کچھ بزبان یوسفی


ہنسانے والے نے آخر رلا کے چھوڑا۔ عہد یوسفی نے اک نیا موڑ لیا۔ مزاح نگار تو اور بھی بہت ابن انشا ء، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، مرزا فرحت اللہ بیگ لیکن ادب کی اس صنف کو جس اوج کمال پہ یوسفی صاحب نے پہنچایا وہ انہی کا خاصہ۔ نثر میں ایسی برجستگی باید و شاید۔ الفاظ اور لب و لہجہ میں غضب کا ٹھہراؤ کمال کی روانی۔

ہنسانا مشکل ترین کاموں میں سے ہے اور یہ کام یوسفی صاحب نے عشروں کیا۔ جہاں مرنجان مرنج یوسفی صاحب نشست پذیر ہوئے محفل کشت زعفران بن گئی۔ یوسفی صاحب پڑھنے سےزیادہ سننے اور سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز تھے۔ نستعلیق، نایاب، کم یاب قدیم میں جدید، جدید میں قدیم۔ تخمی آم کی طرح بے مثال۔ دھیمے لہجے میں بلا کا جوش، جوش میں دریا سی روانی۔ بولتے تو موتی رولتے۔ جیسے صبح دم کوئی ستار پہ راگ ایمن۔ بت ساز تو نہ تھے لیکن سننے والے مبہوت بت بنے گھنٹوں بے حس و حرکت جامد ساکت۔ سامعین کی نبض پہ ہاتھ ایسا جیسے کوئی حکیم وید سنیاسی باوا۔ ہنساتے ہنساتے گرہ ایسی کہ آنسو چھلک پڑھیں۔ کمال فن ایوارڈ، آدم جی ایوارڈ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ، ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز حکومتِ پاک اور ڈھیروں سندیں میڈل ستارے ایوارڈ لیکن مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی ایوارڈ کے محتاج نہیں۔ ایسے ستاروں کی روشنی کبھی ماند نہیں ہوتی۔ نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں اور ہوتی رہیں گی۔ اس جہان فانی سے ہر ایک کو آخر جانا ہے۔ صدیوں کا آدمی کم و بیش صدی بتا کررخصت ہوا۔ احباب سے گذارش ہے یوسفی صاحب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ مولائے کائنات ان کا سفر آخرت آسان فرمائے۔ جس طرح یوسفی صاحب لوگوں کو ہنساتے رہے خدائے بزرگ و برتر انہیں شاد رکھے۔

یوسفی صاحب کی تحریروں سے چند اقتباسات بزبان یوسفی۔
کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبھکے سے فوراً پہچان لیتے اور ”برادران اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔

خانساماں
“ کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔

کہنے لگے: ” صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا ” پھر کیا کروگے؟ ”
“ یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔ “

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰیحدہ نوکر نہیں ہے۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔
فرمایا ” جناب! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔ “
“ پھر بھی؟ “
کہنے لگے ” پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).