”تسطیر“ کے تیسرے دور کا آغاز، ایک نئی توانائی سے


سہ ماہی ”تسطیر“ کا تازہ شمارہ میرے سامنے ہے۔ یہ ”تسطیر“ کے تیسرے دور کا چوتھا شمارہ ہے۔ جو گزشتہ ایک برس سے نہ صرف باقاعدگی سے شایع ہو رہا ہے بلکہ اس لحاظ سے ایک نئے رِکارڈ کا بھی حامل ہے کہ اس نے ادبی رسائل کے بارے میں اس تصور کو باطل کر دیا ہے کہ انھیں خرید کر نہیں پڑھا جا سکتا، یہ مفت میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ وہ خیال تھا جو ادبی جرائد اور رسائل سے کچھ اس طرح وابستہ تھا کہ اس ضمن میں چند روپے خرچ کر نا بھی پڑھنے والا گناہ تصور کرتا تھا۔ یہی وجہ وقت کے ساتھ مختلف مشکلات کا شکار ہو کر آہستہ آہستہ ادبی پرچے بند ہوتے چلے گئے اور ادب کا وہ قاری جس کی تربیت ان جرائد کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس کی حالت اس جھاڑ جھنکار جیسی ہوگئی، جو تراش خراش کے بغیر بڑھتا پھیلتا چلا جاتا ہے۔

نہ کوئی ضابطہ ادب نہ کوئی ضابطہ اخلاق، ہر کوئی اپنے تئیں عالم، اپنے تئیں استاد۔ رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کر دی، چنانچہ ادب وشاعری ایک نیا تصور لے کر سامنے آنے لگی کہ نئے دور کے ادب کو کتاب اور ادبی رسائل و جرائد کی ہرگز محتاجی نہیں۔ وہ اپنا ظہور انٹر نیٹ، فیس بک، وٹس ایپ اور بلاگز وغیرہم پر با آسانی کر سکتا ہے۔ جہاں اسے نہ تو کسی استاد سے اصلاح کی ضرورت ہے، نہ ہی اس پر کوئی اخلاقی چیک اینڈ بیلنس ہے۔

دوسری جانب وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی منہگائی نے ادبی رسائل کو نکالنا اور انھیں مفت تقسیم کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا۔ وہ پرچے جنھوں نے ادب کی تاریخ رقم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا، وہ بند ہو تے چلے گئے۔ میں یہاں خاص طور پر ”فنون“ اور ”اوراق“ کا ذکر کرنا چاہوں گی، کہ یہ وہ پرچے تھے، جنھوں نے مجھ سمیت تین نسلوں کی تربیت بھی کی اور انھیں آگے بڑھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ”فنون“ اور ”اوراق“ میں چھپنا باعثِ عزت بھی تھا اورباعثِ وقار بھی۔ اگر کسی کی کوئی نظم، غزل، کہانی یا پھر مضمون ان میں چھپ جاتا تھا تو اس کے لیے سند کا درجہ رکھتا تھا۔ سند یہ کہ اسے ادب کے کڑے معیار سے گزار کر نہایت سلیقے سے ادبی حلقے میں شامل کر لیا گیا ہے اور یہ کہ اب وہ اپنا شمار ان صاحب ِ فن اصحاب کی کسی قطار میں کر سکتا ہے، جو حرف کی حرمت اور فن کی قدر جانتے ہیں۔

جب میں نے لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں لاہور، کراچی اور راولپنڈی سے بہت سے معیاری پرچے نکلتے تھے۔ ”فنون“ اور ”اوراق“ کے علاوہ ان میں ”سویرا“، ”ادبِ لطیف“، ”تخلیق“، ”ماہِ نو“ (سرکاری پرچا) اور ”الحمرا“ سرِ فہرست ہیں۔ اس طرح کراچی سے ”تشکیل“، ”سیپ“، ”صریر“، و ”بادبان“ شامل ہیں۔ راولپنڈی سے اکادمی ادبیات کے تحت ”ادبیات“ اور اس کے علاوہ سلطان رشک صاحب کا ”نیرنگِ خیال“ بھی باقاعدگی سے جاری ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ نو شہرہ اور پشاور سے بھی پرچے نکلتے تھے، جن کا ایک لکھنے والے کو باقاعدہ انتطار رہتا تھا۔

