شہید کی بیوہ


تصویر دلخراش تھی ہر محب وطن پاکستانی نے جب دیکھی کلیجہ منہ کو آگیا۔ ایک شہید فوجی افسرکی بیوہ اپنے شوہرکے تابوت پر سر ٹکائے شہید کے چہرے پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔ کرب کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی ایک ایسی عورت کی تصویر جس نے اپنا سب کچھ مادر وطن کی حفاظت کے لیے نقد لٹا دیا۔ دل بہت افسردہ ہوتا ہے جب یہ قربانیاں دیکھنے کے باوجود رائے عامہ اور سماجی میڈیاپر فوج کے حوالے سے ایسامواد دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو نہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا ایسا مواد جو متنازعہ ہو اس کو رائے عامہ کے سامنے کیوں پیش کر دیا جاتاہے۔

کیا ایسا مواد پیش کرنے والے فوج کی قربانیوں سے واقف نہیں ہیں اگر ہم اس مواد کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آکھڑی ہوتی ہے کہ جو لوگ یہ مواد سماجی میڈیا پر چڑھا رہے ہوتے ہیں وہ بھولے سے بھی ان فوجیوں کی کردار کشی یا مذاق اڑانے کا مواد نہیں چڑھا رہے ہوتے جو کہ مادر وطن کی خاطر سخت ترین حالات کا سامناکررہے ہوتے ہیں بلکہ ان کے لیے احترام کے جذبات بھی ان کی پوسٹوں میں جابجا آپ کو نظر آئیں گے تو پھر درحقیقت یہ لوگ تنقید کس بات پر کررہے ہیں۔

بات بالکل واضح ہے کہ فوج کا وہ کردار جو آئین پاکستان میں تحریر ہے جس کی پاسداری کا حلف ہر فوجی اٹھاتا ہے اس حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جب کوئی خاکی وردی میں ملبوس اپنے فرائض ادا کررہا ہوتا ہے تو اس کو عوام اپنی پلکوں پر بٹھانا اعزاز تصور کرتے ہیں۔ لیکن جب ان کے سامنے ماضی کے فوجی آمروں کا کردار آ کھڑاہوتا ہے تو ان آمریتوں کے سبب سے جو زخم قومی وجود کو لگے ہیں وہ ہرے ہو جاتے ہیں۔ اور عوام ڈر جاتے ہیں کہ کہیں دوبارہ آمریت کے عفریت یا نمائشی جمہوریت سے پالا نہ پڑ جائے۔

سوال یہ ہے کہ عوام ابھی تک یہ سوچنے پر مجبور کیوں ہے کہ دوبارہ آمریت یا مصنوعی جمہوریت سے پالاپڑ سکتا ہے۔ فوج مشرف کے اقتدار سے بیدخلی کے بعد بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ ان کا جمہوریت پر پختہ یقین ہے لیکن تذبذب ہے کہ برقرار ہے۔ اس برقرار تذبذب کی وجہ گذشتہ پانچ برسوں میں 2013کے عام انتخابات کے بعد عمران خان کی جانب سے دھاندلی کے الزامات ہیں کہ انہوں نے ایک طبقہ کی ذہن سازی دوبارہ سے شرو ع کردی کہ موجودہ جمہوری نظام صرف دکھاوا ہے اور پس پردہ کوئی او ر ہے۔ حالانکہ دھاندلی کے الزامات میں غلط بیانی اتنی تھی کہ جب 35پنکچرز والی کہانی پرانی ہو گئی تو خو د تسلیم کرلیا کہ یہ سب کہانی سیاسی نعرہ اورجھو ٹ پر مبنی تھی۔ اپنی مرضی کے معاہدہ پر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے 2013کے انتخابات کی جانچ پڑتال کروالی اور سپریم کورٹ نے انتخابات کو دھاندلی سے پاک قرار دے دیا مگر اس سب کے باوجود گردان یہی رہی کہ دھاندلی ہوئی ہے۔

اب ان کے حامیوں کے سامنے اگلا سوال یہ تھا کہ دھاندلی کس نے کروائی انگلیاں فوج کی جانب اٹھنے لگیں اور ان اٹھتی انگلیوں کو حال ہی میں مکمل تقویت عمران کے اس انٹرویو نے دی کہ جنرل کیانی دھاندلی میں براہ راست ملوث تھے۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے سبب سے عمران خان کے حامیوں نے اپنی مخالفت کا ایک پلڑا جنرل کیانی اورانکے ادارے کی طرف جھکا دیا۔ پھر دھرنے کے دوران باربار ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کے حوالے سے اب وہ جو مرضی تاویلات پیش کریں سب جانتے ہیں کہ ان کے امیدوں کا محور کون شخص اور کون سا ادارہ تھا۔ اگر اس وقت ہی بھرپور اندازمیں ایمپائر ہونے کی نہ صرف کہ ترید کر دی جاتی بلکہ ایسے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر تنبیہ بھی کر دی جاتی تو عوام کے دلوں سے یہ خیال حرف غلط کی ماند مٹ جاتا کہ اس سب کے پیچھے تحریک انصاف نہیں بلکہ تحریک انصاف کا لاہور کا جلسہ کروانے والے عناصر شامل ہیں۔

لیکن اس سب پر خاموشی نے اس تصور کو مضبوط کر دیا کہ ”خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے“ اور خاموشی نیم رضامندی نہیں بلکہ مکمل رضا مندی لگ رہی تھی چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح مشرف کو عدالت سے بچایا اور بعد میں ملک سے نگالا گیا تھا پھر دھرنے میں جس لیڈر کا سامنے چہرہ تھا وہ ببانگ دہل مقدس ادارے کی جانب اشارے کررہا تھا اس سب کے بعد اس کے برے اثراث سے نکلنے کی خاطر ایسی حکمت عملی اختیار کی جاتی کہ جو پورے ملک میں یہ باور کروا ڈالتی کہ سیاسی رخ کیا بنتا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں رہا مگر بدقسمتی سے ایسا تاثر قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ”Notification is rejected“ جیسے اقدامات نے یہ تصور مزید پختہ کر دیا کہ سیاست میں مداخلت اپنے عروج پر ہے۔

آئندہ عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے ماضی میں جتنی پولیٹکل انجینئرنگ کر لی تھی کرلی اب انتخابی مہم کے دوران اورانتخاب کے دن کو غیر متنازعہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر غیر جانبدار نا صرف کہ رکھا جائے بلکہ ثابت بھی کیاجائے تاکہ عوام کے ذہنوں ٍسے آمریت یا نمائشی جمہوریت کا خیال نکل جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کسی شہید کے بیوی بچوں کی تڑپتی تصویر عوام کو تڑپا ڈالے گی مگر غیر جمہوری اقدامات کا خوف متنازعہ مواد کو بھی پیش کرتارہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).