کیا امریکا عمران خاں سے خوف زدہ ہے؟


مجھے شبہ ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کو بھی خیال آنا شروع ہوگیا ہے کہ عمران خان جولائی 2018میں ہونے والے انتخابات کے بعد ہمارے وزیراعظم منتخب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت کئی برسوں سے بہت وثوق کے ساتھ یہ بات طے کرچکی ہے کہ اسلام آباد میں حکومت بنانے یا ہٹانے کے فیصلے درحقیقت واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔ ایک زمانے تک ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر میں بھی اس سوچ سے متفق رہا۔ اس ضمن میں جنرل مشرف کے دورِ اقتدار کے آخری مہینوں میںہوئے چند واقعات نے مزید قائل کردیا۔ برطانوی سفارت کار مارک لائل گرانٹ کا سوچا NROاور اس NROکے ڈرافٹ کی بنیاد پر امریکی حکام کی جانب سے ہوئی کوششوں کا میں تقریباً عینی گواہ رہا۔

بدقسمتی سے مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو 2008کے انتخابات سے قبل راولپنڈی کے لیاقت باغ کے پاس قتل کردیا گیا۔ NROکی اصل شکل بھی اس قتل کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ امریکی حکام مگر انتخابات کروانے پر بضد رہے۔ پیپلزپارٹی کے لئے وزارتِ عظمیٰ کا حصول امریکہ کی کاوشوں سے انتخابی نتائج آجانے کے بعد مزید آسان ہوگیا۔ آصف علی زرداری مگر جنرل مشرف کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جنرل صاحب کو امریکی معاونت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور اس کی جگہ وہ خود ایوانِ صدر میں براجمان ہوگئے۔

ٹھوس حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ آصف علی زرداری کے ایوانِ صدر پہنچ جانے کے بعدبھی پیپلز پارٹی کی حکومت واشنگٹن کے لئے وہ سب کچھ نہ کرپائی جس کی امریکہ کو توقع تھی۔ بالآخر اسی وجہ سے ”میموگیٹ“ بھی ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت آئی تو وہ بھی افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی خاص مدد نہ کرپائی۔ نواز شریف بلکہ ”مودی کے یار“ ٹھہرا کر بدنام ہوئے۔ 2014کے دھرنے کے بعد سے ان کے لئے چین جیسے دیرینہ دوست ممالک کے ساتھ بھی معاملات اپنی ترجیح کے مطابق چلانے میں دشواریاں پیش آئیں۔ امریکہ کو بالآخر سمجھ آگئی کہ پاکستانی سیاست دانوں کے پاس خارجہ معاملات پر کنٹرول کی سکت ہی موجود نہیں۔ ایسا ہی پیغام سعودی عرب کو بھی وصول ہوگیا جو نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی پاکستان سے اس نوعیت کی حمایت نہ حاصل کر پایا جو اسے یمن کے حوالے سے درکار تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب جیسے ممالک نے لہٰذا پاکستان میں اصل اختیارات کی حامل قوتوں کے ساتھ براہِ راست معاملات طے کرنا شروع کر دئیے۔

ہماری ریاست کے دائمی اداروں سے براہِ راست رابطوں کی بدولت صدر ٹرمپ کی اگست 2017میں متعارف کروائی پالیسی کے باوجود پاک، امریکہ تعلقات شدید تناﺅ میں ہوتے ہوئے بھی مخاصمت کی صورت اختیار نہیں کر پائے۔ افغان حکومت کے ساتھ ہوئے روابط بھی دن بدن بہتر اور مناسب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان روابط کی وجہ سے افغان صدر نے عید کے تین دنوں کے لئے سیزفائر کا اعلان کیا۔ طالبان نے اس کا خیرمقدم کیا۔ ان کے جنگجوعید کے روز شہروں میں نمودار ہوئے تو افغان عوام نے انہیں ہار پہنائے۔ کئی مقامات پر ان طالبان نے افغان فوجی اور پولیس والوں کے ساتھ مل کر نمازِ عید ادا کی اور تہوار کی مناسبت سے ہوئی ضیافتوں میں شرکت کی۔

دریں اثناءیہ خبر بھی آگئی کہ سوات آپریشن کے بعد سے افغانستان میں پناہ گزین ہوئے ملافضل اللہ کو ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کردیا گیا ہے۔ افغان صدر نے اس ہلاکت کی اطلاع بذاتِ خود پاکستان کے نگران وزیراعظم اور آرمی چیف کو براہِ راست فون کے ذریعے دی۔ افغان حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ملا فضل ا للہ کی نشان دہی اس کی جاسوس ایجنسی نے کی تھی۔ امریکہ نے فقط نشان زدہ مقام پر ڈرون میزائل پھینکا۔

ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبرآنے کے بعد سے میں مسلسل سوچ رہا تھا کہ امریکہ میں فری لنچ نہیں ہوتا۔ اس ہلاکت کے عوض پاکستان سے بھی کچھ نہ کچھ طلب کیا جائے گا۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ امریکہ کی اس حوالے سے خواہش پوری نہیں کی جا رہی۔ اسی باعث منگل کے روز امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے افغانستان کے لئے تعینات ہوئے نئے جرنیل ملرنے پاکستان کے بارے میں تقریباً ویسی ہی زبان استعمال کی ہے جو ٹرمپ نے اگست 2017میں اپنی افغان پالیسی متعارف کرواتے ہوئے استعمال کی تھی۔

جنرل ملر کی گفتگو کے عین ایک دن بعد پاک -افغان معاملات کی نگہبان ایلس ویلز امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہوئی۔ وہاں اس نے کھلے الفاظ میں پاکستان سے یہ مطالبہ دہرایا کہ مبینہ طور پر ہمارے ملک میں موجود طالبان یا حقانی نیٹ ورک سے وابستہ افراد کو گرفتار کیا جائے۔ گرفتاری ممکن نہیں تو انہیں پاکستان سے نکال دیا جائے اور یہ دونوں باتیں بھی ممکن نہیں تو ایسے افراد کو مار دیا جائے۔

”Arrest, Expel or Kill” یہ تین الفاظ تھے جو اپنے بیان میں ایلس ویلز نے کئی بار دہرائے۔

جنرل ملر اور ایلس ویلز کی جانب سے یکے بعد دیگرے بیانات آنے کی وجہ سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہوں کہ ٹرمپ انتظامیہ 25جولائی 2018تک قائم حکومتی بندوبست ہی سے افغانستان کے حوالے سے اپنی چند خواہشات پر عمل ہوتا دیکھنے کے لئے دباﺅ بڑھا رہی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے جون کے آخر میں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل رکھنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو مزید بڑھا دے گا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباﺅ بڑھانے کے علاوہ یہ فیصلہ افراطِ زر میں اضافے کا باعث بھی ہوگا۔

واشنگٹن میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کو خبر ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان پالیسی سے قطعاً متفق نہیں۔ روایتی طورپر وہ ڈرون حملوں کی بھی شدید مخالف ہے۔ افغان طالبان کو دہشت گرد شمار نہیں کرتی۔ اس کے خیال میں یہ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف اُٹھی ایک مزاحمتی تحریک ہے۔

آئندہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے تو وہ پاکستان کے امریکہ کےساتھ تعلقات پر نظرثانی پر اصرار کریں گے۔ امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے اپنی بات منوانے کے لئے عمران خان صاحب کے ساتھ ازسرنو Tough مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اس عمل کی تکمیل کے لئے کئی ماہ درکار ہوں گے اور ٹرمپ انتظامیہ جلد باز ہے۔ اسی باعث واشنگٹن اپنے حالیہ بیانات کے ذریعے نگران حکومت کے ہوتے ہوئے ہماری ریاست کے دائمی اداروں پر دباﺅ کو شدید تر بنارہا ہے تاکہ اس کے افغانستان کے حوالے سے طے شدہ چند اہداف جولائی میں ہونے والے انتخابا ت کے نتائج کے آنے سے قبل ہی حاصل ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).