشی خواتین کو ہراساں کرنے میں کوئی ڈر محسوس نہیں کرتے۔

دوسری وجہ، سیدہ کے مطابق، یہ ہے کہ کیلاش کی خواتین کو مکمل آزادی ہے حتیٰ کہ کیلاش میں بہت سے گھروں کی چار دیواری بھی نہیں ہے لیکن سیاح اس آزادی کو غلط رنگ دے کر وہاں پر لڑکیوں کو چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ‘ہم کیلاش کے لوگ بھی عزت والے لوگ ہیں۔ اچھے برے ہر جگہ پر ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کیلاش میں سیاح لڑکیوں کے ساتھ نامناسب سلوک کریں۔’

ٹورزم کو پاکستان میں سپورٹ کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کیلاش کے لوگ نہایت ہی پر امن اور پاکستان سے پیار کرنے والے لوگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے علاقے اور ثقافت دیکھیں۔ سیدہ گل کا کہنا تھا کہ دوسرا شرمناک رویہ کچھ سیاحوں کی جانب سے کیلاش کی عورتوں کے لیے خاص آیام کے دوران مختص جگہ میں بغیر اجازت کے گھس جانا ہے جہاں پر عورتوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کیلاش کلچر میں ‘مٹرنٹی ہومز’ بنے ہوئے ہیں جہاں پر زچگی یا عورتوں کے خاص آیام کے دوران انھیں رکھا جاتا ہے اور جہاں پر باقی عورتوں اور مردوں کو جانے کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے لیکن کچھ سیاح وہاں پر بھی جاکر تصویریں لیتے ہیں۔

‘انہوں نے ہماری طرف پرچی پھینکی’

عورتوں کو سیاحتی مقامات پر ہراساں کرنا صرف کیلاش تک محدود نہیں بلکہ بی بی سی سے کچھ خواتین نے بات کر کے بتایا کہ ملک کے دیگر سیاحتی مقامات پر بھی ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ پشاور کی رہاشی 26 سالہ خاتون نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ملک کے مشہور سیاحتی مقام مری میں اس وقت ہراساں کیا گیا جب وہ اپنی ایک اور سہیلی کے ساتھ سیر کے لیے گئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ مال روڈ پر پہلے دو لڑکوں نے روڈ کے ایک سرے سے دوسرے تک فالو کیا اور پھر کشمیر پوائنٹ پر ان ہی لڑکوں نے پرچی پھینکی جو لڑکی کے مطابق ظاہر ہے موبائل نمبر ہوگا۔ انہوں نے بتایا ‘ہم نے ان کی طرف مڑ کر جواب دینے کی کوشش ضرور کی لیکن پھر وہ چلے گئے تھے۔ ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں بہت سے لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ بعض اوقات خاتون اپنے خاندان کے ساتھ ہوتی ہے اور کچھ سیاح اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور بعد میں فیملی کی جانب سے ان لڑکیوں کو ہی سزا ملتی ہے اور انہیں دوبارہ اس قسم کے جگہوں پر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔

‘وہ ہجوم میں مجھے ہاتھ لگا رہے تھے’

پشاور کی رہائشی آمنہ خان حال ہی میں اپنی دوستوں کے ساتھ مری گئی تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ زندگی کا نہایت ہی تکلیف دہ لمحہ تھا جب ہم رش میں پھنس گئے اور چار لڑکوں نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی جس پر میں چیخ اٹھی۔‘ ‘میری چیخ کی وجہ سے وہاں پر موجود چند مردوں نے مجھے کہا کہ خیر ہے بس احتیاط کریں اور رش سے نکل جائیں’۔ آمنہ خان کا کہنا تھا کہ جب اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو پھر خواتین اپنے آپ کو سیاحتی مقامات پر محفوظ نہیں سمجتیں۔

‘خواتین پر تبصرہ کرنا’

پشاور کی ایک اور رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کو سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی جانب سے اکثر عجیب قسم کے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض خواتین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کے کپڑوں، میک اپ اور بالوں کے بارے میں قریب آکر تبصرہ کرتے ہیں اور ایسا کرنے والے زیادہ تر نوجوان لڑکے گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp