امید و اندیشوں کے درمیان ہونے والے فیصلہ کن انتخابات


دسمبر 1970 میں ہونے والے انتخابات کے بعد اب 25 جولائی 2018 کو منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک کی تاریخ میں فیصلہ کن قرار دیا جارہا ہے۔ اس وقت ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی بے حد اہم تھے کہ یکے بعد دیگرے دو فوجی آمرانہ حکومتوں کے بعد عوام کو رائے کا اظہار کرنے کا موقع دیا جارہا تھا۔ اس بار یہ صورت حال تو موجود نہیں ہے کیوں کہ گزشتہ ماہ دوسری منتخب حکومت نے پانچ سال کی مدت پوری کرکے ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن 2008 میں جمہوری حکومت کے قیام سے شروع ہونے والے دونوں ادوار اس لحاظ سے 1970 سے پہلے دس بارہ سال کی مدت سے مماثلت رکھتے ہیں کہ اس عرصہ میں بھی منتخب حکومتوں کو اپنی مرضی اور صوابدید کے مطابق کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے بھی اختیار کئے گئے۔

یہ دونوں ادوار ملک کی تاریخ میں جمہوری ہی کہلائیں گے لیکن یہ ایسی جمہوری حکومتیں تھیں جنہوں نے اسمبلیوں میں اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود اپنی حفاظت کی فکر میں گزار دی۔ یہ خطرہ اسمبلی میں کسی عدم اعتماد کی تحریک سے لاحق نہیں تھا بلکہ ملک کے نظام کے دیگر طاقتور ادارے منتخب حکومتوں کو اپنے ڈھب سے چلانے پر مصر رہے اور انہیں دباؤ میں رکھنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے رہے۔ اس طرح ان جمہوری ادوار کو مکمل طور سے جمہوری نہیں کہا جاسکے گا کیوں کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر آنے والی جماعتوں نے حکومت ضرور کی اور اپنی مدت بھی پوری کی لیکن وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق خارجہ تعلقات اور سماجی معاملات کو استوار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی ذمہ داری منتخب لوگوں کی نااہلی اور کوتاہ نظری پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ ان حکومتوں کو مکمل جمہوری آزادی اور اختیار کے ساتھ معاملات طے کرنے کا حق نہیں دیا گیا، اس لئے وہ رونما ہونے والے متعدد معاملات کے بارے میں جوابدہ قرار نہیں دئیے جا سکتے۔

کہا جاسکتا ہے کہ 1970 کےانتخابات کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہو گیا تھا۔ اس لحاظ سے ملکی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی مثال دینا مناسب نہیں ہو گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ پاکستان کو انتخابات کی وجہ سے بڑی آبادی پر مشتمل اپنے ایک حصہ سے محروم ہونا پڑا اور پاک فوج کو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ایک المناک اور شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ملک جمہوری انتخابی نتائج کی وجہ سے تقسیم نہیں ہؤا تھا بلکہ ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کے سبب یہ افسوسناک صورت حال رونما ہوئی تھی۔ اس لئے 2018 کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے اور انہیں 1970 کے انتخابات کے تناظر میں دیکھنے کے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جمہوری عمل کے نتائج کو تسلیم کرنا اور سامنے آنے والے فیصلوں کو قبول کرنا بھی جمہوری عمل ہی کا حصہ ہے۔ عوام کی رائے کے مطابق ہونے والے فیصلے بعض اوقات تسلیم کرنا مشکل ضرور ہو سکتا ہے لیکن انہیں مسترد کرنے یا طاقت کے زور پر انہیں بدلنے کے نتائج بھی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ماضی قریب کا یہ سبق نہایت اہم ہے اور 2018 کے فیصلہ کن انتخابات کی طرف جاتے ہوئے اسے یاد رکھنا بے حد ضروری ہے۔

