ریحام خان کی کتاب کیوں لیک ہوئی؟


کیا آپ نے کبھی بلیک میلنگ کا سامنا کیا ہے‘ ایسی بلیک میلنگ جس کا نتیجہ آپ کی ذاتی رسوائی ہو؟ اس سے بچنے کے لیے عام طور پہ دو کام کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا کام یہ کہ بندہ دنیا چھوڑ کے دوردراز علاقوں میں چلا جائے‘ کہیں جنگلوں میں بسیرا کر لے یا پہاڑوں میں ٹھکانہ کرے۔ دوسرا کام یہ ہو سکتا ہے کہ خود کشی کر لی جائے ”نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا پوسی‘‘‘۔
ایک تیسرا کام بھی ہوتا ہے‘ لیکن اس کی شرح بہت کم ہے‘ بہت کم لوگ ایسا حوصلہ کر پاتے ہیں۔ وہ یہ کہ بلیک میل کرنے والا جن رازوں اور خفیہ معلومات کو بنیاد بنا کر آپ کو پریشان کر رہا ہے‘ وہی سب چیزیں کھول کر دنیا کے آگے رکھ دی جائیں۔ سب کے سامنے نہ بھی رکھیں تو کم از کم ان لوگوں کو بتا دی جائیں‘ جن کے شدید رد عمل کا خطرہ ہے۔
اس سے ہو گا یہ کہ جو کام کل کسی اور نے کرنا ہے‘ اور پتہ نہیں کب کرنا ہے اور نامعلوم کتنے عرصے تک آپ کو سولی پہ ٹانگے رکھنا ہے‘ اس سب پریشانی اور خوف سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ اس سے ایک اضافی فائدہ یہ بھی مل سکتا ہے کہ جن لوگوں (گھر والوں یا قریبی احباب) کو آپ وہ تمام راز بتائیں گے‘ وہ آپ کی پریزنٹیشن کی وجہ سے اتنے شاک میں نہیں آئیں گے۔ آپ تمام ضروری وضاحتوں‘ صفائیوں اور ثبوتوں کے ساتھ خود اپنی بات زیادہ بہتر طریقے سے احباب تک اس سے پہلے پہنچا سکتے ہیں کہ دوسرا کوئی بلیک میلنگ کا شوقین وہی باتیں مرچ مصالحہ لگا کر بتائے۔
کمزور گھڑی ہر انسان کی زندگی میں آتی ہے۔ وہ کام جسے عام انسانی اخلاق ‘او کے‘ نہ کرے وہ بھی ہم سے اکثر لوگ کبھی نہ کبھی کر ہی لیتے ہیں۔ مسئلہ وہاں ہوتا ہے جب ان سب چیزوں کو بنیاد بناتے ہوئے کوئی آپ کو ڈرائے کہ استاد میرا فلاں کام کر دو ‘ورنہ یہ پڑے راز اور یہ رہے ثبوت‘ ایسی تیسی پھیر دی جائے گی ۔ بھلے آپ ان سب اخلاقی معیاروں سے اتفاق نہ کرتے ہوں‘ لیکن جب بات پبلک لائف کی آتی ہے تو بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔
اوپر سے آپ لیڈر بھی ہوں‘ الیکشن بھی قریب ہوں اور تلوار بھی سر پہ لٹکی ہو۔ اس صورتحال میں عمران خان اور تحریک ِانصاف نے جو طریقہ استعمال کیا‘ اس کی داد جتنی بھی دی جائے کم ہے۔
دوسروں کو تو جانے دیں خود ریحام خان بھی اس بات پہ خوش ہوتی نظر آئیں کہ حمزہ علی عباسی کی صورت میں تحریک ِانصاف خود اپنے لیے رسوائی کا سامان کھڑا کر رہی ہے‘ لیکن یہ نہایت خوبصورتی سے کھیلی گئی ‘ایک سیاسی چال تھی۔ ریحام خان کی کتاب میں جس قدر رسوا کن مصالحہ ہو سکتا تھا‘ وہ سب تحریک ِانصاف نے مختلف طریقوں سے میڈیا کے آگے خود لا کے رکھ دیا۔
کبھی حمزہ عباسی نے ٹوئٹس کیے‘ کبھی وہ بارہ فٹ لمبا لیگل نوٹس گردش کروایا گیا‘ جس میں پوری کتاب کی سمری لکھی ہوئی تھی‘ کبھی میڈیا کے اہم نمائندوں کو اس کتاب کے چیدہ چیدہ صفحے بھیجے گئے‘ کبھی اخباروں کے دفاتر میں انکشافات سے بھری ای میلز آئیں‘ سب کچھ ہو گیا‘ تو اب چاروں طرف سناٹا ہے۔ کدھر گئی کتاب؟ کہاں گیا وہ لیگل نوٹس؟ اور سوال یہ کہ تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کیا اتنی فارغ تھی کہ ایک ایسی کتاب پر نوٹس بھیجا گیا ‘جو ابھی چھپی ہی نہیں ؟
کیا پیدا ہونے سے پہلے کسی ملزم پہ مقدمہ چل سکتا ہے؟ کیا نیت کو بنیاد بنا کر کہیں لیگل نوٹس بھیجا جا سکتا ہے؟ کیا چھپنے سے پہلے کسی کتاب کا فرضی مسودہ ضبط ہو سکتا ہے؟ تو بس جو بھی ہوا بڑا ہی شاندار ہوا اور باکمال ہوا۔
پوری کتاب میں سے چن چن کر وہ سب واقعات الگ کیے گئے‘ جن سے عمران خان یا ان کے قریبی لوگوں کی شہرت کو خطرہ ہو سکتا تھا۔ وہی سب باتیں لوگوں کے آگے رکھ دی گئیں کہ لو بھئی ‘ چیزے‘ لو‘ تبصرے کرو‘ سرخیاں بناؤ‘ ٹاک شو گرماؤ۔ سب کچھ ہو گیا‘ اب کیا ہے؟ اب ٹھنڈ ہے۔
کتاب کا سارا زہر نکل گیا۔ اب چاہے وہ الیکشن سے پہلے آئے یا بعد میں آئے‘ چاہے ثبوتوں کے ساتھ آئے بھلے ثبوتوں کے بغیر آئے‘ جو ہونا تھا وہ تو پہلے ہو چکا‘ اب جو کچھ ہو گا بھی وہ ضمنی ہو گا‘ جسے آسان زبان میں آفٹر ایفیکٹس کہہ سکتے ہیں۔
اگر ریحام خان اس کتاب کی بنیاد پر عمران خان کو الیکشن میں نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتی تھیں تو وہ گیم اب صفائی سے ختم کر دی گئی۔ کتاب بالفرض آ بھی جاتی ہے ‘تو نیا کیا ہو گا؟ اس کے تمام موضوعات کی فہرست تک تو پہلے ہی پبلک کی جا چکی ہے‘ اس پر ٹھیک ٹھاک تبصرے بھی ہو گئے‘ جس نے جو کہنا تھا کہہ لیا‘ اب نیا کیا ہو گا؟
ویسے آپس کی بات ہے‘ فرض کریں کوئی لیڈر ہے‘ آپ کو بہت زیادہ پسند ہے‘ آپ اس کے شدید فین ہیں‘ قسمت آپ کو موقع دیتی ہے تو آپ اس کے قریب بھی ہو جاتے ہیں‘ کیا آپ کسی دن بیٹھے بٹھائے ایسا ٹوئٹ کر سکتے ہیں کہ فلاں کتاب جو ابھی نہیں چھپی ‘اس کے اندر میرے لیڈر پہ یہ سارے شرمناک الزامات لگائے گئے ہیں اور میں اس کتاب لکھنے والی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں؟
کیا آپ کوشش نہیں کریں گے کہ یار مٹی پاؤ‘ جب سامنے آئے گی تو دیکھا جائے گا‘ ابھی سے شور کیوں مچائیں؟ اور شور بھی ایسا کہ جس سے خود اپنی جگ ہنسائی ہو؟
ایسا ورلڈ کلاس کام اسی وقت ہوتا ہے جب پیچھے سے پوری ٹیم کی سپورٹ ہو ۔ اسے فرنٹ فٹ پہ کھیلنا کہتے ہیں‘ جو تحریک ِانصاف کھیل گئی۔ رہا عمران خان کا سوال تو سیاسی معاملات پہ وہ جو مرضی کہتے رہیں‘ اپنی نجی زندگی کے بارے میں ان کی زبان سختی سے بند رہتی ہے اور اب تک کے حالات میں یہ واحد بات ہے ‘جو زبردست طریقے سے انہیں سنبھالے ہوئے ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نجی زندگی کے خلاف اٹھائی گئی ہر مہم ناکام ہوتی ہے ‘کیونکہ وہ پرسنل معاملات میں جواب در جواب پہ یقین نہیں رکھتے‘ اور جہاں رکھتے ہیں وہاں ہارڈ ٹاک والا انجام ہوتا ہے۔
اس سارے قصے میں ایک بات اور کھل کے سامنے آ گئی کہ عمران خان کے ساتھ بھی اب وہی ہونے والا ہے ‘جو ان سے پہلے کی جمہوری حکومتوں کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ تمام تبصرہ نگار جو عمران خان کو قوم کا آخری نجات دہندہ سمجھتے تھے‘ وہ اپنی کشتیاں الگ چلاتے ہوئے کیوں نظر آ رہے ہیں؟
اس وجہ سے کہ عمران خان بالآخر سیاست کی نبض پہ ہاتھ رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ جس چیز سے بلیک میلنگ کا خطرہ تھا‘ اس کا تاثر زائل کر چکے ہیں۔ مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صحیح گھوڑوں پہ انویسٹ کر چکے ہیں (بہرحال جمہوری طور طریقے یہی ہیں) تو ایک ایسا سیاستدان جو انتخابات کے ذریعے کامیاب ہو کر سیاسی میدان میں آنے کے لیے بضد ہو اسے کیا اس کی اوقات میں نہیں رکھا جائے گا؟
زیادہ تفصیل سے سمجھنا ہے تو طاہر القادی صاحب کے بیانات دیکھ لیں۔ ایک بندہ جو کسی جمہوریت جیسی چیز پہ یقین ہی نہیں رکھتا‘ جو الیکشنز کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہے‘ جو دھرنوں میں عمران خان کا سنگی ساتھی تھا‘ وہ آج ان کے خلاف بیان در بیان دے رہا ہے‘ کیوں؟ اسی لیے کہ پلان سے زیادہ منافع اگر کسی شیئر ہولڈر کو ملتا نظر آ جائے‘ تو اسے قابو کرنا ضروری ہوتا ہے‘ ورنہ بزنس خراب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
متوقع ‘ ہنگ پارلیمنٹ‘ کے لیے ریحام خان کی وہ کتاب آخری گوٹیوں میں سے ایک تھی۔ اسے تو کامیابی سے تحریک انصاف نے خود کھیل لیا۔ ٹیریان وائٹ والا جو معاملہ افتخار چوہدری صاحب نے اٹھایا‘ وہ بھی بڑے مناسب وقت پر اٹھ گیا۔
ممکنہ ذاتی سکینڈلز کی مہم سے عمران خان بڑی خوبصورتی سے باہر نکل چکے ہیں۔
‘ الیکشن میں اب بھی مہینہ پڑا ہے‘ مزید ایک ماہ بعد لوگ ویسے بھی کافی کچھ بھول جائیں گے‘ یاد صرف وہ رکھیں گے جن کا پلان چوپٹ ہوا ہے اور یہ غالباً سیاست کے ان پرانے کھلاڑیوں نے کیا ہے‘ جو عمران خان کے نزدیک جلوہ افروز رہتے ہیں۔
حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain