سلطان باہو کا ’’ہو‘‘



کسی بھی لفظ کے معانی و مطالب کے علاوہ اس لفظ کا صوتی آہنگ اور اس میں موجود موسیقیت اس لفظ کی اثر آفرینی کا تعین کرتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض الفاظ میں پا ئی جا نے والی نغمگی ان الفاظ کے معنی پہ غالب آجاتی ہے۔صوفیا ء کی شاعری میں مقصدیت اور ترقی پسندیت کی آمیزش کی وجہ سے بیشتر صوفیا روایتی مسلمان طبقے سے الگ کھڑے دکھائی دیے اور انہیں اس وقت کے مذہبی پیشواوں کی ملامت کا سامنا کرنا پڑا اور ایسا طبقہ ـ ـــ ’’ملامتی صوفیاء‘‘ کہلایا مگر یہ سب طعن و تشنیع کے نشتر بے اثر رہے اورصوفیاء کی رندانہ طبیعت کی بدولت چار چفیروں سے ’’ہو‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی رہی۔

اپنی مثنوی کی ابتدا میں جلال الدین رومی نے بانسری کے نغمے میں چھپی پکار کو پہچانا اور بتایا کہ اپنے بانس کے درخت سے کٹ کر ایک بانسری کس طرح اپنی بقیہ عمرہجر کے درد اور وصل کی تمنا کومدھر لے اور زیرو بم میں ڈھال کر گزارتی ہے،گویا روح بھی اسی طرح اپنے وطن حقیقی کو جانے کے لیے ساری عمر پھڑکتی رہتی ہے۔

’’ایہہ تن میرا چشمہ ہووے ـــــتے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ‘‘کی صدا بلند کرنے والے اور ’’ہو ‘‘ کا نعرہ لگانے والے حضرت سلطان باہو کے اندر اپنی اصل کی تلاش کا بیج ان کی والدہ بی بی راستی نے بویا ۔

سلطان باہواپنے نام سے بے حد خوش ہوا کرتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرے نام میں ’ہو ‘ کا لفظ آتا ہے ، میری والدہ پہ اﷲ اپنی رحمت کرے جس نے میرا نام باہو رکھا ، جس میں ایک نقطے کے اضافے سے خالق حقیقی کو مخاطب یعنی ’’یا ہو ‘‘ کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ( محکم الفقراء)

سلطان باہوکے پنجابی ابیات میں جابجا ان کے اپنے نام کے حصے یعنی ’ ہو ‘ کی تکرار ملتی ہے ۔ یہ وحدت الوجود کی اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے کہ محبوب کا نام ہی اپنا نام بنا لیا جائے اور سلطان باہو ایک جگہ خود کہتے ہیں کہ
’عینوں عین تھیوں سے باہو، سر وحدت سبحانی ہو ‘
سلطان باہو نے کیا خوب راہ تلاش کی ہے۔کیونکہ جب محبوب و محب کے نام کی تفریق بھی ختم ہوجائے توکیساحجاب ، کیسی رکاوٹیں ۔۔۔
یہ وہی مضمون باندھا گیا ہے جو ہمیں قصور میں بسنے والے بابابلھے شاہ کے ہاں بھی ملتا ہے کہ،
’’رانجھا رانجھا کردیں نیں میں ہن آپے رانجھا ہوئیں‘‘

سلطان باہو کے پنجابی ابیات میں جو موضوعات فراوانی میں دکھائی دیتے ہیں ان میں مرشد کی تلاش اور پھر اس کی لگائی بوٹی کی مشک کے رنگ ، راہ سلوک میں عاشق کی مشکلات ، دنیا کی ناپاکی اور بے ثباتی ، عشق کی ایمان پہ فضیلت جیسے موضوع نمایاں ہیں۔

آپ نے مغلیہ دور میں بعہد شاہجہان اپنی آنکھ کھولی ، کم عمری میں یتیم ہوگئے ، نسب کے اعتبار سے ہاشمی علوی اور اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔والدہ کے حکم کی تعمیل واسطے گھر سے مرشدکی تلاش کا قصد لیے نکلے ۔آپ شورکوٹ کے جنوب میں واقع گڑھ بغداد میں حضرت حبیب قادری سے مستفیض ہوئے ، وہاں سے حجرہ شاہ مقیم پہنچے وہا ں کے روحانی بزرگ حضرت عبدالقادر سے اکتساب فیض کیا ۔۔پھراپنے مرشد کی ہدایت میں دہلی کا سفر کیا ، وہاں صوفی عبدالرحمان دہلو ی سے علم باطن سیکھا۔

سلطان باہو کلمہ طیبہ کو نفی اور اثبات کا مجموعہ قرار دیتے ہیں ۔آپ خدا کو مسجد اور ملاں کی بحث سے نکال کر انسان کی قلبی واردات پہ منکشف ہونے کی بات کرتے ہیں۔
ایہہ تن رب سچے دا حجرہ پا فقیرا جھاتی ہو
نہ کر منت خواج خضر دی اندر تیں حیاتی ہو
شوق دا دیوا بال انھیرے ، لبھی وست کھڑاتی ہو
مرن تھیں آگے مر رہے جنھاں حق دی رمز پچھاتی ہو

سلطان باہو کو ’’ سروری قادری‘‘ سلسلہ کا بانی مانا جاتا ہے ۔ سلطان باہو اپنے ابیات میں جابجا سلسلہ قادریہ کے سرخیل ’’ شیخ عبدالقادر جیلانی ‘‘ کی عظمت بیان کرتے ہیں اور انہیں روحانیت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں ۔ سلطان باہو اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ میں باہو فقیروں کے حلیے میں شہر بغداد کے اندر ٹکڑے اکٹھے کروں اور’میراں میراں ‘ پکارتا رہوں۔

عموما مخلوق اپنے خدا کے حضورایمان کی سلامتی کی دعا مانگتی ہے مگر سلطان باہو نے اس رویے کی مذمت کی اور گویا ہوئے ،
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ہو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایماں خبر نہ کوئی ہو
عشق سلامت رکھیں باہو، دیاں ایمان دھروئی ہو

سلطان باہو مرنے سے پہلے موت کو پانے کے قائل تھے ۔’موتو اقبل ان تموتو ‘ یعنی فنا ہوجانے سے پہلے اپنی ذات کو فنا کر لینا ہے ۔اس کے مدارج بھی صوفیاء نے متعین کیے ، جن میں فنا فی الذات ، فنا فی الشیخ اور پھر فنا فی اﷲ کا مقام ہے ۔جہاں تک ’موتو اقبل ان تموتو ا‘ کا تعلق ہے اس سے مراد انسان کا اپنے نفس کی خواہشات سے نجات کلیہ پانا اور راہ حق میں واصل الی اﷲ ہوجانا ہے۔

سلطان باہو اپنے عہد کے ایک فقیہ ، متشرع اور عالم تھے ۔ آپ انسان کے دل کو خدا کا مسکن سمجھتے تھے لہذا انسان کی حرمت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔حضرت سلطان باہو ان لوگوں کی مذمت کرتے جو اپنے علمیت اور شیخیت بگھاڑنے کی خاطر اپنے نام کے ساتھ شیخ ، حافظ ، عالم یا دیگر القابات لگاتے ہیں ۔

آپ ایسے مذہب فروشوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے دنیا جہاں کے علم سیکھے مگر حقیقی حرف کو نہ پہنچ سکے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پھٹے ہوئے دودھ سے کبھی مکھن حاصل نہیں کیا جاسکتا ، جو علم صرف اپنے مذہبی حلقے میں خاص رتبہ لینے کی غرض سے حاصل کیا جائے وہ سراسر قصے کہانیاں ہیں ۔

آپ اپنے ایک اور بیت میں کہتے ہیں کہ ملاں اور حافظ پڑھ پڑھ کر تکبر اور اپنی بڑائی چاہتے ہیں ، اور اپنی بغلوں میں یہ لوگ کتابیں ڈالیں گلیوں میں پھرتے ہیں اور دین کو اپنی کمائی اور دھن دولت کی تلاش کے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آج بھی اکیسویں صدی میں مذہب کو پیشہ ورانہ ملائیت کا سامنا ہے ، آخر وہ لوگ جو اس دنیا میں اپنی نمازوں کی اجرت لیتے ہیں وہ آخرت میں پھر اپنا کیا حصہ طلب کریں گے !

’’یار یگانہ میلسی تاں جے سر دی بازی لائیں ہو ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).