سشما سوراج نے نفرت انگیز ٹویٹس ری ٹویٹ کیوں کیے؟


سشما سوراج

انڈیا میں ایک مسلمان شخص سے شادی کرنے والی ہندو خاتون کا پاسپورٹ تنازع کا باعث بن گیا ہے اور اس سلسلے میں انڈیا کی وزیر خارجہ اور بی جے پی کی اہم رہنما سشما سوراج کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جبکہ سشما سوراج نے قابل اعتراض ٹویٹس کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اتوار کو انھوں نے ایسے چند ٹویٹس کو ری ٹویٹ کیا ہے جس میں ان کے خلاف بدزبانی کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جس دوران پاسپورٹ پر تنازع ہوا تھا اس وقت وہ بیرون کے دورے پر تھیں۔

انھوں نے لکھا: ’میں 17 سے 23 جون کے درمیان انڈیا سے باہر تھی۔ میری غیر موجودگی میں کیا ہوا مجھے معلوم نہیں۔ بہر حال مجھے چند ٹویٹس سے نوازا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کو میں آپ کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں۔۔۔‘

اس کے بعد سشما سوراج نے کچھ ٹویٹس کو ری ٹویٹ بھی کیا جن میں ایک کیپٹن سربجیت ڈھلن نامی ٹوئٹر ہینڈل سے 21 جون کو کیا جانے والا ٹویٹ شامل تھا۔

اس ٹویٹ میں لکھا تھا: ’وہ (سشما) تقریباً مردہ خاتون ہیں کیونکہ وہ صرف ایک گردے کے سہارے جی رہی ہیں (وہ بھی کسی دوسرے سے مانگا ہوا ہے) اور وہ کسی بھی وقت کام کرنا بند کر سکتا ہے۔‘

کیپٹن ڈھلن کا یہ ٹویٹ دراصل رودر شرما کے ایک ٹویٹ کے جواب میں تھا۔ رودر شرما نے لکھا تھا: ’یہ عورت سشما سوراج نریندر مودی کو بھی ٹویٹر پر فالو نہیں کرتی۔ یہ اپنی ایک سیکولر تصویر بنانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اگر سنہ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی ہے تو وہ کچھ نقلی سیکولرز کی مدد سے ملک کی وزیر اعظم بن سکے۔ وکاس مشرا کے خلاف ایکشن اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔‘

وزیر خارجہ نے ایک اور ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا۔ یہ ٹویٹ اندرا باجپئی نے کیا تھا: ’متعصبانہ فیصلہ۔ میڈم آپ پر ہمیں شرم آتی ہے۔۔۔ کیا یہ آپ کے اسلامی گردے کا نتیجہ ہے؟‘

اس ٹویٹ میں ISupportVikasMishra# کا استعمال کیا گیا تھا۔

تنازع کی کہانی کیا ہے؟

دراصل وکاس مشر اترپردیش کے پاسپورٹ محکمہ کے وہ افسر ہیں جنھوں نے کچھ دن پہلے مبینہ طور پر ایک جوڑے کو ان کے مذہب کی بنیاد پر پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تنوی سیٹھ نامی خاتون نے الزام لگایا تھا کہ لکھنؤ کے پاسپورٹ آفس میں تعینات افسر نے مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ تصب برتا ہے۔

تنوی کے خاوند انس صدیقی نے میڈیا کو بتایا کہ ان سے مذہب تبدیل کرنے اور شادی کے لیے پھیرے لینے کو کہا گیا تھا۔

تنوی نے سشما سوراج کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا جس کے بعد پاسپورٹ آفس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے انھیں پاسپورٹ جاری کیا۔

تنازع میں ملوث پاسپورٹ آفیسر وکاس مشرا نے میڈیا کے سامنے وضاحت کی: ’میں نے تنوی سیٹھ سے نكاح نامے میں درج نام سعدیہ انس لکھنے کے لیے کہا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ ہمیں سخت جانچ کرنی ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ کوئی نام تبدیل کرکے پاسپورٹ تو نہیں حاصل کر رہا ہے۔‘

ان الزامات کے بعد وکاس مشرا کا لکھنؤ سے گورکھپور تبادلہ کر دیا گیا۔

سشما سوراج کے خلاف مہم

اس کے بعد سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث شروع ہو گئی اور لوگ دو دھڑوں میں منقسم نظر آئے۔ کچھ سشما سوراج کی ٹوئٹر کے ذریعے فوری کارروائی کی تعریف کر رہے تھے تو بہت سے لوگ ان پر جانبدار رویہ اپنانے اور وکاس مشرا کے ساتھ مبینہ ناانصافی کے خلاف لکھ رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر بعض ہندو گروہوں نے وکاس مشرا کی حمایت میں ایک مہم چھیڑ دی جس کے تحت فیس بک پر سشما سوراج کے صفحے کو منفی ریٹنگ دی گئی اور ٹوئٹر پر سشما سوراج پر مسلمانوں کو آسودہ خاطر کرنے کا الزام لگایا جانے لگا۔

اسی دوران حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس نے سشما سوراج کی حمایت میں ٹویٹ کیا کہ ’خواہ معاملہ یا حالات جو بھی رہے ہوں کسی بھی دھمکی، تشدد، بے عزتی یا گالی گلوچ کا کوئی جواز نہیں۔ سشما سوراج جی، ہم آپ کے فیصلے کی تعریف کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی پارٹی کے ٹرولز کا جواب دیا۔‘

خیال رہے کہ سشما سوراج سوشل میڈیا پر بہت فعال ہیں۔ فیس بک پر تقریباً 30 لاکھ افراد ان کے صفحے سے منسلک ہیں جبکہ ٹو‏ئٹر پر تقریباً ایک کروڑ 18 لاکھ لوگ انھیں فالو کرتے ہیں۔

سشما سوراج ٹوئٹر کے ذریعے عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی معروف ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے کئی لوگوں کی علاج کے سلسلے میں مدد کی ہے جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گيا ہے۔

سنگھ صاحب کے ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا: ’میں نے بھی لمبے عرصے تک ویزا ماتا (سشما سوراج کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ لقب انھیں دیا گیا) کو ٹوئٹر پر فالو کیا۔۔۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی ہندو کے ٹویٹ پر انھوں نے اس کا کوئی مسئلہ حل کیا ہو۔۔۔ لیکن مسلم چاہے وہ پاکستان کا مریض ہو اور ٹویٹ پر ویزا مانگ لے تو ویزا ماتا حاضر۔۔۔‘

سوشل میڈیا پر سشما سوراج کی ایک تصویر بھی گردش کررہی ہے جس میں انھیں مدر ٹریزا کے انداز میں دکھایا گیا ہے اور دل سے پاکستان کی روشنی پھوٹ رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ لکھا ہے: ’میرا صرف ایک کام۔ انڈیا کی وزارت خارجہ میں بیٹھ کر پیارے پاکستانیوں کو ویزا تقسیم کرنا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp