پی ٹی آئی کی جیت کیوں ضروری ہے؟


آئیے آسان ترین دلیل سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ ہم نے زرداری کی پی پی پی کو پانچ سال دیے۔ اس کے بعد اگلے پانچ سال نوازشریف کی پی ایم ایل کے ہاتھ رہے۔ چونکہ ہم پہلے ہی مشکلات کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے عمران خان کو ایک موقع سے کیا بگڑ جائے گا؟ اگر، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، وہ کارکردگی دکھاتے ہیں تو ہماری حالت سدھر جائے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرپاتے تو کیا ہوا؟ ہم پہلے ہی اتنی خراب حالت میں ہیں کہ مزید بگاڑ ممکن نہیں۔ 90ء کی دہائی میں ہم نے باری باری بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حمایت کرتے ہوئے یہ دلیل سنی کہ ہم ”برے میں نسبتاًبہتر‘‘ کا انتخاب کرنے جارہے ہیں۔ اس کے بعد مشرف کی حمایت کرنے والوں کو بھی اسی دلیل کا آسرا میسر آگیا۔ اب پی ٹی آئی کے نسبتاً کم رومانوی حامی اسی دلیل کے ساتھ دامن امید باندھے ”منتظر ِ فردا‘‘ ہیں۔

اس کے بعد دلیل کی چوٹی سے پھسلنے والا بیانیہ یہ ہے کہ زرداری اور شریف، دونوں بدعنوان ہیں، لیکن عمران خان ایسے نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کے ارد گرد ایسے افراد ہوں جو بدعنوانی کے اسکینڈلز میں دھنسے ہوں لیکن جب تک عمران اوپر موجود ہیں، پی ٹی آئی میں شامل ہونے والا ہر شخص (چاہے وہ عادی بدعنوان ہو) کپتان کے زریں اصولوں سے جلا پاکر داغوں سے پاک ہوجائے گا۔ الیکٹ ابیلز کو قبول کرتے

ہوئے عمران خان یہی دلیل دیتے رہے ہیں۔ ایک مچھلی پہلے سر کی طرف سے گلنا سڑنا شروع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر اس کا سر اچھی حالت میں ہے تو اس کا باقی جسم ٹھیک ہوگا۔ عمران خان اسی محاورے کے ذریعے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کا دفاع کیا کرتے تھے۔

الیکٹ ایبلز کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی زیادہ عملی دلیل یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں کامیابی کے لیے یہ ہیوی ویٹس ناگزیر ہیں۔ نظام میں تبدیلی کے لیے آپ کا بلندترین مقام پرہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اقتدار کی بلندی تک رسائی کے لیے طاقت کی یہ سیڑھی استعمال کرنی ہوگی۔ اس یہ قابل انتخاب افراد وہ سیڑھی ہیں جن کے ذریعے عمران خان اقتدار پر فائز ہوں گے اور پھر اس گلے سڑے نظام کو بدلیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ ایک مرتبہ جب خان صاحب حکومت سنبھال لیں گے تو پھر اقتدار کے کھیل کے اصول اُن کی تبدیلی کی راہ میں مطلق رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اس طرح یہ دلیل ایک طرف ان الیکٹ ایبلز کو نہایت لازمی قرار دیتی ہے، تو دوسری طرف انہیں خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہی کے پلیٹ فارم پر تبدیلی کا ہتھوڑا چلاتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں خیبرپختونخواہ نے اچھی گورننس دکھائی یا شہاز شریف کی قیادت میں پنجاب میں بہتر گورننس تھی؟ اس سوال کے جواب کا دارومدار ”جیوری ‘‘ پر ہے۔ لیکن ہمیں ایک بات کا علم ہے کہ خیبرپختونخواہ کی کابینہ اور پرویز خٹک اچھی حکومت کی کوئی مثال نہ چھوڑ سکے۔ اپنی پالیسیوں کے حصول، فنڈز کی تقسیم، سینٹ کے انتخابات اور ضمنی انتخابات اور الائنس کی تشکیل میں پی ٹی آئی کی خیبرپختونخواہ حکومت نے ہر ممکن طریقے مثالیت پسندی کو ایک طرف رکھتے ہوئے عملیت پسندی کا دامن تھاما۔ اس پر پی ٹی آئیء کا کہنا تھا کہ یہ صورت ِحال اقتدار کے لالچ کا نہیں بلکہ مخلوط حکومت کی مجبوری کا نتیجہ تھی۔

لیکن کیا عمران خان کا ماضی کا رویہ موجودہ طرزعمل کی حمایت کرتا ہے؟ اُس وقت وہ مثالی کردار کا پرچم تھامے موجودہ نظام کو تہہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ کیا اُس وقت وہ نہیں جانتے تھے کہ وزیر ِاعظم بننے کے لیے کتنے ارکان کی ضرورت ہوتی ہے؟ پہلے مشرف کی حمایت اور پھر مخالفت کی۔ تبدیلی کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کے بعد افتخارچوہدری کی حمایت اور مخالفت کی گئی۔ پھر اکتوبر 2011ء کے بعد پارٹی میں ہجرت کرکے آنے والوں کی جگہ نکلنے لگی۔ ”فراخ دلی ‘ ‘ میں ہونے والے اضافے سے مثالیت پسندی کا دفتر سمٹنے لگا۔ بیانات میں اصولوں کی جگہ عوامی مقبولیت سند پانے لگی۔ عمران خان ایک ایسے رہنما کے طور پر سامنے آگئے جو ہرقیمت پر اقتدار حاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، چاہے اس کے لیے اپنے بیان کردہ کتنے ہی اصول کیوں نہ قربان کرنے پڑیں۔

اگر عمران خان اس سفر کے دوران اصولوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیںتو کیا وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اصولوں کو قربان کرنے سے ہچکچائیں گے؟ ایک دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ چوٹی پر پہنچ جائیں گے تو اُنہیں سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن یہ دلیل ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اگر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اصول قربان کرنے پڑتے ہیں تو اسے برقرار رکھنے کا بھی یہی ”اصول‘‘ ہے۔ اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتے ہی جو پہلی دانائی اپنانا پڑتی ہے وہ یہ ہے ”سوئے فتنوں کو جگانے سے گریز کریں‘‘، یا قدم اٹھانے سے پہلے دیکھ لیں کہ وہاں کسی کا وزنی پاؤں تو نہیں، مبادا اُپ اس کے پنجے کو کچلنے کی گستاخی کربیٹھیں اور پھر آپ کو کہیں بیٹھنا بھی نصیب نہ ہو۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبلز کی ضرورت کی سمجھ دوعشروں بعد کہیں آئی ہے، لیکن مندرجہ بالادانائی کے لیے دو ہفتوں کی ”طویل مدت ‘‘ ہی کافی ہوگی۔

لیکن چلیں عمران خان کوکرکٹ کی اصطلاح میں شک کافائدہ دے دیتے ہیں۔ اُ ن کی مجبوریوں سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے اُن کی پالیسیوں اور ارادوں کی بات کرلیتے ہیں۔ ہمارے نظام میں بہت سی فالٹ لائنز ہیں۔ ان میں سے ایک سول ملٹری تناؤ ہے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں جدید یت اور انتہا پسندی کے دھارے بھی مخالف سمت بہتے ہیں۔ نظام کے تحت حکومت چلانے کے مقابلے میں شخصی سرپرستی سے حکومت چلانے کی ضرورت کھڑی ہوجاتی ہے۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیںکہ درست رہنما کا انتخاب کرتے ہی پاکستان راتوں رات تمام مشکلات سے نکل آئے گا اور یہ تمام فالٹ لائنز ہائیڈ پارک بن جائیں گی کہنا پڑے گا کہ عمران خان نہایت بچپنے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ پہلے دو فالٹ لائنز میں وہ تو ابھی سے غلط سمت کھڑے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ تیسری (گورننس) پر اُن کا ریکارڈ مشکوک ہے۔

چاہے عمران خان کی شروع میں مشرف کی حمایت ہو، یا دھرنوں کے دنوں میں اُن کا ”امپائر ‘‘ پر انحصار ہو، یا اُن کی پارلیمان سے نفرت کا برملا اظہار ہو، یا اسٹبلشمنٹ کے ذریعے منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی ہو، یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ جب بھی سول ملٹری تناؤ کا مرحلہ آئے گا، عمران خان سولین سائیڈ پر کبھی کھڑے دکھائی نہیں دیں گے۔ تو کیا وہ حکومت حاصل کرنے کے بعد راتوں رات تبدیل ہوجائیں گے؟ کیا وہ جمہوریت کے اتنے بڑے چمپئن بن جائیں گے کہ اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ سے زمام ِ اختیار لے کر سوالین اتھارٹی کو بالا دست کردیں، جیسا کہ ہمارا آئین کہتا ہے؟ یہاں ہمیں حقیقت پسندی کا سامنا کرنا ہوگا، رومانوی سوچوں کا اقتدار کے دریچوں میں کوئی دخل نہیں۔

