الیکشن 2018۔ پرویز خٹک کے حلقے کی صورت حال


مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ پچھلے پانچ سال میں تحریک انصاف میں سب سے اہم حیثیت کے حامل، پرویز خٹک کے متعلق مین سٹریم میڈیا میں کوئی ایک بھی صحافی کچھ لکھ کیوں نہیں رہا۔ ایسی بھی کیا بے رخی؟ بات الجھ جائے گی اگر میں وضاحت نہ کروں۔ پرویز خٹک میرے خیال میں پچھلے پانچ سال میں تحریک انصاف میں سب سے اہم بندے اس لئے تھے کہ کچھ کر دکھانے کا عملی میدان اس کے ہاتھ میں تھا۔ عمران خان نےاپوزیشن میں رہتے ہوئے سیاسی فضاء کبھی سرد نہ ہونے دی اور پورا عرصہ نواز حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ خان صاحب نے کرپشن کے خلاف محاذ گرم رکھا اور پورے ملک میں اپنے آپ کو ایک متبادل کی صورت پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اگر چہ پہاڑ ایسی غلطیاں کیں لیکن ملک بھر میں نہ صرف پی ٹی آئی کے کارکنان کو متحرک رکھا بلکہ نواز شریف کی حمایت اور مخالفت میں منقسم پاکستانی سیاست میں جان بھی ڈالے رکھی۔ دھرنا سیاست کی ناکامی کے بعد ملک بھر کے طوفانی دورےکیے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے جلسوں میں کھینچ لانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ خان صاحب جیسے تیسے اپنے ووٹرز کو یہ باور دلانے میں کامیاب رہے کہ آئندہ وزیراعظم وہ ہو سکتے ہیں۔

خان صاحب اپنا کام پوری تندہی سے سرانجام دیتے رہے لیکن دوسری جانب کے پی کے وزیراعلی اپنی ٹیم کے ساتھ وہ تاثر جمانے میں کامیاب نہ ہو سکے جو خان صاحب کی انتخابی مہم کو آکسیجن فراہم کر سکتی تھی۔ پرویز خٹک یونین کونسل کے سطح کی طرزِ سیاست سے اوپر اٹھ نہ سکے۔ پانچ سال میں اگر کوئی کام خٹک صاحب نے پوری دلجمی کے ساتھ کیا تو وہ ہے دھواں خوری۔ وہ بس دھویں کے مرغولے اڑاتے اور اسی سے لطف اٹھاتے رہے۔ آج حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پی کے میں کسی میگا پراجیکٹ کی تکمیل تو کیا حوالہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔

چار سال تک شہباز شریف کی میٹرو کو جنگلہ بس کہتے خان صاحب کم ازکم ایک اصطلاح وضع کرنے میں کامیاب ہوئے کہ اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری زیادہ اہم ہے۔ چار سال گزرنے کے بعد پرویزخٹک کی ضد بلکہ ہٹ دھرمی کے باعث خان صاحب بھی مجبور ہوئے اور یوں پشاور میں اس منصوبے کا آغاز ہوا جس کے متعلق خان صاحب نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ منصوبہ پشاور میں شروع کیا گیا تو وہ اس کی کھلم کھلا مخالفت کریں گے۔ یہی منصوبہ پچھلے ڈیڑھ سال سے اہالیانِ پشاور کے لئے کسی عذاب سے کم ثابت نہیں ہوا۔ کے پی کے میں بجلی کی انقلابی پیداوار اور پاکستان سے باہر اس کی ترسیل کے غبارے سے تو ہوا پہلے ہی نکل چکی تھی۔ اب لے دے کر ایک ہی دعوی بچا ہے کہ ہم نے پولیس کو سیاسی اثر رسوخ سے آزاد کر دیا۔ یہ دعوی اگر چہ اپنے اندر کچھ حقیقت بھی رکھتا ہے لیکن کے پی کے کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس صوبے کی پولیس نہ پہلے مثالی تھی اور نہ آج ہے لیکن یہ ملک کے دوسرے صوبوں کی پولیس کی بہ نسبت شروع سے ہی بہت بہتر تھی۔

ہمارے میڈیا کو اور بھی ٹاپک میسر ہیں خٹک کے سوا، تب ہی تو اس جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو پرویز خٹک نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور یوں اس تبدیلی کو بھی جس کے خواب پاکستان کے عوام نے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ تحریکِ انصاف آدھی جنگ ہار چکی ہے۔ اگر کے پی کے، حکومت پانچ سال جوش وجذبے اور واقعی تبدیلی لانے کی تڑپ کے ساتھ کام کرتی تو آج تحریکِ انصاف کو الیکٹیبلز کے در پر سجدہ ریز ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

پرویز خٹک کے ضلع کی صورتحال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے سینکڑوں کارکن دوسری جماعتوں کا رخ کر چکے ہیں۔ میاں افتخار حسین کو اپنے حلقے میں واضح برتری حاصل ہے۔ پرویز خٹک کے اپنے حلقے میں لوگوں کا خیال ہے کہ مقابلہ اے این پی اور ایم ایم اے کے درمیان ہے۔ تحریک انصاف کے جینون ورکرز پیچھے ہٹ چکے ہیں جبکہ پرویز خٹک کے پرانے ساتھی جنہیں حلقے کے لوگ ”پرویزیان“ کہتے ہیں لوگوں کے غیظ و غضب کا شکار ہیں۔ لوگ انہیں کھری کھری سنا رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ خٹک صاحب کے فرزند اور بھتیجے جو ان کی انتخابی مہم کے نگران ہیں، کو لوگوں نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ بعض مقامات پر لوگوں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ پرویز خٹک کے حریف اے این پی کے شاہد خان خٹک اور جمال خٹک جن کا تعلق پرویز خٹک کے گاؤں سے ہی ہے، اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایم ایم اے کے امیدوار، مرحوم قاضی حسین احمد کے فرزند آصف لقمان قاضی کی الیکشن مہم اگر چہ تاحال پوری طرح شروع نہیں ہو سکی لیکن ایم ایم اے کی بحالی کوئی بھی اپ سیٹ کر سکتی ہے۔

نوشہرہ کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں، کہ پرویز خٹک ہوا کا رخ بھانپ لینے میں ملکہ رکھتے ہیں اور اس کو ہمیشہ غیبی طاقتوں کی مدد بھی حاصل رہتی ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں اپنی سیاست کا آغاز کرنے والے پرویز خٹک، پیپلز پارٹی، جنرل مشرف، دوبارہ پیپلز پارٹی اور اے این پی سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کی چھتری پر آ بیٹھے تھے۔ الیکشن سے پہلے اور بعد میں کسی بھی سٹیشن پر ٹرین تبدیل کرنے میں کبھی تامل کا شکار نہ ہونے والے پرویز خٹک تبدیلی کی ٹرین پر چڑھ کر پھنس چکے ہیں۔ یہ شاید واحد الیکشن ہے جو خٹک صاحب ہوا کے رخ کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کیے بغیر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں۔ اگر چہ نوشہرہ میں عمران خان سے محبت کرنے والے کم نہیں ہوئے لیکن پرویز خٹک سے بیزار لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ الیکشن کی رات ’چمک‘ کی مدد سے پانسہ پلٹ دینے کا حوالہ بھی خٹک صاحب کی پہچان رہا ہے لیکن گمان غالب ہے کہ اس دفعہ ساری تدبیریں الٹی پڑنے کا امکان ہے اور نوشہرہ کے عوام خٹک کے ساتھ وہی کرنے جارہے ہیں جو اُس نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).