جنرل صاحبان! اس خوف ناک سازش کو بے نقاب کریں


بخدمت جناب چیف آف آرمی سٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی!

اس خاکسار کی آپ تک براہ راست رسائی نہیں اور ہو بھی تو اتنی ہمت کہاں کہ آپ جیسی ہستیوں سے بالمشافہ ہمکلام ہو سکوں۔ گھگھی بندھ جائے گی میری۔ اس لئے بذریعہ تحریر آپ سے مخاطب ہوں۔

یہ کس کے علم میں نہیں کہ پاکستان میں ایک ہی ادارہ  ہے جو ملک کے ساتھ سو فیصد مخلص ہے اور وہ پاکستانی افواج ہیں۔ آپ لوگ ستر برس سے جس اخلاص اور بہادری کے ساتھ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ اور جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو چند برس قبل ایک بین الاقوامی ویب سائٹ نے اسے دنیا کی نمبر ون انٹلیجنس ایجنسی قرار دیا  تھا جس کے بعد سے ہم آئی اس آئی کو فخر کے ساتھ پکارتے ہی نمبر ون ہیں۔ ایک اور تسلیم شدہ امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی افواج کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لیکن اب ایک منظم سازش کے تحت یہ فاصلہ پیدا کیا جا رہا ہے اور اسی سازش کی طرف توجہ دلانا اس تحریر کا مقصد ہے

اس سازش کا ایک جزو کچھ پاکستانی ہیں جو یا تو اپنی کم عقلی کی وجہ سے یا کسی دشمن کے کہنے پر پاک فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاک فوج کو اس تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ پاکستانی عوام کو جعلی تنقید سے گمراہ کرنا ممکن نہیں۔ اس کا اظہار کچھ دن قبل جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں کچھ پاکستانیوں کی تصاویر دکھا کر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ سوشل میڈیا پر کون کیا ہرزہ سرائی کر رہا ہے لیکن ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات اگر صرف اس بے بنیاد تنقید تک رہتی تو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دشمن کی اس سازش کا ایک دوسرا جزو ہے جو بہت خطرناک ہے۔ دشمن نے پاکستان میں کچھ اٹھائی گیر بھیج دئے ہیں جو تنقید کرنے والے ان پاکستانیوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان وارداتوں کو رپورٹ نہیں کرتا لیکن سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا کر دیا جاتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو نمبر ون ایجنسی نے تنقید کی وجہ سے اٹھا لیا ہے۔ مجھ جیسے تو اس پراپیگنڈے کی حقیقت جانتے ہیں لیکن حضور ملک میں کچھ لوگ کمزور ایمان کے بھی ہیں جو اس جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے عوام اور فوج میں فاصلہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ پاک فوج اور نمبر ون ایجنسی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے تقاضوں کے مطابق ان وارداتوں کو پولیس وغیرہ پر چھوڑ دیتی ہے لیکن جناب اس گھناونی سازش کا قلع قمع ان کے بس کا روگ نہیں۔ گزارش بس اتنی سی ہے کہ نمبر ون ان اٹھائی گیروں تک پہنچے اور عوام کے سامنے انہیں بے نقاب کرے تاکہ ناقدین کے منہ بند کئے جا سکیں۔ جس ادارے نے جناح پور جیسی گھناؤنی سازش بے نقاب کی ہو اس کے سامنے ان لوگوں تک پہنچنا کون سی بڑی بات ہے جو ویگو ڈالوں پر دن دہاڑے لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں؟ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ نمبر ون ایجنسی پاکستان میں گھسے ان اٹھائی گیروں کو ان کے انجام تک پہنچائے۔

ایک اور افسوسناک پہلو اس صورت حال کا یہ ہے کہ جو اٹھائے گئے وہ تو خیر اٹھائے ہی گئے، جو نہیں اٹھائے گئے ان پر بھی اٹھائے جانے کا خوف طاری ہے۔ میرے ایک دوست نے تو اٹھائے جانے کے خوف سے خود کو گھر میں قید کر لیا ہے حالانکہ اسے اٹھانے کے لئے ویگو ڈالے کی نہیں ویگو کرین کی ضرورت ہو گی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا یہ مناسب ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کے باشندے دشمن کے بھیجے چند اٹھائی گیروں سے ڈرتے پھریں؟ یوسفی زندہ ہوتے تو کہتے کہ ایسی ایٹمی طاقت کے لئے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔ سو جس طرح آپ لوگوں نے خطرناک جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کر کے اس کے نیٹ ورک کا شیرازہ بکھیر دیا اسی طرح ان اٹھائی گیروں اور لیپ ٹاپ چوروں کو پکڑ کر بے نقاب کریں۔

لمبی بات کرنے کی عادت مجھے نہیں اور ویسے بھی اس لسی میں مزید پانی نہیں ڈالنا چاہئے لیکن ایڈیٹر کہہ رہا ہے کہ اتنا مختصر مضمون شایع نہیں کیا جا سکتا تو چلیں ایک ایسی بات کرتا ہوں جس کا ابھی تک لکھے اس مضمون سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ کچھ چیزیں ایک کتاب سے جو میں نے حال ہی میں پڑھی ہے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ مصنف کا نام میں نہیں بتاؤں گا کیونکہ امکان ہے کہ اس کا نام سن کر حضور تیوریاں چڑھا لیں گے اور جو میں عرض کرنے والا ہوں اسے نظر انداز کر دیں گے حالانکہ حسین حقانی نے یہ تمام باتیں حوالوں کے ساتھ لکھی ہیں جنہیں میں اور آپ بآسانی خود دیکھ سکتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی جرمنی کمیونسٹ ریاست تھی اور ان کی ایک خفیہ ایجنسی سٹاسی (Stasi) کے نام سے ہوا کرتی تھی۔ کام اس کا ملک میں کمیونسٹ ریاست کے خلاف عوامل کی بیخ کنی تھا۔ سو آپ کہہ سکتے ہیں کہ سٹاسی ریاست کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ تھی۔ سٹاسی کمیوںزم کے مخالفین کو عوام سے دور رکھتی اور ریاست میں معلومات کے بہاؤ کو اپنے کنٹرول میں رکھتی تھی۔ سٹاسی کمیونسٹ پراپیگنڈہ کرنے کے علاوہ اپنے شہریوں کی جاسوسی بھی کرتی تھی اور جس پر شک گزرتا اسے اٹھا کر اسے اس کی نانی یاد دلا دیتی۔ انیس سو نوے میں سٹاسی کے افسروں کی تعداد ایک لاکھ دو ہزار تھی۔ اگر سٹاسی کے مخبروں کی تعداد کو بھی اس تعداد میں شامل کر لیا جائے تو مشرقی جرمنی کی ایک کروڑ ستر لاکھ کی آبادی میں ہر سات میں سے ایک شخص کا تعلق سٹاسی سے تھا۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی سٹاسی دیوار برلن کے انہدام اور کمیونسٹ ریاست کی تحلیل کو نہ روک سکی کہ تاریخ کے دھارے کے سامنے جبر کی دیواریں نہیں ٹھہرا کرتیں۔

اور آخر میں ایک اور قطعی غیر متعلقہ بات۔ ریاست کی اصل طاقت فوج، ایجنسیاں اور ہتھیار نہیں ہوا کرتے۔ ان چیزوں کو طاقت سمجھنے والی ریاست بظاہر تو مضبوط نظر آتی ہے لیکن جب بکھرنے پر آتی ہے تو چاہے وہ سوویت یونین جیسی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو، دنوں میں بکھر جاتی ہے۔ نہ فوج اسے بکھرنے سے بچا سکتی ہے، نہ کے جی بی جیسی ایجنسی اور نہ ایٹمی ہتھیاروں کا انبار۔ جدید ریاست کی اصل طاقت اس کے عوام اور عوام میں اپنی ریاست کے لئے احساس ملکیت ہوتا ہے اور اس احساس کی وجہ سے ریاست اندرونی خطرات سے بے نیاز ہوتی ہےْ۔ریاستی اداروں کے ہاتھوں شہری آزادیوں کے پامال ہونے سے عوام میں یہ احساس ملکیت ختم ہو جائے تو ریاست اپنی اصل طاقت کھو بیٹھتی ہے۔ ایسی صورت میں ریاست کی دیوار میں پڑی ایک چھوٹی سی دراڑ اس کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔

 

شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).