جہاں تک جدیدیت اور انتہا پسندی کے درمیان تناؤ کا تعلق تو یہاں بھی عمران خان کا ریکارڈ افسوس ناک ہے۔ اُنہیں حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے طالبان نے اپنا نمائندہ مقررکیا تھا۔ اس کے بعد وہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا بہت دیر تک سوگ مناتے رہے (اُن کے سوگ کے دن اے پی ایس حملے کے ساتھ ختم ہوئے تھے )۔ لیکن پھر ہم نے اُنہیں مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو عوام کے ٹیکس کی رقم سے فنڈز فراہم کرتے دیکھا۔ صرف یہی نہیں، حال ہی میں اُنھوں نے ختم ِ نبوت جیسے حساس مسلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے اور اپنے حریفوں کو ہزیمت سے دوچار کرنے کی کوشش کی۔

نظام اور شخصی حکومت کے درمیان عمران خان کس طرف کھڑے ہوں گے؟ بدعنوانی کے ایشو پر اُن کا اسٹینڈ انتہائی موقع پرستی کا مظہر ہے۔ وہ شریف برادران اور آصف زرداری کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کا کڑا محاسبہ ہوجائے تو ملک سے بدعنوانی راتوں رات غائب ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنھوںنے شروع میں خیبر پختونخواہ میں نظام کے تحت حکومت چلانے کی کوشش کی، اور ایک احتسا ب کمیشن قائم کیا۔

لیکن جب اس کی زد میں اپنے ہی آنے لگے تو اسے معطل کردیا گیا۔ پی ٹی آئی کی داخلی تنظیم سازی، پارٹی کے اندر ہونے والے انتخابات اور ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں ہمیں کوئی نظام کارفرما دکھائی نہیںدیا۔ ہر مرحلے پر نظام کی جگہ شخصی فیصلوں کاجادو سر چڑھ کر بولا۔

فہد حسین نے حال ہی میں پی ٹی آئی کے پنجاب میں امیدواروں کو دیکھ کر لکھا کہ ”اس فہرست نے پی ٹی آئی کو تبدیلی کی پارٹی کی بجائے ایک روایتی پارٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ ‘‘چنانچہ اگر ہمیں ر وایتی پارٹیوں کے درمیان ہی کسی کو چننا ہے تو پھر ہم پی ٹی آئی کو کیوں جیتنا چاہیے؟ یہاں اس کی ایک دلیل ہے۔ ہم جمود کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمارے مسائل کا حل افراد کے ہاتھ میں نہیں بلکہ نظام کی فعالیت میں ہے۔ اگر ہم سابق وزیر ِاعظم کو جیل بھیج دیں تو اس سے ملک میں احتساب کا نظام مضبوط نہیں ہوجائے گا۔ ایک شخص کی سزا سرکاری افسران کو دیانت داری کے پیکروں میں نہیں ڈھال دے گی۔ یہ افسران اور اہل کار سیاست دان تو نہیں لیکن انہیں منتخب شدہ سیاست دانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

جب تک مقدس گائے موجود ہیں، یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا۔ جب غیر منتخب شدہ ادارے نظریہ ضرورت یا کسی اور ناگہانی وجوہ کی جواز پر منتخب اداروں میں مداخلت بند نہیں کرتے، گورننس میں بہتر ی نہیں آئے گی۔ غلط پالیسی پر افسران کو سزا ملنی چاہیے، چاہے اُن کا تعلق سولین سے ہو یا فوج سے۔ اگر ہم خراب حکومت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ عملی طور پر ایگزیکٹو کا کردار کون ادا کررہا ہے؟ اگر ہم اپنے ملک کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے نظریات میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ناکامیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے سازش کی تھیوریاں نہ گھڑنے بیٹھ جائیں بلکہ اپنا محاسبہ کریں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم کس طرح تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔ ہمیں صبر اور برداشت کی صفت پیدا کرنا ہوگی۔ نظام اور رویے کی ان تبدیلیوں کے لیے ہمیں وسیع تر سیاسی الائنس کی ضرورت ہوگی۔ شاید ہمیں کسی بہتر اور مثبت میثاق ِ جمہوریت کی ضرورت ہوگی۔

اس اکھاڑے میں پی ٹی آئی بچپنے کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس کی نظریں صرف اقتدار پر جمی ہوئی ہیں۔ یہ کسی کے ساتھ سیاسی الائنس قائم کرنے، یا ملک میں مفاہمت کو پروان چڑھانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ نہیں جانتی کہ اقتدار کے پہیے کی گردش کیسی ہے؟ یہاں منتخب حکومت اور غیر منتخب اداروں کے درمیان عدم توازن کیا ہے؟ یہ نہیں جانتی کہ یہاں سیاسی جماعتوںکے لیے کیسا کیسا جال بچھایا جاتا ہے؟ بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ پی ٹی آئی کو 2018ء کا الیکشن جیت جانے دیں، یہ سب کچھ سمجھ جائے گی۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar