میجر ڈپریشن: وجوہات، علامات، تشخیص اور علاج


ہم اکثر اپنی روزمرہ زندگی میں ”ڈپریشن‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اداسی و مایوسی کی کیفیات کو بآسانی ڈپریشن کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں، مثلاً خاندان میں کسی سے رنجش ہوگئی، بچے کا نتیجہ خراب ہورہا، کوئی بیمار پڑ گیا یا کوئی اور بات، حالانکہ یہ کیفیات عارضی ہوتی ہیں اور اپنے وقت سے چلی جاتی ہیں تاہم افراد جو حقیتقاً اس مرض میں مبتلا ہیں اور اکثر اپنی کیفیت کی سنگینی سے آگاہ ہی نہیں ہوتے اور کسی طبی مدد کے بغیر خاموشی سے اس کو جھیلتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر بہت ہی شدید مثلاً خودکشی بھی ہوسکتا ہے۔

میجر ڈپریشن جس کو اکثر یونی پولر (Unipolar Depression) یا کلینیکل ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے، ڈپریشن کی ایک شکل ہے جو اکثر کسی اہم فرد، شے یا خود اپنے مخصوص کردار کے کھو جانے کے شدید ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کا اثر کم ازکم دو ہفتوں سے لے کر مہینوں بلکہ سالوں تک جاری رہ سکتا ہے اور انسانی ذہن، سوچ اور روئیے کو شدید قسم کی بے حسی پر مائل کرتا ہے۔

(رابعہ کی کہانی)

رابعہ کے شوہر اکبر کی وفات کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم اس کے آنسو ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ کسی خوشی میں شرکت کا تصور اس کے لئے محال ہے۔ گو اس کے شوہر کا دل سالوں سے بہت کم کام کررہا تھا، پھر گردوں میں کینسر کی تشخیص نے حالت مزید دگرگوں کردی۔ 10 سال سے رابعہ کی زندگی کا محور شوہر اور اس کی تیمارداری تھا۔ اسے ایک لمحہ کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ شوہر کی موت نے اس کی زندگی کا اہم ”تیمار دار‘‘ کا کردار چھین لیا۔ شوہر کا صدمہ ایک طرف مگر اس کیخدمت گزاری اس کیزندگی کا محور تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔ گویا وہ اب دو موتوں کو جھیل رہی ہے، شروع میں لوگوں نے اس کیدلجوئی کی مگر آہستہ آہستہ سب اس کیزود حسی سے بیزار ہوچلے تھے۔ رابعہ اب دنیا کی بے حسی اور خودغرضی پر بھی نالاں ہے۔ اس کو علم نہیں لیکن وہ ان حالات کے نتیجے میں میجر ڈپریشن سے گزر رہی ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔

(شہناز کی کہانی)

شہناز کی زندگی ان بہت سے افراد کی زندگی سے مشابہ ہے کہ جنہوں نے کسی نہ کسی وجہ سے تارک الوطن ہونے یا ہجرت کا فیصلہ کیا اور اکثر کا پڑاؤ شمالی امریکہ ہے۔ شہناز کا تعلق اعلیٰ متوسط، پڑھے لکھے، روشن خیال اور کسی حد تک مشہور گھرانے سے ہے۔ پاکستان کے طبقاتی سماج میں اس کی ایک شناخت تھی جس کو کھو کر گمنامی کی دنیا میں آنا اس کا بخوشی فیصلہ نہیں مجبوری تھی۔ یہ فیصلہ اس وقت مجبوراً ہوا کہ جب اس کے چھوٹے بیٹے کی پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نے غفلت برتی، نتیجتاً بچہ ذہنی معذوری کا شکار ہوگیا جس کے بہتر علاج کے لئے ملک کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گویا شمالی امریکہ میں شہناز کے بچے کو تمام سہولیات میسر ہوگئیں لیکن اس کی قیمت شہرت، دولت اور شناخت کے کھو دینے کے صورت میں ادا کرنی پڑی۔ یہاں کوئی نہ اسے پہچانتا ہے نہ اس کی پرواہ کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں کیا تھی۔ اس کا احساس شہناز پر اتنا شدید ہے کہ وہ اِکا دُکا فرد کے علاوہ تمام پاکستانیوں کیخلاف منفی جذبات زہریلی گفتگو کی صورت میں اگلتی رہتی ہے۔ اپنے چند منفی تجربات کی بنیاد پر وہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتی ہے، ہر نئے ملنے والے سے وہ ان مشہور شخصیات سے مراسم کاذکر کرتی ہے جو بقول اس کے ”دن رات کے ملنے والے‘‘ تھے۔

وہ لاکھ اپنی ماضی کی شناخت کا ذکر کرے، لوگ اس کے لہجے کی ترشی اور تلخی سے دور بھاگ جاتے تھے۔ شہناز اکثر شدید غم کے دوروں سے گزرتی ہے، روتی ہے، بے چین اور چڑچڑی اوربے خوابی کا شکار رہتی ہے۔ اس کا وزن بڑھتا جا رہا ہے اور مایوسی کے عالم میں وہ اس خودغرض، مطلبی اور پیسے کی طلبگار دنیا کو چھوڑ دینے کا بھی سوچتی ہے تاہم باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے وہ کسی پروفیشنل مدد سے گریز کرتی ہے کیونکہ ذہنی بیماریاں ایشیائی معاشرے میں تہمت سے کم نہیں۔

میجر ڈپریشن کیا ہے؟

نیشنل الائنس آف مینٹل الینسیز (NAMI) کے مطابق ”ایسی سنگین ذہنی کیفیت کا نام ہے جو سالانہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ 5.8 فیصد بالغ امریکی افراد کو متاثر کرتی ہے۔ اتنی عام ہونے کے باوجود یہ بیماری بچوں اور بوڑھوں میں بالخصوص، تشخیص اور شناخت کے بغیر ہی رہ جاتی ہے۔ روزمرہ گزرنے والی زندگی سے وابستہ یاسیت اور مایوسی کی عارضی کیفیت کے برخلاف اس کا دورانیہ طویل عرصہ پر محیط ہوسکتا ہے (کم از کم دو ہفتہ) ڈپریشن کی یہ کیفیت انسانی ذہن، فکری رویہ، روز مرہ کے امور کی انجام دہی اور جسمانی صحت کو واضح طور پر متاثر کرتی ہے اور دوسری تمام طبی بیماریوں کے مقابلے میں انسانی معذوری کا سب سے اہم سبب ہے۔ اگر مناسب علاج اور تدارک نہ ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ کیفیت میں زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعض افراد زندگی میں محض ایک دفعہ ہی اس کیفیت سے گزرتے ہیں جبکہ بقیہ افراد زندگی میں بار بار اس کیفیت کو جھیلتے ہیں، خصوصاً صبح کے وقت، مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں اس کے واقع ہونے کے امکانات دوگنے ہیں۔

علامات:۔

ڈی ایم ایس فور (VI) DMS کے مطابق جو ذہنی صحت کی حالت کی تشخیص کے حوالے سے سب سے اہم اور مستند کتاب ہے، نہ صرف اداسی بلکہ دوسری علامات بھی ہیں جو ڈپریشن کی صورت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ مندرجہ ذیل علامات میں سے اگر کم از کم پانچ علامات آپ میں ہوں تو مناسب ہے کہ معالج سے رجوع کریں۔

۔ 1 مستقل اداسی، جھنجھلاہٹ، بے کلی اور بے چینی کی کیفیت۔
۔ 2 جسمانی توانائی کم ہونے یا تھکن کا احساس۔
۔ 3 اپنی بے وقعتی، احساس کمتری اور احساس پشیمانی اور جرم کی کیفیت۔

۔ 4 سوچیں مرتکز کرنے، یاد رکھنے اور قوتِ فیصلہ کی صلاحیت کا مفقود ہوجانا۔
۔ 5 ان تمام مشغولیات کہ جن سے دلچسپی تھی، توجہ کا یکسر ختم ہوجانا کہ جس کو طبی اصطلاح میں Anhedonia بھی کہا جاتا ہے۔
۔ 6 نمایاں طور پر وزن میں کمی یا زیادتی (ایک ماہ میں پانچ فیصد) کا ہونا۔

۔ 7 گاہے بگاہے موت یا خودکشی کی سوچوں کا غلبہ ہونا۔
۔ 8 باجود علاج کے کسی جسمانی تکالیف کی علامت مثلاً سر کا درد، بدہضمی یا دائمی درد کا نہ ہوٹھیک ہونا، نیند کی قدرے کمی یا زیادتی، نا امیدی، بے بسی اور خالی پن کا شدید احساس ہونا اور بلاوجہ رونا۔

جب ان علامات میں سے کم از کم پانچ ڈیپریسیوالنس (یا میجر ڈپریشن) کی علامت (ان میں اداسی اور کسی شے میں دلچسپی کا ختم ہوجانا لازمی ہے) کم از کم دو ہفتے بیک وقت ظاہر ہوں اور آپ کی روزمرہ کی زندگی پر اثرانداز ہوں تو علاج کرانا ضروری ہے۔ پہلی بار ظاہر ہونے والی اس کیفیت کو چاہے علامات شدید ہوں یا معمولی، ہرگز نظرانداز نہ کریں۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2