سوشل میڈیا اور شجر کاری مہم


پاکستان میں جب سے سوشل میڈیا پر خاص و عام کی رسائی ممکن ہوئی ہے ہم نے بحیثیت قوم جہاں سوشل میڈیا پر بہت سی غیر ضروری ابحاث میں وقت برباد کیا وہیں اسی سوشل میڈیا کے ذریعے کئی تحریکوں نے جنم لیا، کئی اسی سوشل میڈیا کی تیزی میں کہیں گم ہوگئیں اور کئی ایک کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی۔ اسی طرح کی ایک تحریک جس کا آج کل سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس یوم آزادی ہم پاکستان کے جھنڈے اور جھنڈیاں لگانے کے بجائے پاکستان میں شجرکاری کریں۔

اسی سلسلے میں دو تین پوسٹس میری نظر سے گزریں جس میں عوام الناس کو درخت اور پودے لگانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ معلومات اور پودوں کی دستیابی میں معاونت کے لیے فون نمبر بھی مہیا کیے گئے تھے۔ جب میں نے ان فون نمبروں پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ نمبر بند کیے جا چکے ہیں۔ اگر مثبت گمان کرتے ہوئے یہ مان بھی لیا جائے کہ عوام کی جانب سے بہت زیادہ رابطہ کرنے کی وجہ سے یہ نمبر بند کر دیے گئے ہوں یا کچھ منچلوں نے دیے گئے فون نمبروں پر رانگ کالز کی ہوں گی مگر کیا یہ زیادتی نہیں کہ آپ سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹس وائرل کر رہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؟

یاد رہے پاکستان میں اس سے پہلے بھی ماضی کی حکومتوں کے تحت شجر کاری مہم کا آغاز کیا جاتا رہا ہے جس میں عوام الناس بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے بلکہ کئی ادارے اپنے تئیں بھی شجر کاری کرتے آئے ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بلین ٹری سونامی کے منصوبہ کا آغاز کیا اور اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کرنے کا دعوی بھی کیا۔ عین ممکن ہے سوشل میڈیاپر شجر کاری مہم کا مرکزی خیال خیبرپختونخواہ حکومت کے بلین ٹری سونامی سے مستعارلیا گیا ہو۔

بد قسمتی سے جتنے درخت لگائے جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ درختوں کو ٹمبر مافیا کاٹ لیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے بھی بلین ٹری سونامی کا منصوبہ شروع کیا اور ٹمبر مافیا کے خلاف ایکشن بھی بہر طورلیا۔ خیبر پختونخواہ حکومت کے ناقدین نے جس طرح سے ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بلین ٹری سونامی صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود رہا ہے اسی طرح خاکم بدہن مجھے ایسا لگتا ہے یہ شجر کاری مہم صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود نہ رہ جائے۔

میری ناقص رائے میں ہمیں سوشل میڈیا ہی کے ذریعے احباب کو ایک مقررہ جگہ پر کسی بھی چھٹی کے دن اکٹھا کرکے اس شجر کاری مہم کے لیے عملی اقدام کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں جن باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ افرادی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب جگہ کا تعین کیا جائے کہ وہ جگہ کسی کی ملکیت تو نہیں، کیا وہاں پانی کی ترسیل با آسانی ممکن ہے، جس جگہ کا انتخاب کیا جا رہا ہے کیا وہاں کی مقامی آبادی اس شجر کاری مہم میں رضاکارانہ ساتھ دینے پر راضی بھی ہو سکے گی یا نہیں۔ اس کے بعد ہمیں اس بات کا تخمینہ لگانا ہوگا کہ جس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے اس کو شجر کاری کے لیے تیار کرنے کے لیے کتنا وقت اور محنت درکار ہوگی۔

مزید براں شجر کاری کے لیے مختلف اوزار اورپودوں کی فراہمی کے سلسلے میں کم خرچ بالا نشین کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے زمین کو ہموار اور شجر کاری کے لیے تیار کرنے کے لیے اگر تمام اوزار نہ بھی خریدے جائیں تو کسی مالی یا مزدور سے لے لئے جائیں اور اس کو اس کے اوزاروں کے بدلے مناسب اجرت دے دی جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شجر کاری مہم کے لیے ایسے پودوں کا انتخاب کیا جائے جو سخت جان ہوں، سایہ دار ہوں یا پھل دار۔

شجرکاری مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ پودوں کی کاشت ہمارے ہدف کی جانب پہلا قدم ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).