جب خاتون پولیس اہلکار نے پچپن میں ریپ کرنے والے کو جیل پہنچایا


جنسی استحصال

وہ تنہائی اور جنگل کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتا تھا

وہ نو سالہ لڑکی بہت باتونی تھی۔ اس کے پاس بہت سی گڑیا تھی اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ ‘گھروندے’ کا کھیل کھیلتی تھی۔

اسے سائیکلنگ کا بہت شوق تھا۔ اس کے گھر ایک ٹی وی تھا۔

جبکہ اس فوٹوگرافر کی عمر 39 سال تھی۔ وہ شادی شدہ تھا۔ فطرت سے اسے خاص لگاؤ تھا۔ وہ خوب سیر سپاٹے کرتا تھا۔ اور اپنے سفر کے قصوں سے عوام کا اعتماد بہ آسانی حاصل کر لیتا تھا۔

تباتا (تبدیل شدہ نام) کی اس فوٹو گرافر سے پہلی ملاقات سنہ 2002 کے موسم گرما میں ہوئی تھی۔ وہ تباتا کے والدین کا دوست تھا۔ اس نے دو سال تک تباتا کا ریپ کیا۔

آخری بار ریپ کرنے کے 12 سال بعد دونوں کا ایک بار پھر سامنا ہوا۔

اس بار تباتا کے ہاتھوں میں بندوق تھی۔ اس نے فوٹوگرافر کا بازو زور سے پکڑ کر اسے ہتھکڑیاں پہنائیں اور اسے جیل لے گئی۔ اس نے اسے قید کر کے راحت کی ایک لمبی سانس لی جیسے اس نے کوئی طویل سلسلہ ختم کر دیا ہو۔

جنسی استحصال

تباتا اب 26 سال کی پولیس افسر ہیں اور جنوبی برازیل کے صوبہ سانتا کیٹرینا صوبے میں تعینات ہیں۔ 21 دسمبر سنہ 2016 کا وہ دن ان کے ذہن میں تازہ ہے۔

تباتا نے اس آدمی کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جس نے ان کا کئی بار جنسی استحصال کیا تھا۔

پہلی بار کسی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو اپنی کہانی سنائی۔ تباتا نے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں زبان کھولنے کا اس لیے فیصلہ کیا ہے تاکہ دوسری خواتین کو بھی ترغیب مل سکے۔

کیمپنگ کے ساتھ جنسی استحصال شروع ہوا

جنسی استحصال

جب فوٹوگرافر کی تباتا کے والد سے شناسائی ہوئی اس وقت تباتا نو سال کی تھیں اور فوٹوگرافر جلد ہی ان کے خاندان کے ساتھ گھل مل گیا۔

موسم گرما میں دونوں خاندانوں نے دریا کے کنارے ساتھ کیمپنگ کا منصوبہ بنایا اور ہر ہفتے کیمپنگ کا دورہ شروع ہو گيا۔

تباتا اس اچھے وقت کو یاد کرتی ہیں جب وہ دریا میں خوب مزے کیا کرتی تھی۔

دونوں خاندان کار سے جایا کرتے تھے، جنگلوں کے ناہموار راستوں سے گزرتے ہوئے فطرت سے لطف اندوز ہوتے تھے اور کھلے آسمان کے نیچے ٹھنڈی ہوا میں سوتے تھے۔

کیمپنگ کے چند ہفتوں کے دوران فوٹوگرافر نے تباتا کا جنسی استحصال شروع کر دیا۔

انھوں نے بتایا کہ ‘میرے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ مجھے پریشان کر رہا تھا لیکن اس وقت میں یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ جرم ہے۔‘

‘میں نے اس وقت اپنے والدین کو کچھ نہیں بتایا، لیکن آج میں سوچتی ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔’

کہیں والد اس کا قتل نہ کر دیں!

تباتا کی ایک آٹھ سالہ سوتیلی بہن بھی تھی لیکن وہ ان کے ساتھ کیمپنگ کے لیے نہیں جاتی تھی۔

‘وہ میرے باپ کے زیادہ قریب نہیں تھی کیونکہ وہ سوتیلی بیٹی تھی۔ وہ گھر پر رہ کر ہی ٹی وی دیکھتی یا پڑھائی کرتی تھی۔’

تباتا کے مطابق فوٹو گرافر نے ان کے کمزور ہونے، کیمپ کی تنہائی اور درختوں کے درمیان اندھیرے کا فائدہ اٹھایا۔

وہ بتاتی ہیں: ‘ایک بار کیمپنگ کے دوران پانی لینے گئی تھی تو راستے میں اس نے میرا استحصال کیا۔ میں بمشکل ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگی۔ میرے والدین نے پوچھا کہ تم اس سے پہلے کیوں آ گئی؟ انھوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کا قابل اعتماد دوست ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے۔’

جب استحصال کے واقعات مسلسل ہونے لگے تو تباتا کی برداشت سے باہر ہو گيا۔ وہ اپنے والد کو سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔

تباتا نے بتایا: ‘میرے والد ہمیشہ تناؤ میں رہتے تھے اور مجھے ڈر تھا کہ میرے سچ بتانے پر کہیں وہ اس فوٹوگرافر کو قتل نہ کر دیں۔ پھر انھیں جیل ہو جاتی۔ ہزاروں باتیں ذہن میں آ رہی تھیں۔ ایک خوف یہ بھی تھا کہ میرے والدین مجھ پر یقین کریں گے یا نہیں۔’

‘ماں کو بتانا چاہتی تھی ، لیکن’

جنسی استحصال

فوٹوگرافر اکثر ان کے گھر تباتا کو تنہائی میں پانے کے لیے آنے لگا۔

اس نے دیکھا کہ تباتا کی بہن پڑھنے میں مصروف رہتی ہے اور اس کی ماں رات کو کام کرتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کب اس کے والد رات میں فٹبال کھیلتے ہیں اور وہ اس وقت کا فائدہ اٹھاتا اور تباتا کا جنسی استحصال کرتا۔

‘وہ کہتا تھا، ‘بس تھوڑا سا، بس تھوڑا سا’۔ وہ کبھی مجھے مارتا نہیں تھا، وہ مجھے زور سے پکڑ لیتا تھا۔’

وہ ڈھائی سال تک تباتا کا جنسی استحصال کرتا رہا۔

تباتا کہتی ہیں کہ انھیں 11 سال کی عمر تک یہ سمجھ آنے لگا کہ وہ ان کے ساتھ جنسی جرم کررہا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کرنے لگی۔ چیخنے لگی لگی لیکن اس کا کوئی حاصل نہیں تھا۔

ایک دن وہ اپنی ماں کو سب کچھ بتانے کے لیے تیار تھی کہ اس پتہ چلا کہ اس کی والدہ نفسیاتی مریض ہے۔ پھر تباتا نے انھیں کچھ نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔

سوتیلی بہن کو بتایا

اس وقت تباتا کو ایک چونکانے والی خبر ملی کہ اس کے والد کا فوٹوگرافر کی اہلیہ کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔

جب اس بات کا پتہ دونوں خاندانوں کو چل گيا تو دوستی ختم ہو گئی اور تباتا کے استحصال کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔

تباتا نے اپنی سہیلی کو سب کچھ بتا دیا اور اس سے رازداری کا قول لے لیا۔

وہ ایک مشکل وقت تھا۔ تباتا کو اپنی جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار ماں کو سنبھالنا تھا۔ وہ اپنی بہن سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ دونوں کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔

لیکن ماں کی بیماری دونوں بہنوں کو قریب لے آئی۔ تباتا نے اپنی بہن کو سنہ 2006 میں اس کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔

تباتا نے کہا: ‘جب میں نے اپنی بہن کو سب کچھ بتایا تو، وہ بہت زیادہ رونے لگی۔ اس نے والد کو فورا فون کیا۔ میرے والد دو سال قبل میری والدہ سے طلاق لے چکے۔ ایسے میں ان کو کچھ بتانا میرے گھر والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا۔’

تباتا برسوں تک اس دردناک یادوں کو بھلانے کی کوششیں کرتی رہی لیکن وہ ان کے دماغ سے نہیں نکل سکی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp