زعیم قادری: اندرونی کہانی کیا ہے؟


چودھری نثار علی کے بعد پنجاب سے پارٹی کے رہنما زعیم الحسن قادری کی جانب سے پارٹی لیڈر شپ سے بغاوت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ کچھ نہ کچھ جماعت کے اندر پک رہا ہے۔ جس کی تشخیص اور علاج لیڈر شپ سے ممکن نہیں بن رہا اور مشکل کی اس گھڑی میں پارٹی کے مخلص اور جدوجہد کے ساتھیوں کا مسلم لیگ ن سے کنارہ کشی اور بغاوت خود پارٹی لیڈر شپ کے لئے چیلنج اور جماعت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ زعیم قادری کی پریس کانفرنس اور ان کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کے پیچھے کیا ہے؟ کیا یہ لڑائی صرف زعیم قادری اور حمزہ شہباز کے درمیان ہے؟ کیا یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے بغاوت کے عمل کے جماعت پر اثرات کیا ہوں گے؟

جہاں تک زعیم قادری کے تحفظات اور اختلافات کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ وہ پارٹی کے مخلص رہنما کے طور پر مشرف کی آمریت میں مردانہ وار لڑتے نظر آئے اور اس بنا پر انہیں اس وقت پارٹی کا مرکزی ترجمان بنایا گیا وہ اس وقت جیلوں میں بھی گئے مقدمات کا سامنا بھی کیا لیکن جماعت کی حکومت کی جانب سے پیش رفت کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت اور وقعت کم ہوتی گئی اور دیگر کو مواقع ملے جس پر وہ بہت رنجیدہ تھے۔

2013  کے انتخابات کے بعد انہیں وزیر نہیں بنایا گیا بعد ازاں ان کو جماعت کا ترجمان نامزد کیا گیا، وہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر جماعت اور قیادت کی پالیسیوں کا جرأتمندانہ انداز میں دفاع کرتے نظر آئے۔ جب انہیں صوبائی وزیر اوقاف بنایا گیا تو انہیں اپنی وزارت کے حوالے سے تحفظات تھے کہ یہ ایک غیر اہم وزارت ہے تو دوسری جانب انہیں اپنی وزارت کی خوشی سے زیادہ پنجاب حکومت کے ترجمان کے طور پر ملک احمد خان کی نامزدگی پر پریشانی تھی جو ماضی میں ق لیگ کا حصہ رہے اور حمزہ شہباز شریف کے کہنے پر انہیں ترجمان بنایا گیا۔

وزارت میں ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے اوپر اسے غالب نہ آنے دیا اور میڈیا کے محاذ پر مخصوص انداز میں لڑتے نظر آئے۔ انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی وہ چاہتے تھے کہ انہیں حلقہ این اے 133 سے امیدوار نامزد کیا جائے جہاں سے ایک اور کارکن وحید عالم ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ ان کا اعزاز بھی کارکن ہونے کے ساتھ بلدیاتی ادارے کا رکن ہونا تھا اور وہ یونین کونسل سے براہ راست قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ زعیم قادری نے ایم این اے کی ٹکٹ کے ساتھ اپنے ذیلی ونگ بھی طے کر رکھے تھے جبکہ دوسری جانب وحید عالم خان نے بھی خود زعیم حسین قادری کی جگہ میاں سلیم نامی شخص کو ٹکٹ کیلئے گرین سگنل دے رکھا تھا۔

زعیم قادری قومی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے زور آزمائی کرتے رہے اور اس کا عروج پارلیمانی بورڈ میں پارٹی کی لیڈر شپ خصوصاً نواز شریف اور شہباز شریف کی موجودگی میں اختیار کیا جانے والا طرز عمل تھا۔ انہوں نے جب جذباتی انداز میں پارٹی کیلئے اپنی خدمات کا ذکر کیا تو نواز شریف مسلسل انہیں روکتے رہے مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ جناب میں 2002 میں آپ کا تائید کنندہ تھا۔ ان الفاظ کے بعد نواز شریف کے چہرے پر ناگواری عیاں تھی اور شریف قیادت کی بدن بولی پر گہری نظر رکھنے والوں نے اس وقت ہی سمجھ لیا تھا کہ زعیم حسین قادری کا اب شاید مسلم لیگ ن میں مستقبل روشن نہ رہے اور اصل وجہ بھی یہی بیان کی جاتی ہے کہ ان کا طرز عمل غالباً ہضم نہیں ہوا۔

بعد ازاں خواجہ عمران نذیر نے وحید عالم خان کو لے کر حمزہ شہباز شریف سے ملاقات کا بندوبست کیا اور انہیں این اے 133 سے پارٹی ٹکٹ کیلئے گرین سگنل مل گیا اس امر نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جذباتی زعیم قادری آپے سے باہر ہو گئے اور پھر پریس کانفرنس میں پھٹ پڑے۔ گو کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو ٹارگٹ نہیں کیا اور کلثوم نواز کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کیا لیکن لگتا یوں ہے کہ اب ان کا جماعت کے اندر کوئی مستقبل نہیں اور نہ ہی انہیں منانے والے خواجہ سعد رفیق اور رانا مشہود احمد اس پوزیشن میں ہیں کہ انہیں دلاسہ کے سوا کچھ اور دے سکیں۔

البتہ مسلم لیگ ن کے ذرائع یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ زعیم قادری پارٹی قیادت کے حوالے سے نازیبا جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور ان کے ایسے جذبات پر مبنی کچھ آڈیو ٹیپس لیڈر شپ کو سنوائی گئیں جس سے وہ ان سے پہلے ہی متنفر تھی البتہ زعیم قادری اسکی تردید کرتے رہے ہیں جہاں تک ان کی جانب سے بار بار حمزہ شہباز کو ٹارگٹ کرنے کے عمل کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں عموماً اور لاہور میں خصوصاً ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کا اہم کردار تھا اور ہے۔

بعض دیگر ناراض رہنماؤں کو بھی لیڈر شپ سے معافی تلافی کے دوران حمزہ شہباز سے رجوع کیلئے کہا جاتا رہا ہے لہٰذا اب ایک جانب چودھری نثار کا مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مریم نواز کو اور دوسری جانب زعیم قادری کا حمزہ شہباز اور شہباز شریف کو ٹارگٹ کرنے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جماعت کے اندر کچھ نہ کچھ پک ضرور رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جماعت کے اندر پرانے رہنماؤں اور کارکنوں کو منانے کی بھی زیادہ روایت نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک جماعت سے زیادہ ان کی ذات اور کردار سے منسلک ہے لہٰذا انہیں چھوڑ کر جانے والوں کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہوتا اور بڑی حد تک ایسا ہوا بھی ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات میں چودھری نثار علی کے بعد زعیم قادری کی بغاوت کیا رنگ لاتی ہے یہ دیکھنا پڑے گا۔

کچھ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے والوں نے اپنی براہ راست کوششوں اور کاوشوں کی ناکامی کے بعد جماعت کے اندر کچھ لوگوں کو یہ مشن سونپ رکھا ہے کہ پارٹی سے تحفظات کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ مل کر ان کے اور قیادت کے درمیان فاصلے بڑھانے کا فریضہ سر انجام دیا جائے یہی ان کی بڑی خدمت ہو گی۔

بظاہر تو جماعت کی سطح پر ایسا کوئی اور شخص نظر نہیں آتا جو زعیم قادری کی سطح پر آ کر پارٹی لیڈر شپ کو ٹارگٹ کرتا نظر آئے البتہ کچھ انتخابی حلقوں میں ایسی صورتحال ضرور طاری ہے جہاں سابق اراکین قومی اسمبلی نے اپنے انتخابی اخراجات کیلئے ذیلی ونگز میں تبدیلی کا عمل شروع کر رکھا ہے اور جس پر تبدیل کئے جانے والے اراکین اسمبلی فی الحال پارٹی لیڈر شپ اور 180 ایچ ماڈل ٹاؤن کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آج جمعہ کے روز مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد انہیں ان تنازعات کو طے کرنا پڑے گا اور اگر انہوں نے بھاری بھرکم اراکین قومی اسمبلی خصوصاً سابق وزراء کے آگے ہتھیار پھینک دیئے تو پھر ٹکٹ سے محروم رہ جانے والوں کی جانب سے بھی ایسے ہی رد عمل کا اظہار آ سکتا ہے جو جماعت کی انتخابات پر پوزیشن کو متاثر کرے گا۔
( بشکریہ: روزنامہ دنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).