میری پہلی کہانی ”سیپ“ میں شایع ہوئی، اور دوسری ”اوراق“ میں۔ ”فنون“ میں ان دنوں ایک کہانی جس کا نام ”ابابیل“ تھا، چھپی؛ جس نے مجھے مزید لکھنے کی تحریک بھی عطا کی اور حوصلہ افزائی بھی کی۔

97ء میں ”تسطیر“ کا ابتدائی خاکہ لے کر نصیر احمد ناصر صاحب جب میرے گھر تشریف لائے تو یہ وہ زمانہ تھا، جب پرانے ادبی جرائد ادب کے وسیع حلقے کے ذوق کو نہ صرف تسکین پہنچا رہے تھے، بلکہ نظریاتی مباحث کے ذریعے امکانات کے نئے جہان کھول چکے تھے۔ نصیر احمد ناصر صاحب جن سے بطور شاعر اور دوست میرے ادبی اور گھریلو تعلقات بہت پہلے سے تھے، انھوں نے ”تسطیر“ کا خاکہ جب میرے سامنے رکھا تو سچی بات ہے، مجھے تھوڑی حیرت بھی ہوئی، کہ بڑے اور قد آور لوگوں کے مستحکم و مضبوط رسائل کی موجودگی میں، میر پور میں بیٹھ کر نصیر صاحب ایسا کیا نیا کر سکتے ہیں، جو ان کا پرچا ان بڑے قد کے پرچوں کے سامنے ٹھہر بھی سکے اور اپنی شناخت بھی قائم کر سکے۔

اس خدشے کا اظہار تو نہ کیا، مگر ایک وہم سا ضرور دل میں رہا۔ نصیر صاحب مگر دھن کے پکے، ان کی سکونت میرپور میں رہی مگر پرچا لاہور سے نکلنے لگا، اور حیرت انگیر طور پر پہلے پرچے کے گیٹ اپ، کونٹینٹ اور غیر رسمی اسلوب نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

دو چار پرچوں کے بعد ہی حال یہ ہوگیا کہ ”تسطیر“ سنجیدہ ادبی حلقوں میں ڈسکس ہونے لگا۔ ان دنوں میں نے ایک کہانی جس کا عنوان بچھڑا ہوا دوست تھا، لکھی اور ”اوراق“ میں بھجوا دی۔ جلد ہی مرحوم ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا معذرتی خط موصول ہوا کہ یہ کہانی ”اوراق“ کی پالیسی کے مطابق نہیں، لہذا ہم اسے شایع نہیں کر سکتے۔ میں نے وہ کہانی اٹھا کر ”تسطیر“ کو بھیج دی۔ اگلے شمارے میں جب وہ کہانی چھپی تو اسے بے حد پسند کیا گیا۔ ڈاکٹر انور سدید مرحوم نے ”تسطیر“ میں خطوط کے گوشے میں اس کی تعریف میں نہایت خوب صورت تبصرہ لکھا اور استفسار کیا کہ آپ نے یہ کہانی ”اوراق“ میں کیوں نہیں بھجوائی؟ جب انھیں یہ پتا چلا کہ آغا صاحب نے اس کہانی کو واپس کر دیا تھا تو انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا، ”تسطیر“ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ترقی پسند بھی چھپتے ہیں اور روایتی ادیب بھی، یہ کسی ادبی گروہ بندی کو خاطر میں لائے بغیر خالصتاً ادب کی خدمت کررہا ہے یہی وجہ ہے اس کی کامیابی اور مقبولیت کی۔

یہ ”تسطیر“ کا پہلا دور تھا، جو 97ء سے لے کر 2005ء تک بنا کسی تعطل کے جاری رہا۔ اس میں بڑے ناموں کی شمولیت تو تھی ہی، مگر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں بھی اس نے ایک خاص کردار ادا کیا۔ پالیسی غالباً یہ کہ وہ نئے لکھنے والے جن میں تخلیقی صلاحیتیں تو موجود ہیں مگر مواقع میسر نہیں، انھیں بہتر مواقع فراہم کر کے سامنے لایا جائے۔ اس ضمن میں تنقید کے باوجود مدیر ”تسطیر“ نے شاعروں خصوصاً نظم کے شاعروں کی ایک ہی وقت میں زیادہ تعداد میں چیزیں چھاپنا شروع کر دیں، تاکہ ان کے تخلیقی اظہار کی مختلف جہتیں سامنے آ سکیں۔ وہ دور اس لحاظ سے بہت اچھا تھا کہ اس میں ادبی مسابقت اگر تھی بھی تو اس کے پیچھے صحت مند رویے تھے، جو ادیبوں کی ایک نئی کھیپ بھی تیار کر رہے تھے اور سماج کے منفی مزاج کو راہِ راست پر لانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔

2005ء میں ”تسطیر“ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ دو وجوہ کی بنا پر نصیر صاحب کی صحت، اور ان کی میر پور سے راولپنڈی شفٹنگ۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ”فنون“ اور ”اوراق“ بھی اپنے آخری ادوار سے گزر رہے تھے۔ آغا صاحب، صاحب ِ فراش ہو کر لاہور منتقل ہو چکے تھے، اور احمد ندیم قاسمی کی علالت کی وجہ سے ”فنون“ کا احوال بھی اس شمع جیسا تھا، جو آخری بار بھڑک کر بجھنے کو تیار ہو۔ پانچ بر س بعد نصیر احمد ناصر نے 2010ء میں ہم دوستوں کے بے حد اصرار پر ”تسطیر“ دوبارہ شروع کیا، کہ اب ”فنون“ اور ”اوراق“ خس و خاشاک ِ زمانہ ہو چکے تھے، اور دیگر ادبی پرچے آہستہ آہستہ شبِ رفتہ کا قصہ ہونے جا رہے تھے۔ لاہور جو ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا، وہاں اب ”فنون“ اور ”اوراق“ کے بعد بہت بڑا ادبی خلا پیدا ہو چکا تھا۔

اب ”تسطیر“ دوسرے عہد میں داخل ہوا، اور حسب ِ سابق اس نے اپنے معیار کو نہ صر ف برقرار رکھا بلکہ نئی توانائی کے ساتھ منطرِ عام پر آیا۔ یاد آتا ہے انھی دنوں عبد اللہ حسین صاحب کو ”تسطیر“ دیکھنے کا موقع ملا، پرچے کے معیار اور کونٹینٹ کو دیکھ کر اس کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا، بھئی یہ پرچا مجھے اتنا اچھا لگا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے میں بھی اس میں کہانی لکھوں۔ نصیر صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے عبد اللہ حسین سے رابطہ کیا اور کہانی کی درخواست کی۔ پڑھنے والوں کو معلوم ہے عبد اللہ حسین کی کہانیاں بہت طویل ہوا کرتی تھیں، مگر انھوں نے بطورِ خاص ”تسطیر“ کے لیے ایک مختصر کہانی لکھی۔ جسے نہایت اہتمام سے ”تسطیر“ نے شایع کیا۔ ( غالباً اس کہانی کا نام ”بیوہ“ تھا)۔

میں سمجھتی ہوں یہ ”تسطیر“ کا اعزاز تھا، کہ اس کے ایک آدھ برس بعد ہی دنیائے ادب کا وہ لیجنڈ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا، جس کا نام عبد اللہ حسین تھا۔ یہ ”تسطیر“ کا دوسرا دور تھا۔ مالی مسائل اور پبلشنگ کی پے چیدگیاں ایک دفعہ پھر آڑے آ گئیں اور دوہی برس کے بعد ”تسطیر“ کو مجبوراً پھر بند کرنا پڑ گیا۔ جس کے بعد ادبی پرچوں کے بارے میں ایک عام رائے تقویت پانے لگی کہ موجودہ دور کاغذ کا نہیں، کتابوں اور ادبی پرچوں کا زمانہ لد گیا۔ یہ آن لائن کا دور ہے، کنڈل اور پی ڈی ایف کا دور، اب ادبی کتابیں اور پرچے بذریعہ انٹرنیٹ نکلتے ہیں۔

جب ایک بٹن دبانے سے مفت کتابیں اور رسائل دستیاب ہوں تو پھر ان مہنگے پرچوں کی کیا ضرورت؟ مگر بات اتنی سادہ نہیں، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اپنی افادیت، مگر کتاب کہ اس کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، اور رہے گی۔ رہے ادبی پرچے تو یہ تشنگی وہی جانتے ہیں جو ان کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ہم دوستوں کا نصیر صاحب سے اصرار گزشتہ سالوں میں چلتا رہا کہ ”تسطیر“ کا کسی نہ کسی طرح اجرا ہونا چاہیے، کہ اچھے ادبی پرچوں کے اس قحط میں اس کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ 2017ء میں ”تسطیر“ کے تیسرے دور کا آغاز ہو گیا، جس کا چوتھا پرچا اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ اس کا گیٹ اپ ضخامت اور معیا ر دیکھ کر دل خوش ہو گیا ہے۔ یہ نظم و نثر کے حوالے سے ایک بھرپور دستاویز ہے۔ تنقیدی مضامین اور غزلوں کا سیکشن بھی بہت جان دار ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ ”تسطیر“ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے، مدیر ”تسطیر“ ہر دفعہ ایسا فکر انگیز اداریہ لکھتے ہیں، کہ اگلا شمارہ آنے تک اہلِ فکر و نظر اس پر اپنی رائے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس دفعہ کے اداریے کا عنوان ملاحظہ ہو، ”نظم میں جدت و قدامت کا قضیہ اور تیسری لہر“۔ یہ تیسری لہر کیا ہے اس پر اگلے شمارے میں یقیناً اظہارِ خیال ہوگا، اور نہایت با معنی ہوگا۔

قارئین! سہ ماہی ”تسطیر“ کا یہ کتابی سلسلہ اب اس قدر باقاعدگی سے چل نکلا ہے، کہ ایک پرچا ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوسرے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس دفعہ کا پرچا بہت بھرپور ہے جس میں حسب ِ سابق نئے اور پرانے لکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد، گلزار، ظفر اقبال، عبد الرشید، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر اقبال آفاقی، ڈاکٹر رفیق سندیلوی، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، محمد الیاس، حمید شاہد، انوار فطرت، پروین طاہر جیسے سینیئر ادبا کے ہم راہ دنیائے ادب کے آسمان پر جگمگانے والی نئی کہکشاں بھی اس میں شامل ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے اور پرانے لکھنے والوں کی شمولیت سے ”تسطیر“ یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کا مقصد صحت مند ادب کی پرموشن بھی ہے اور نئے لکھنے والوں کی تربیت بھی، اور یہ کہ وہ نئے لکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ جگہ دے کر آنے والے دنوں میں ادب کی ایک ایسی فضا استوار کر نے کی کوشش کر رہا ہے، جو اردو زبان و ادب کو نئے عہد کے چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار کرے گی اور نئے موضوعات، استعاروں، تلمیحات اور نظریات کے لیے زمین بھی مہیا کرے گی۔

یہ بات نہایت خوش آیند ہے، ادب کے قاری کے لیے۔ وہ قاری جو کتاب اور ادبی پرچوں کے مستقبل سے مایوس ہو چکا تھا۔ یہی وہ قاری ہے جو ”تسطیر“ کو خرید کر پڑھنے میں پیش پیش ہے کہ وہ جانتا ہے فی زمانہ اگر ادبی پرچے کو کامیابی سے نکالنا ہے تو پھر اس کی مالی معاونت بھی کرنا ہوگی، تا کہ پرچا بنا کسی تعطل جاری رہے۔

اس ضمن میں بک کارنر جہلم کے ادب دوست پبلشر بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد کی کاوشوں کو بھی سراہنا ہوگا، جنھوں نے نہ صرف ”تسطیر“ کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے بلکہ اس کی ڈسٹری بیوشن کا بندوبست بھی نہایت احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔
نصیر احمد ناصر صاحب اور ان کے معاونین کو اتنا معیاری پرچا نکالنے پر دلی مبارک باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).