پراگ کی اخلاق باختہ عورتیں اور دھان گلی کے اخلاق یافتہ مرد


میں نے اپنا کیمرہ الگ سنبھالا ہوا تھا۔ کچھ دیر میں ہم سب ایک دوسرے سے جدا تھے پر کوئی فکر مند نہیں تھا۔ مجھے اوباشوں سے بچانے کے لیے اپنی بیٹی اور بیوی کو اپنے قریب کسی حصار میں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فحش، عریاں اور اخلاقی زوال کے پاکستانی مارکہ ٹھپہ لگے مغربی معاشرے میں عورت کی عزت ملک عزیز کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ تھی۔ خوف کا کوئی سایہ نہیں تھا۔ جسم ٹٹولنے والے ہاتھ عنقا تھے۔ فضا مغلظات سے بوجھل نہیں تھی۔ آنکھیں اپنے کام سے کام رکھتی تھیں۔ رات گئے تک ہم چارلس برج پر رہے۔ پھر ایک دوسرے کو ڈھونڈا اور جب تھک گئے تو ایک خوشبودار احساس کے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ کو لوٹ گئے۔

امرتا کہتی تھی کہ ہمارے خطے کے مرد نے عورت کے ساتھ سونا سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔ امرتا نے پورا سچ نہیں بولا۔ ہمارے خطے کے مرد نے عورت کے ساتھ جاگنا ہی نہیں، بات کرنا بھی نہیں سیکھا۔ اس کے ساتھ چلنا بھی نہیں سیکھا، اسے دیکھنا بھی نہیں سیکھا۔ اس نے اسے انسان سمجھنا بھی نہیں سیکھا۔ عورت ایک حق ملکیت کا نام ہے۔ ایک برتنے کی چیز ہے جسے استعمال کے بعد غلاف چڑھا کر دیوار میں چنتے نہیں تو کواڑوں کے پیچھے مقفل ضرور کر دیتے ہیں اور اسے ہم نام دیتے ہیں عورت کی عزت کا، اس کی حفاظت کا، اس کی عصمت کا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں عورت کا استحصال ہوتا ہے انہیں نہ استحصال کے معنی آتے ہیں نہ اس کے ہجے آتے ہیں۔

عورت کی آزادی کو گناہ سمجھنے والے اس سماج میں عورت کو غلام بنائے رکھنا ضروری ہے کہ پدرسری معاشرے میں مرد کے اقتدار میں کوئی دراڑ نہ پڑے۔ عورت نے کیا پہننا ہے، کیا پڑھنا ہے، کیا کام کرنا ہے، کس سے شادی کرنی ہے، کس کی خدمت کرنی ہے یا کس کے نام پر زندگی گزارنی ہے۔ ان میں سے کوئی فیصلہ عورت کا اپنا نہیں ہے۔ صدیوں کے جبر اور ذہن سازی نے عورت کو بھی اسی بات پر قائل کر لیا ہے کہ اسی میں اس کی نام نہاد عزت اور بقا ہے کہ وہ ان لگے بندھے اصولوں کے کھونٹے سے بندھی ایک گول دائرے میں چلتی رہے۔ اس کی آنکھ پر پٹی بندھی ہے اور منہ پر نقاب ہے۔ پر اسے چلنا ہے، اسی گول دائرے میں تاکہ سماج کے رہٹ کا پہیہ گھومتا رہے اور اس کی جسم وجان کے مالک کی پیاس سیراب ہوتی رہے۔

مذہب، شرع، روایت اور ثقافت کے نام پر ہر بیڑی صرف عورت کے پیر میں ڈالی گئی ہے۔ ہمیں پراگ کے چارلس برج پر پھرتی لڑکیاں نیم برہنہ دکھائی دیتی ہیں، اخلاق باختہ لگتی ہیں۔ استحصال کی شکار کہلاتی ہیں۔ جانتے ہیں کیوں۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ہنس سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے گھر سے قدم باہر نکال سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے جیون ساتھی چن سکتی ہیں اور اپنی مرضی سے اسے چھوڑ سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے پڑھ سکتی ہیں، اپنی مرضی کی نوکری کر سکتی ہیں، اپنا بوجھ خود اٹھا سکتی ہیں، اپنی مرضی سے سفر کر سکتی ہیں، اپنی مرضی سے تفریح کر سکتی ہیں اور ہاں، اپنی مرضی سے سانس لے سکتی ہیں۔

یہ ہم کیسے مان لیں۔ ہمارے دھان گلی کے پل پر پھرتے ہمارے اخلاق یافتہ مرد جو مغلظات بکتے ہیں، آوازے کستے ہیں، اکا دکا نظر آنے والی ہر لڑکی کو آنکھوں سے، باتوں سے اور بس چلے تو ہاتھوں سے ٹٹولتے ہیں، یہ ہمارے سماج کا اصل چہرہ ہیں اور ان کی عورتیں ان کے گھروں میں بند ہیں۔ یہ ان عورتوں کے قوام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو غلام کی طرح بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ان کی چاکری کرتی ہیں۔ جن کے رشتے سوداگری کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی تعلیم پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ جن کے لباس کی تراش خراش بھی ان کی منظوری کی رہین ہے۔ گھر میں عورت کو بند کر کے، اسے تعلیم سے محروم کر کے، اسے نقاب اوڑھا کر اس کی شناخت چھیننے سے، اسے گھر کی ملکہ کہہ کر، اسے دنیا کے کاروبار سے دور رکھ کر ہم نے نعرہ یہ لگایا کہ عورت اگلی نسل کی اسی طرح بہتر تربیت کر سکے گی۔

تربیت بھی سامنے ہے اور نسل در نسل بھی سامنے ہے۔ دعویٰ اپنی جگہ، پر سچ بہت مختلف ہے، بہت کڑوا ہے۔ ہم ابھی بھی پتھر کے زمانے میں زندہ ہیں۔ عورت کی عزت، اس کی آزادی، اس کی خواہشیں، اس کی اڑان، اس کے خواب۔ ان سب کی باتیں تو بہت دور کی بات ہے۔ ابھی تو عورت کو یہ اجازت بھی نہیں کہ وہ دھان گلی کے پل پر ہی قدم دھر سکے۔ معلوم نہیں استحصال اور کسے کہتے ہیں۔ غلامی کون سی اور چڑیا کا نام ہے اور جبر کا اندھا کنواں اور کیسا ہوتا ہے۔ جس دن عورت دریائے جہلم کے کنارے خوشی سے آزاد فضا میں پھرنے کے قابل ہو گئی اس دن بات آگے چھیڑیں گے تب تک یہ عورت کو چار دیواری میں بند رکھنے کے جواز بھی وہیں رکھیے گا کہ ان کے تعفن سے جی گھبراتا ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad