سیلفی ایک لا علاج مرض ہے!


دُنیا ترقی کی مَنازل طے کرنے میں مصروف ہے اور ہم جَدید دور کی ایجاد کردہ ”سیلفی“ بڑے اِنہماک سے دوسروں کے ساتھ لینے میں مشغول ہیں۔ کیونکہ جہاں روز بروز ہمارا اپنا اِسٹیٹس گِرتا جا رہا ہے وہاں فیس بک پر اِسٹیٹس اَپ ڈیٹ کر کے نہ جانے ہم کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ گویا اگر فیس بک پر اِسٹیٹس اَپ ڈیٹ ہوگیا تو، ہمارا شمار ایک باعزت، اہل علم افراد میں ہونے لگ جائے گا۔

زندگی بہت خوب صورت ہے۔ ہم زندگی کے ہر گزرتے دِن کو یادگار بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اِنھی لمحات کو تصویر کی شَکل میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اگر ماضی میں دیکھنا ہو تو تصاویر میں جھانک لیتے ہیں، تو ماضی کی گزری ہوئی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ پہلے کے دور میں بناو سِنگھار کر کے تصاویر لی جاتی تھیں مگر اب زمانہ بدل چکا ہے، کیونکہ اب سیلفی کے لیے تیار ہوا جاتا ہے۔ جب سیلفی متعارف نہیں کرائی گئی تھی، تو تصویر لینے والا تصویر میں نہیں آسکتا تھا۔ لیکن سیلفی کے ذریعے نہ صرف تصویریں ہاتھ کے ہاتھ دیکھی جا سکتی ہیں، بلکہ تصویر لینے والا بھی با آسانی تصویر میں آ سکتا ہے۔ کیمرے، اسمارٹ فون سے اُتاری گئی تصاویر جِنھیں  سَماجی روابط کی ویب سائٹس پر پوسٹ کیا جائے وہ سیلفی کہلاتی ہے۔

سیلفی کا بخار اب سَرطان بن چکا ہے وہ بھی لا علاج! یہ سیلفیاں خود پَسندی کے جراثیم اِتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں کہ اب جراثیم بھی شرما گئے کیا ہم برے ہیں۔ مجھے تو اب تک ٹھیک سے سیلفی بنانا نہیں آتی کیونکہ میں ایک ”سیلف میڈ“  انسان ہوں۔ میرے والدین اِن جاں لیوا بیماریوں سے واقف تھے، تو مجھے بَچپن ہی میں حفاظتی ٹِیکے لگا دیے تھے۔ اگر کوئی شخص اپنی بے تکی سیلفی کے بجائے سادہ سیلفی کھینچ کر اپنے ہی سوشل مِیڈیا اکاونٹ پر پوسٹ کر دے، تو ایک خاص ”مہذب طبقے“ کے لوگ جِن کو حَسد کی بیماری چاٹ رہی ہے وہ اِس تصویر پر تہمتوں کی برسات کر کے اپنی ہی آخرت تباہ کر دیتے ہیں۔

سیلفی کا جو یہ بڑھتا ہوا رجحان معاشرے میں اَنا پَرستی کو فروغ دے رہا ہے۔ سیلفی بنانے کی خَبط مَردوں کی نِسبت خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ مجھے تو اب تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر ہم اپنی بھونڈی تخلیقات کے ذریعے معاشرے کی کون سی تصویر دُنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اگر ٹوئٹر پر عالمی ٹرینڈز دیکھئے اور پھر پاکستانی ٹرینڈز دیکھئے۔ یَہود و نصارٰی جِن کو ہم اپنا دُشمن تصور کرتے ہیں وہ مَسائل اور ان کے حَل پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے کر اِن پر اظہارِ خیال کرتے ہیں، ماحولیاتی مسائل کو کس طرح حل کرنا ہے اتفاق اور عدم اتفاق کے خوب صورت مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کے اِمتیاز کو واضح کرنے کی دِل کش بحثیں ہوتی ہیں، نسل پرستی، تہذیبی، علاقائی تفاخر کے تصادم سے بچنے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ”گو نواز گو“، ”رو عمران رو“، میں تو کہوں گا ، ”تِیر چلے گا، بَلا چلے گا“، اس جیسے بے تکے  ٹرینڈز چلتے ہیں۔ جہاں ہم دِل کھول کر دوسروں کے عیوب کی دِلیرانہ نمایش کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو ہاہاہا قہقہوں کے سبب آنسوں نکلتے ہوئے اِموٹِیکون بھی  بھیج کر اپنی حاسدانہ، عدم تحفظ کا شکار شخصیت کا پوری دُنیا کو تعارف کراتے ہیں۔

یہ سب کر کے خوب اندازہ ہورہا ہے کہ ہم کس سمت میں جارہے ہیں۔ نہ جانے ہم اپنی کونسی چھپی ہوئی جَبلت کو تسکین پہنچانے کا سامان کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے بلاگز پر بعض لوگ تنقید تو کرتے ہیں، لیکن میں اِس کو تاریخ کا حِصہ بنانا چاہتا ہوں۔ ہمیں احساس اس وقت ہوگا جب ہماری اخلاقیات کا پَارہ انسانی اِقدار کے نقطہ اِنجماد سے گِر جائے گا۔

تعارف: خطیب احمد طالب علم ہیں۔ صحافت اور اردو ادب میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل اور تعلیمی امور پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فن خطابت میں بھی د لچسپی رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).