اس سال منعقد ہونے والے انتخابات میں یہ بنیادی اور اہم فیصلہ ہونا ہے کہ کیا ملک میں جمہوری نظام کو کام کرنے دیا جائے گا یا جمہوریت کے نام پر اسمبلیوں اور عہدوں کی تقسیم کا ڈھونگ رچا کر یہ سمجھ لیا جائے گا کہ عوام کی خواہش اور ضرورت پوری کردی گئی ہے۔ اب وہ کیا جائے جو ملک و قوم کے لئے ’بہتر‘ ہے۔ یہ مزاج 1971 کے بعد سامنے آنے والے نئے پاکستان میں پہلے سے بھی زیادہ راسخ ہؤا ہے۔ پاک فوج نے 1971 میں ہزیمت اٹھانے اور اپنے سیاسی و عسکری ایجنڈے کی مکمل ناکامی کے باوجود ملک کی جمہوری حکومت کو اپنے طریقے اور اصولوں کے مطابق چلانے کی کوششیں جاری رکھی تھیں ۔ اسی لئے 1971 میں بچے کھچے پاکستان کو محفوظ ومستحکم کرنے اور 1973 کا متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین لیڈر کو بھی اپنے سیاسی ایجنڈے اور سوچ کے مطابق کام نہیں کرنے دیا گیا۔ 1977 میں جمہوری انتخابات کے بعد شروع ہونے والی تحریک اور اس کے نتیجہ میں اسی سال جولائی میں ضیاالحق کی فوجی بغاوت ایک طویل تاریک دور حکومت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی جس کا پہلا شکار خود ذوالفقار علی بھٹو بنے جنہیں اپریل 1979 میں پھانسی دے کر پاکستان سے جمہوریت اور سماجی انصاف کے خواب کا جنازہ نکالنے کی کوشش کی گئی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد 2014 میں دئیے جانے والے طویل سیاسی دھرنے پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ احتجاج بھی اسی اصول پر استوار دکھائی دے گا کہ مقبول ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت کے اختیار اور حق حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ 1977 میں اس کا انجام المناک ہؤا تاہم 2014 میں سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی درپردہ مفاہمت کے سبب تحریک انصاف اور پاکستان عوامی لیگ کا دھرنا حکومت گرانے میں تو کامیاب نہیں ہؤا لیکن عسکری اور سیاسی حلقوں میں موجود بد اعتمادی اور دوری کا نتیجہ 2017 میں نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں ضرور سامنے آگیا۔

اب قوم ایک بار پھر انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ انتخاب اس لحاظ سے فیصلہ کن اور اہم قرار دئیے جارہے ہیں کہ ان میں یہ طے ہو سکتا ہے کہ کیا ملک کے عوام کو انتخابات کے بعد ہونے والے جوڑ توڑ اور اقتدارو اختیار کی جدوجہد کے بارے میں شعور حاصل ہوچکا ہے اور کیا ان انتخابات میں وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس کا دوٹوک اور برملا اظہار کر سکیں گے۔ اگر سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے حق میں فیصلہ سامنے آتا ہے تو ملک کے سب حلقوں کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے یہ طے کرنا ہو گا کہ ان نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو آزادی دیتے ہوئے کسی رہنما اصول یا ڈاکٹرائن کے بغیر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ عوام کے دئیے گئے اختیار کو چیلنج کرنے کا اگلا موقع 5 برس بعد از خود مل جائے گا۔ لیکن اگر ان نتائج کو بھی سیاسی، عدالتی یا عسکری حلقوں کی طرف سے مسترد کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا تو یہ ملک و قوم کے لئے مناسب نہیں ہو گا۔ ووٹر اگر ابھی تک شعور کی اس منزل کو نہیں پہنچا اور وہ جمہوری اختیار اور سیاسی لیڈروں کی کمزوریوں کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث میں فرق کرنے میں ناکام رہا ۔ یا انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لئے اختیار کئے جانے والے مختلف ہتھکنڈے کامیاب رہے اور عام قیاس کے مطابق  ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آگئی تو اس سے نام نہاد نظام تو چلتا رہے گا لیکن ملک میں جمہوری احیا کی تحریک طویل عرصہ پر محیط ہو جائے گی۔

پاکستان کو اس وقت گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جسے عوام کی واضح اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ عوام کسی ایک پارٹی کو واضح اور فیصلہ کن اکثریت دلوانے میں کامیاب ہوجائیں اور ہارنے والی سیاسی پارٹیاں اپنا مقررہ سیاسی اور جمہوری کردار ادا کرنے پر راضی ہوں۔ پاکستان کے حالات کے علاوہ رائے دہی کے عالمی رجحانات اور عوامی رائے کو متاثر کرنے والے جدید عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ نتیجہ تصور کرنا محال ہونا چاہئے۔ اس صورت میں دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ نمائیندگی حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات اور اقتدار کی بندر بانٹ میں شامل ہونے سے پہلے ان مسائل پر نگاہ ڈالیں جو اس ملک اور یہاں آباد عوام کو درپیش ہیں اور کم از کم چار پانچ نکاتی ایک ایسے ایجنڈے پر متفق ہوجائیں جس پر عمل کرکے ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالا جاسکے۔ اگر معلق پارلیمنٹ کے سب گروہ صرف اپنے اقتدار کے لئے کوشش کریں گے اور اس مقصد کے لئے غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کریں گے تو یہ جمہوری پراجیکٹ کے لئے ہی مہلک نہیں ہو گا بلکہ ملک کے لئے بھی اچھی خبر نہیں ہوگی۔

ملک کو اس وقت ہر طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر ہر قسم کے علاقائی تعاون اور مصالحت کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ عبوری حکومت بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے زر مبادلہ کے محدود ہوتے ذخائر کو استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے اور معیشت کو متحرک رکھنے کے لئے آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے کے لئے پیش رفت کی جا رہی ہے۔ لیکن اس مقصد میں اسی صورت میں کامیابی حاصل ہوگی اگر امریکہ کو کسی صورت مطمئن کیا جا سکے گا۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کی نگرانی کرنے والا عالمی ادارہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں ڈالنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے پاکستانی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے جسے عالمی ادارہ موڈیز پہلے ہی مستحکم کی بجائے منفی قرار دے چکا ہے۔ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے جن کے لئے سرمایہ صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے اگر معاشی بہتری کے مثبت اور ٹھوس اشاریے سامنے آسکیں۔ اسی طرح ملک سے لوڈ شیڈنگ کا بحران صرف زیادہ بجلی پیدا کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے سستی بجلی پیدا کرنا ضروری ہے جو ڈیم بنانے اور آبی ذخائر میں اضافہ سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں بجلی کی ترسیل کے فرسودہ نطام کو بھی اپ گریڈ کرنا لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمہ کے لئے اہم ہو گا۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لئے پاک چین اقتصادی منصوبے سے غیر ضروری اور بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ لیکن یہ توقعات بھی ملک میں سیاسی استحکام کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ سی پیک کی کامیابی کے لئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کے لئے امریکی خواہشات پوری کرنا ضروری ہوگا۔ یہ دونوں منصوبے چین کی بھی ضرورت ہیں کیوں کہ اسی طرح وہ ون روڈ ون بیلٹ کے منصوبہ کو اس علاقے سے منسلک کرنے کے پراجیکٹ کی تکمیل کرسکتا ہے۔ یہ تصور غلط اور گمراہ کن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والی کوئی بھی حکومت پاکستان کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو گی کیوں کہ اس طرح سول ملٹری تنازعہ ختم ہوجائے گا اور تمام ادارے مل کر کام کرسکیں گے۔ علاقائی امن اور انتہاپسندی کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے تصورات اور پالیسیاں فرسودہ ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کا کوئی مثبت اشارہ موجود نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ایک مضبوط سیاسی حکومت اور سیاسی اتفاق رائے ہی دراصل ملک کو لاحق خطرات سے نمٹنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali