اقلیتوں کا ایک طبقہ الیکشن کا بائیکاٹ کیوں چاہتا ہے؟


جی ہاں سال 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں اقلیتوں کے ایک طبقے کی طرف سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے اور اُس کی وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ اقلیتوں کو الیکشن میں براہ راست نمائندگی کے حق سے محرومی ہے۔ گو کہ سیاسی پارٹیوں سے وابستگی رکھنے والوں نے سلیکشن کے لئے سیاسی پارٹیوں کو اپنے نام دیے ہیں اور کل جب انتخابات ہوں گے تو انہی ناموں میں سے ہی مطلوبہ نشستوں کو پورا کر لیا جائے گا۔ بعد میں ان سیاستدانوں کا کیا کردار ہو گا یہ ایک الگ بحث ہے۔

ان سیاسی نمائندوں کے علاوہ جو اقلیتی سیاستدان آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اقلیتوں کو اُن کی جرات کو سلام کرنا چاہیے اور اُن کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرانی چاہیے۔ اقلیتوں کو اُن کے ساتھ جڑنا چاہیے اور الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے چاہئیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ کسی بھی اقلیتی بستی کے سیاسی نمائندے تو اُن بستیوں میں اقلیتوں سے رابطے کر رہے ہیں لیکن ایک اقلیتی سیاسی بندہ بھلے اُس کا نام اُن متوقع سلیکٹ کے گئے سیاسی نمائندوں کی فہرست میں شامل ہو وہ اپنے ہی حلقے میں خاموش تماشائی کی طرح سیاسی دنگل کا نظارہ کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی پارٹیوں میں اقلیتی نمائندوں کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اقلیتی ممبران خوفزدہ ہیں کہ کہیں اُن کے ناموں کو تبدیل تو نہیں کر دیا جائے گا یا اُس فہرست میں تو ردو بدل تو نہیں کی جائے گی۔

غرض بے شمار واہمے اور وسوسے ہیں جو اقلیتی اُمیدواروں کو در پیش ہیں اور شاید یہ صورتحال اُن کے سیاسی نظام میں شامل ہونے کے بعد بھی رہے گی۔ اس کی ایک مثال پشاور کے مسیحیوں کی ہے جن کی وابستگی پاکستان تحریک انصاف سے تھی اُنہوں نے پارٹی کے چیئر مین کو ایک خط تحریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اُنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پشاور کے اُن مسیحیوں کی خدمات کو فراموش کردیا ہے جو وہ برسوں سے پارٹی کے لئے کر رہے ہیں۔ راقم سمجھتا ہے کہ شاید اُن کی حیثیت اُن بے آواز مزدوروں جیسی ہوتی ہے جنہیں جب چاہے نوکری سے نکالا جا سکتا ہے اور اُن کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی نوکری کو کہیں چیلنج کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس اُس نوکری سے متعلق کوئی ثبوت اور دستاویز نہیں ہوتی۔

سوشل میڈیا پر مختلف اقلیتی پلیٹ فارموں سے الیکشن کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں آل پاکستان کرسچن لیگ اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سر فہرست ہے۔ جہاں اقلیتیں اُس مہم سے متفق نظر آتی ہیں وہاں موجودہ نظام کی حمایت کرنے والا طبقہ اس کو خوش آمدید کہتا ہو ا بھی نظر آ رہا ہے۔ بائیکاٹ کرنے والے دونوں پلیٹ فارم کے اکابرین کا مطالبہ ہے کہ وہ سلیکشن کے ذریعے اقلیتی سیاسی نمائندگی نہیں چاہتے بلکہ وہ ووٹ کے ذریعے نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اقلیتی نمائندوں کو بھی براہ راست الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیں اور اقلیتی سیاسی نمائندہ اُس سیاسی پارٹی کے پلیٹ فار م سے ووٹوں کے ذریعے جیت کر اس نظام سے جڑے۔ بائیکاٹ کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے وقت اقلیتوں کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ 2018ء کے انتخابات میں اقلیتوں کو حق دیا جائے گا کہ وہ اپنے ووٹ سے اپنے اقلیتی نمائندے کو چُن سکیں گے مگر ایک مرتبہ پھر اقلیتوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب کرسچن پیپلز الائنس پاکستان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ایک جرات مندانہ قدم ہے اور اسے یقینا تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ماضی میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی ایوب مسیح نے بھٹو صاحب جیسے طاقتور سیاستدان کے مقابلے میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں مقابلہ کیا تھا گو کہ اُن کی ہار تھوڑے ووٹوں سے ہوئی تھی لیکن اُن کی اُس جرات نے سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ آج کی صورتحال خاصی فرق ہے اور اس میں اگر کوئی اقلیتی آزاد امیدوار کوشش کرتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ کامیابی اُس کے قدم نہ چومے۔

اقلیتوں کی طرف سے براہ راست نمائندگی کے مطالبے کو بغور دیکھا جائے تو علم ہو تا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں اقلیتی سیاستدانوں کی جو کارکردگی رہی ہے اُس سے اقلیتیں خاصی نالاں ہیں۔ دوسرا یہ کہ اقلیتی سیاستدان اقلیتی قوم کے ساتھ وہ جڑت بھی نہیں بنا سکے بلکہ اُنہوں نے اپنی عوام کے ساتھ ایک فاصلہ ہی رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کی بہت بڑی تعداد اُن اقلیتی سیاستدانوں کے نام تک جاننے سے قاصر رہی جبکہ اُن سیاستدانوں نے چونکہ اپنی قوم سے ووٹ نہیں لئے تھے اس لئے اُنہوں نے بھی اپنے لوگوں کو درخور اعتناء ہی سمجھا۔ ہاں البتہ یہ دیکھنے میں ضرور آیا کہ اقلیتوں کے حوالے سے کسی سانحے کی صورت میں اُن لیڈروں نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ وہ ہی اقلیتوں کے لیڈر ہیں۔

اس صورتحال میں اقلیتوں کی طرف سےکیے جانے والا مطالبے کی منطق سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اُنہوں نے ماضی میں تجربہ کیا ہے وہ اس کو دہرانا نہیں چاہتیں اس لئے وہ بار بار براہ راست نمائندگی کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ اپنے ووٹ سے اپنا نمائندہ چن سکیں۔ اقلیتی عوام نے اکثریتی نمائندوں کی کا رکردگی کو بھی دیکھ لیا ہے اور جس سے اُ ن کی تشویش میں اضافہ ہوا کہ ووٹ لینے کے وقت تو اکثریتی نمائندوں کو اقلیتی عوام یاد آجاتی ہے لیکن جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں تو اُس کے بعد اُن اقلیتی علاقوں سے ایسے مُنہ پھیر لیتے ہیں جیسے سرے سے اُن سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ گزشتہ حکومت میں بھی اقتدار کے بالکل آخری دور میں اکثریتی نمائندوں کو ہوش آیا اور انہوں نے اقلیتی بستیوں کا رُخ کیا اور ادھورے ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ آپ کسی بھی اقلیتی بستی کے ترقیاتی منصوبوں کا موازانہ اکثریتی آبادیوں سے کر کے دیکھ لیں کہ اقلیتوں کو کس طرح بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور جب اُن سے ادھورے منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے استفسار کیا جاتا ہے تو وہ مفاد پرستیے جو ان پارٹیوں سے جڑے ہیں وہ“ سب اچھا ”ہے کی گردان الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں میں کوٹہ کی صورتحال دیکھ لیں یا کوئی اور حکومتی مراعات والے منصوبے دیکھ لیں شاید ہی کوئی اقلیتی فرد ہو جو اس سے مستفید ہوا ہو۔

اس تمام صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اقلیتیں ایک دفعہ پھر براہ راست نمائندگی کا مطالبہ کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہ اپنے اقلیتی نمائندے کو اپنے ووٹوں سے چن کر اسمبلی تک پہنچائیں جو صحیح معنوں میں اُن کے حقوق کا تحفظ کر سکے اور ا اقلیتوں کے جائز مطالبات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے جمہوری ملک میں اقلیتوں کا یہ مطالبہ فوری نوعیت پر حل کرنے والا مطالبہ ہے تا کہ آئندہ الیکشن میں اقلیتیں برابر کے شہری کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).