پچیس جولائی اور جوان ووٹ۔۔۔


الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 25جولائی دو ہزار اٹھارہ میں جو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس میں چار کروڑ چوبیس لاکھ یعنی 44 فیصد ووٹرز ایسے ہوں گے جن کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہوں گی۔ یہ اعداد و شمار نئی مردم شماری کی بنیاد پر سامنے آئے ہیں۔ ان میں 15فیصد ووٹرز کی عمریں 18سے 25 سال کے درمیان ہوں گی جبکہ 29 فیصد کی عمریں 26سے 35 سال کے درمیان ہوں گی۔ اتنی بڑی تعداد میں اس ایج بریکٹ میں ووٹ ڈالنے والوں کی پاکستان کے کسی بھی الیکشن میں پہلی بڑی تعداد ہو گی۔ یہ پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑی بریکنگ نیوز ہے، جوان نسل کو اس خبر کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے، نوجوان اور جوان اس خبر کو سنجیدہ لیں اور پچیس جولائی عام انتخابات کے دن مرکزی کردار ادا کریں۔

ایک زمانہ تھا جب یوتھ پاور عملی طور پر پاکستان کی مرکزی سیاست کا اہم حصہ تھی، تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ علی گڑھ کے لونڈوں نے پاکستان بنایا تھا، علی گڑھ کے لڑکے پنجاب سے لے کر بنگال تک پھیل گئے، جناح صاحب کا پیغام گھر گھر تک پہنچایا۔ تقسیم کے بعد یعنی جب پاکستان بن گیا تو علی گڑھ کی یہی نوجوان اور جوان نسل تھی جو 1970 تک پاکستان کے معاملات کو چلاتی نظر آئی۔ یہی علی گڑھ کے لونڈے بیوروکریسی، فوج اور سیاسی جماعتوں میں چلے گئے، ان میں سے بہت سے لیڈر اور رہنما بھی بن گئے۔ اس دور میں ایسٹ اور ویسٹ پاکستان میں ان نوجوانوں کی ایک نظریاتی کمٹمنٹ بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے، مثلا ڈھاکہ میں 1952 میں بنگالی زبان کے حوالے سے جو تحریک چلی، اس میں نوجوانوں نے مرکزی کردار نبھایا، اسی طرح کراچی میں 1953 میں طالبعلموں نے تعلیمی اداروں میں فیسوں کا ایشو اٹھایا تھا، ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد وغیرہ اسی تحریک کے نتیجے میں سامنے آئے۔

اسی طرح 1968 میں ایوب مخالف تحریک شروع ہوئی تھی، یہ تحریک پنڈی کے ایک پولی ٹیکنیک کالج سے ابھری، عبدالحمید ایک طالبعلم تھا جس کی شہادت ہوئی، اور اس کے بعد ایوب مخالف تحریک کا ظہور ہوا، یہ تحریک پورے پاکستان میں پھیل گئی، اس کی وجہ سے ایوب خان جیسے طاقتور آمر کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بھٹو نے یوتھ پاور کے بل بوتے پر پاکستان پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند سیاسی جماعت کو مضبوط و مستحکم کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان عوامی لیگ کو مستحکم کرنے کے لئے نوجوان نسل کو آگے لایا۔ پرویز رشید, افراسیاب خٹک، حاصل بزنجو، جاوید ہاشمی، اعتزاز احسن، قیوم نظامی، معراج محمد خان، مختار رانا وغیرہ یہ سب 1968 کی تحریک کے سیاسی لوگ ہیں۔ 1968 کی جوان پود نے آگے سیاست کو سنبھالا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اسٹوڈنٹ سیاست کی پیداوار ہیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی صدر رہی۔

یوتھ پاور کی نشوونما ایک اہم ایشو ہے، کیونکہ اسٹوڈنٹ تنظیمیں سیاست کی نرسری ہوتی ہیں، لیکن جب ضیاٗ دور کا آغاز ہوا، بلکہ ضیاٗ دور سے پہلے بھٹو کے دور میں ہی ٹریڈ یونین ازم کو کچلنا شروع کردیا گیا تھا۔ مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ بھٹو دور میں بھی کچھ اچھا نہیں کیا گیا، ضیاٗ دور میں تو حد ہی کردی گئی، طلبا یونینز پر دباؤ بڑھا، ان کو لگام ڈالنے کے لئے ضیاٗ نے بدترین کردار ادا کیا۔ ان پر پابندیاں لگ گئی، خوفناک تشدد کیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طلباٗ یونینز میں غلط حرکتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن عالمی تحریکوں، ریجنل سیاست، سیاست کی ٹریننگ انہی کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے، یہ جو نئے نئے دلائل اور پڑھا لکھا طبقہ سیاست میں آتا ہے وہ انہی طلباٗ تحریکوں کا ثمر ہے۔ یہ بات میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ جب پاکستان میں طلباٗ یونینز نہ رہی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں ایک غیر سیاسی نسل پروان چڑھی، اسی غیر سیاسی نسل کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بدنام ہوئی، مارشل لاٗ آئے، آج اسی غیر سیاسی نسل کا پاکستان کی سیاست پر کنٹرول ہے۔ اس غیر سیاسی نسل کو میں جاہل نسل کہتا ہوں، جنہیں بولنے کا شعور نہیں، پڑھنے لکھنے کا شعور نہیں، یہ طلال چوہدری، فواد چوہدری، دانیال عزیز وغیرہ، جن کی گفتگو گالم گلوچ سے شروع ہوتی ہے اور اسی گالم گلوچ پر ختم ہوتی ہے۔ وہ نسل جو سیاست کو نصب العین سمجھتی تھی، جن کا ایک نظریاتی بیک گراونڈ تھا، قطع نظر اس کے کہ وہ بیک گراونڈ دائیں بازو کا تھا یا بائیں بازو کا۔ وہ تو مکمل طور پر ایک الگ بحث ہے۔

اب جب جنرل ضیاٗ نے سب کچھ برباد کردیا، تو یہ یوتھ پاور کہاں چلی گئی، جی ہاں، پھر یہ یوتھ پاور جہادی تنظیموں کا حصہ بن گئیں، افغان جہاد کا حصہ بنی، کشمیر میں ان کا استعمال کیا گیا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی طرف راغب ہوگئی، جس کے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں۔ جتنی بھی انتہا پسند تنظیمیں ہیں، ان میں یوتھ پاور کا اہم کردار ہے، امیر سے لے کر عام عسکریت پسند یا جنگجو بیس سے پنتیس سال کی عمر کا ہوتا ہے، یہ جو خود کش حملے کرتے ہیں، یہ سب نوجوان یا جوان ہوتے ہیں، جن کی عمریں پندرہ سے پنتیس سال کے درمیان ہوتیں ہیں۔ پاکستان میں 44 فیصد یوتھ ووٹرز ہیں، انہیں راستہ چاہیے، ان کی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے، لیکن کیا انہیں وینیوز دستیاب ہیں؟ کیا ان کے لئے کچھ کیا گیا ہے؟ کیا سیاسی جماعتیں اپنے اپنے یوتھ ونگ کو سنبھال رہی ہیں یا ان کا صرف استحصال کیا جارہا ہے؟

یوتھ ونگ کا صرف یہ کام تو نہیں کہ انہیں سوشل میڈیا ٹوئیٹر یا فیس بک وغیرہ پر پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جائے، جیسے مریم بی بی یا عمران خان کی پارٹی کے لوگ کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے بڑی سیاسی جماعتوں میں بلاول، مریم یا حمزہ وغیرہ جیسی نوجوان یا جوان قیادت آگئی ہے، لیکن یہ موروثی ہے، جن کی سیاسی تربیت میں خوفناک خامیاں ہیں، جو صرف سازش اور سیاسی سازشوں کو دیکھتے آرہے ہیں، صرف چہرے بدلے ہیں، حقیقت میں سیاسی بدحالی ہی ہے۔ پاکستان میں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں، غربت کا شکار ہیں، ناقص تعلیمی نظام کا شکار ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا، یہ نہیں جانتے، انہیں کچھ نظر نہیں آرہا، پھر یہ کیسے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، میڈیا پر بھی ان چوالیس فیصد نوجوانوں کے لئے کوئی تربیتی شوز اور پروگرامز نہیں، سارا دن زرداری، نواز اور عمران کی باتیں ہوتی ہیں؟

صرف انہیں قرضے دینے اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا، سیاسی جماعتیں صرف انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کررہی ہیں ْ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان سے 42 لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان سب کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان تھی؟ یہ سب جوان نسل تھی، جنہیں اپنے ملک میں تاریکی نظر آرہی تھی، اس لئے چلے گئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).