بزبان یوسفی: بارے موت کا کچھ بیاں اور منکر نکیر


آخر ہم جی کڑا کر کے مر ہی گئے۔ ظاہر ہے ہم کوئی سیاستدان تو تھے نہیں کہ ہر صورت مرنے کے بجائے شہید ہوتے اور ہر الیکشن پر دھوم دھام سے ہمارا جشن منایا جاتا۔ کم از کم ہم اس درمیانی کیفیت سے نکل گئے جو موت اور زندگی دونوں سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہے یعنی بیماری۔ مرنے کا ایک فائدہ آج معلوم ہوا وہ حسینایئں جن پر جوانی میں ہم مرا کرتے تھے اور وہ ہمیں بالکل لفٹ نہیں کراتی تھی ہمارے حقیقی مرنے پر پھوٹ پھوٹ کر ٹسوے بہا رہی تھیں۔

ایک حسینہ جس کی شکل دیکھ کر کوئی گمان نہیں کر سکتا تھا کہ جوانی میں حسن کبھی اس کے پاس سے بھی گزرا ہو کیونکہ محترمہ بھی ہماری طرح عمر کی اس منزل پر تھیں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ لے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتی ہیں۔ انھوں نے شاندار ایکٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا غش کھایا کہ ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو بس چارپائی سے اٹھ کر دوڑ لگا دیتا۔ کیوں کہ سن رکھا تھا کہ میت پر مکھی بھی بیٹھ جائے تو مرنے والے کو منوں وزن اپنے اوپر محسوس ہوتا ہے۔ اور اس غش کھانے والی حسینہ کا ستر کلو وزن بھلا مرنے والا کہاں سہہ سکتا ہے۔ یہ غش اس مہ جبین نے کہیں جوانی میں کھایا ہوتا تو محترمہ آج ہماری بیوہ کہلوانے کی حق دار ٹھہرتیں۔

پھر ہم نے سوچا دوڑ کر جائیں گے کہاں؟ وہیں واپس اپنے کمرے میں؟ اسی پلنگ پر لیٹنا پڑے گا جہاں پر برسوں سے لیٹے ہم اکتا چکے تھے۔ یہاں تو احباب کا ایک جمگٹھا لگا تھا جو ہمیں بھول چکے تھے وہ بھی آج ملنے چلے آئے۔ ہم نے تو اسی امید میں رحلت پائی ہے کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا محبوب آخری دیدار کو آپہنچے۔ ہمارے کان تعزیت کے لئے آنے والوں کی چپکے چپکے کی جانے والی گفتگو کو سننے کی کوشش میں تھے۔ کیونکہ آنکھ بند ہوتے ہی کیڑے نکالنا ہماری سماجی عادت ہے۔ یہ جملہ تو ہر ایک کی زبان پر تھا کہ لگتا ہے مرحوم نے آب حیات پی رکھا تھا۔ لیکن ہمارے کان یہ جملہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے کہ ”واللہ موت ہو تو ایسی“۔ جی چاہا موصوف کو گھسیٹ کر اپنی جگہ لٹا لوں۔

پھر ہم نے اپنے دماغ کو دنیاوی باتوں سے ہٹا کر منکر نکیر سے سوال جواب کی تیاری کی طرف مائل کیا کہ آخر اب ہم مرحوم ہو چکے تھے اور منکر نکیر کے وہ تمام نجی سوالات کے جوابات جن کے پوچھنے کا حق ہماری نا چیز رائے میں یا بیوی کو ہوتا ہے یا منکر نکیر کو۔ اب ہم سے پوچھے جانے تھے۔ گویا ایک اور دریا سامنا تھا منیر مجھ کو۔ لیکن منکر نکیر یہ نہ جانتے تھے کہ ہم نے بھی ان کے لئے ایک سوالنامہ تیار کر رکھا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ منکیر نکیر زیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لے گے کیونکہ جن علیات و خواہشات و ممنوعات و فاحشات و مغلظات و شہوانیات و عیاشیات کی بنا پر ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے ان کو پورا کرنے کے لئے جملہ ضروریات سے بڑھ کر جس من و سلوی کی ضرورت ہوتی ہے خدا کے فضل و کرم سے اس ناچیز پر کبھی وہ من و سلوی نہیں اترا۔ الحمد ہمارا بٹوہ ہمیشہ بھوکے کے پیٹ کی مانند دبلا پتلا رہا جس نے گھر گرہستی کا ضروری سامان خریدنے کے علاوہ کبھی کسی جنسی یا نفسیاتی یا تصوراتی بے راہ روی کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہ دی۔ اورکم بخت مرزا کی ایمان افروز دھمکیوں اور کچھ ہماری پیدائشی بزدلی نے کبھی کوئی نازیبا خیال بھولے بھٹکے بھی ذہن نارسا میں آنے نہ دیا۔

بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ ہمارے مر جانے میں مرزا کے فلسفہ حیات و ممات کا دخل ہے۔ بیماری کوہمیشہ ایسے دلنشین پیرائے میں بیان کیا، زندہ رہنے کے شدائد اور موت کے فیوض و برکات پر مرزا کی موثر تقاریر نے ایسا اثر کیا کہ ہمارا صحت یاب ہونے کو دل ہی نہیں کیا اور ہم نے جان جان آفریں کے سپرد کردینے میں ہی عافیت جانی۔ رونے والوں سے عرض کرنا چاہی کہ بھائی بفضل خدا ہم بالکل چاق و چوبند ہیں اور اب اس سے زیادہ عمر دراز پا کر گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام شائع نہیں کروانا چاہتے لہذا یہ بے وجہ کی راگنی بند کیجیے لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔

لیکن اس فانی دنیا کے لچھن ہم اچھی طرح جانتے ہیں آج دھاڑیں مار کر رونے والے، فیس بک پر ہماری تصاویر شئیر کرنے والے اور ٹوٹر پر ہمارا ٹرینڈ چلانے والے چند لمحوں بعد یہ بھول چکے ہوں گے کہ بھائی تھا کوئی قلندر جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ ”ہم عہد یوسفی میں جی رہے ہیں“۔ ایدھی صاحب کی برسی پر جو ان کو بھول جائے وہ ہم جیسے نابغہ روزگار کو کہاں یاد رکھے گا۔

دکھ اس بات کا ہے سب نے بڑھاپے کی تصاویر فیس بک پر چڑھائیں۔ مجال ہے کسی نے ہماری جوانی دیوانی کی تصویرلگانے کے بارے میں سوچا بھی ہو جب آتش بھی جوان تھا اور پیشانی اور سر کی حد فاضل بھی نہیں اڑی تھی۔ صرف تصاویر کا ہی گلہ کیوں یہاں تو مداحوں نے یہ تک یاد نہ رکھا کہ پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے، سفید گلاب اور خوشبووں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو ہمیں بہت مرغوب ہے پھر بھی قبر پر سرخ گلابوں کا ڈھیر لگا دیا۔

نوٹ: یہ مضمون یوسفی صاحب کی خدمت میں نذرانہ عقیدت ہے۔ ان کے مضامین کو کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر دل آزاری ہو تو آپ کو تنقید کا پورا حق حاصل ہے۔ مصنفہ۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah