بس ایک پاگل عورت نے کام بگاڑ ڈالا


اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ اس بھرے پرے پاکستان میں کون ایک شخص ہے جس کا بس نہیں چلتا کہ اس کی میز پر چوبی ہتھوڑے کی جگہ الہ دین کا چراغ ہو جسے رگڑ کے وہ تمام بائیس کروڑ چہروں پر آناً فاناً خوشیاں بکھیر دے تو بس ایک ہی نام لبوں پر آتا ہے ثاقب نثار، ثاقب نثار۔

ورنہ کون اس تپتے موسم میں نہ ہفتہ دیکھے نہ اتوار اور کام کام اور صرف کام کے فرمانِ قائدِ اعظم کے لیے خود کو وقف کر دے۔ کبھی کبھی تو مائی لارڈ کی عمر میں ایک بیس سالہ نوجوان کا سا سٹیمنا دیکھ کر سپرمین کا گمان آنے لگتا ہے۔

آج اس شہر میں، کل اس گوٹھ میں، صبح اس ہسپتال کا معائنہ، دوپہر کو فلاں سیشن کورٹ میں مصروفِ سماعت جونئیر جج سے کیمرہ گیر باز پرس اور ساتھ ہی ساتھ اتنے سارے مقدمات کی اسلام آباد اور چاروں صوبائی رجسٹریوں میں بنفِسِ نفیس سماعت، یا اللہ مائی لارڈ سوتے کب ہیں اور جاگتے کب؟ لہٰذا مجھ جیسے وہمیوں کو مائی لارڈ کی صحت کی فکر لگی رہتی ہے۔

مائی لارڈ صرف فرض شناس و بالائے مصلحت ہی نہیں بلکہ ایسے جرات مند منصف ہیں جو ظلم و لاقانونیت کے جنگلی بیل کو سینگوں سے پکڑنا جانتا ہے۔

یہی دیکھیے کہ سنیچر کو جب اندرونِ سندھ کی عدالتوں، ہسپتالوں اور شاہراہوں کے معائنے کے دوران ایک جگہ جبراً غائب افراد کے چند لواحقین نے انصاف کی دہائی دی تو مائی لارڈ نے سندھ کے آئی جی پولیس، ڈائریکٹر رینجرز اور آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ذمہ داروں کو اگلے دن حاضر ہونے کا حکم دیا۔

مجھے جانے کیوں پہلی بار امید ہو چلی تھی کہ جو کام جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا لاپتہ افراد کی بازیابی کا کمیشن مکمل نہیں کر پایا، جن حساس اہلکاروں نے اس معاملے پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برسوں گول گول گھمایا، آج ان کا کوئی عذر یا ہچر مچر مائی لارڈ کے روبرو کام نہ آویں گے۔ آج قومی ضمیر پر بھاری پتھر جیسا یہ انسانی مسئلہ حل ہو کے ہی رہے گا۔

مگر لاپتہ افراد کے گنوار وارثوں نے بنا بنایا کام اپنے ہی ہاتھوں بگاڑ ڈالا۔ حالانکہ چیف جسٹس انہی بے صبروں کی شنوائی کے لیے ہی اتوار کو کراچی میں عدالت لگا رہے تھے۔ اور مائی لارڈ نے کمال شفقت سے کمال لیتے ہوئے عدالت کے باہر جمع لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ایک ایک نمائندے کو بھی اندر آنے کی اجازت دی۔ مگر ناشکروں نے اندر آ کر تمیز تہذیب سے بیٹھنے کے بجائے شور شرابا، رونا پیٹنا ڈال دیا۔ ایک دیدہ دلیر عورت نے تو عدالتی روسٹرم زور زور سے کوٹ دیا۔ چنانچہ چیف جسٹس کو تھوڑی دیر کے لیے چیمبر میں جانا پڑا۔

مگر مائی لارڈ جتنے سخت گیر منصف ہیں اتنے ہی رحم دل بھی ہیں۔ آپ نے کچھ دیر بعد پھر سماعت شروع کی اور روسٹرم کو زور زور سے پیٹنے والی عورت کو محض سرزنش کی کہ اگر تم مرد ہوتیں تو تمھیں توہینِ عدالت کے جرم میں جیل جانا پڑتا۔ مگر تم غیر مشروط معافی مانگو اور آرام سے بیٹھو۔ چنانچہ اس عورت نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ اس کشیدہ فضا میں مائی لارڈ نے متعلقہ حکام کو لاپتہ افراد کی جلد از جلد بازیابی کے لیے ضروری احکامات دیے اور سماعت برخواست ہو گئی۔

اب کچھ حاسد کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ ایسی ہدایات تو کئی سابق چیف جسٹس جاری کر چکے مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ان بدخواہوں کی خدمت میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر آج لاپتہ افراد کے بے صبرے اور عدالتی ادب آداب سے عاری وارث اسی شائستگی کے ساتھ کمرہِ عدالت میں موجود رہتے جس شائستگی کا مظاہرہ طلب کردہ حساس اداروں کے اہلکاروں نے کیا تو دل کہتا ہے کہ مائی لارڈ یہ تاریخی حکم ضرور جاری کرتے کہ چاہے زمین کھودو یا آسمان، مجھے ان لاپتہ لوگوں کو اگلی سماعت میں اپنے سامنے دیکھنا ہے۔

مگر اس عورت نے عدالتی روسٹرم پیٹ کر ماحول ہی بدل دیا۔ جانے وہ کسی لاپتہ کی ماں تھی کہ بہن کہ کسی تخریبی گروہ کی بھیجی گئی گماشتہ۔ کاش یہ پاگل عورت جذباتی ڈرامہ نہ کرتی تو آج ہم سب لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ مائی لارڈ کے ہاتھوں جامع انداز میں نمٹتا دیکھ لیتے۔

ہارون رشید کے روبرو ایک عورت پیش ہوئی جس کا بیٹا قتل ہو گیا تھا۔ اس عورت نے تمام درباری وقار بالائے طاق رکھتے ہوئے چیخ چیخ کر اپنی بپتا سنانی شروع کر دی۔ وزیر نے کہا گستاخ عورت ہوش میں آ تو خلیفتہ المسلمین کے رو برو ہے۔ ہارون نے ہاتھ کے اشارے سے وزیر کو روکتے ہوئے کہا یہ گستاخ نہیں اسے بولنے دو۔ سچ نے اس کی آواز بلند کر دی ہے۔

توبہ توبہ ایک سیدھا سادہ کالم لکھتے لکھتے یہ میرے ذہن میں کیا الٹی سیدھی حکائیتیں آنے لگیں۔ اللہ مجھے معاف کرے اور مائی لارڈ کا اقبال بلند ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).