اوشا قاضی: ’پاکستانی فلمیں اچھی ہوں یا بری پر وہ خاص ہیں‘


کتاب

اوشا کہتی ہیں کہ ‘یہ فلموں اور ان فلموں کے بارے میں میری رائے پر مبنی غیرروایتی طریقے سے لکھی گئی کتاب ہے’

’پاکستانی فلم اچھی ہو یا بری فلم فلم ہوتی ہے۔ اسے دیکھنے ضرور جائیں اور واپس آ کر اس پر بات بھی کریں۔ اسی سے مقامی فلم انڈسٹری شاید بہتر ہوگی۔ ہماری فلمی صعنت نے سر چکرا دینے والی بلندیاں بھی دیکھی ہیں اور ناقابل ذکر پستیاں بھی۔‘

یہ خیالات ہیں اوشا قاضی کے جو رہتی تو کینیڈا میں ہیں لیکن دل ان کا اپنے والد کی مرہون منت فلموں پر فدا ہے۔ کیا ہالی ووڈ اور کیا بالی ووڈ، ان سے مل کر محسوس ہوتا ہے کہ فلمیں ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ تاہم پاکستانی ہونے کے ناطے لالی ووڈ کے لیے ان کے دل میں خاص جگہ ہے۔ اسی دکھتے دل کے ساتھ انہوں نے تقریبا ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ دی ہے۔

مزید پڑھیئے

‘عید پر فلموں کو دو ہفتے مل جاتے تو پیسے پورے ہو جاتے’

’اصل زندگی کا ہیرو آن سکرین ہیرو بن جائے‘

کلچر کلیش ، مردانگی اور پاکستانی سنیما کی نئی ہِٹ

انتہائی باریک انگریزی فونٹ میں لکھی ’دی پاپ کلچر جنکیز گائیڈ ٹو پاکستانی سینما‘ کتاب پڑھنا انتہائی مشکل ہے لیکن دلچسپ بھی۔ بی بی سی اردو کے ساتھ ایک گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ جب کتاب کے لیے تحقیق شروع کی تو پاکستانی سینما پر ایک دو کتابیں ہی ملیں۔ اسی نے اس کتاب کی داغ بیل ڈالی۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی سینما میں ’بہتری‘ کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ کتاب لکھنے کے بارے میں سوچا۔

اسلام آباد کے ایک ریسٹورانٹ میں گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی اس پہلی کتاب کی رونمائی کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلمیں اچھی ہوں یا بری ایک بات ضرور ہے کہ وہ خاص ہیں۔ ’یہ فلموں اور ان فلموں کے بارے میں میری رائے پر مبنی غیرروایتی طریقے سے لکھی گئی کتاب ہے۔‘

اوشا

اوشا اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستانی فلموں کو سب سے زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے

ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستانی سینما کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ان کا برملا جواب تھا حکومتی پالیسیاں۔

’جب بھی کوئی پالیسی ماضی میں آئی ہے تو اس کا بنیادی مقصد کسی جماعت یا حکومت کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ اس صعنت کو فروغ دینے کے لیے نہیں تھی۔ شعیب منصور کی ’ورنہ‘ کے ساتھ جو کچھ ہوا سینسر بورڈ نے کیا وہ اچھی مثال ہے۔ ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جو اسے فروغ دے۔‘

فوج کی جانب سے فلمسازی کے رجحان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وار‘ اور ’یلغار‘ جیسی فلموں کی ایک مارکیٹ ہے لیکن انہیں آئی ایس پی آر کی جو فلم آج بھی یاد ہے وہ تھی ’ایلفا، براو چارلی‘ جو عام فوجیوں کی زندگیوں کے گرد گھومتی تھی۔

’ان فوجیوں کی زندگیاں اتنی گلیمرس نہیں جتنا کہ ان فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ میں یہ چاہوں گی اگلی فلم عام فوجی کی زندگی کی مشکلات پر مبنی ہو تو زیادہ مقبول ہوگی۔‘

اوشا اس بات سے متفق تھیں کہ پاکستانی فلموں کو سب سے زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے نا صرف انڈیا اور انگریزی فلموں سے بلکہ اب ترکی کی فلمیں بھی آ گئی ہیں۔ اس میدان میں ان کے خیال میں “کیک” جیسی فلمیں ہٹ ہوسکتی ہے جوکہ مکمل پاکستانی کہانی تھی جو کہیں اور نہیں ہو سکتی تھی۔ ’ہمارے پاکستان میں رہنے کے تجربات کو فلموں کا موضوع بنانا چاہیے۔‘

اوشا کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل یقین ہے کہ پاکستانی سینما کا مستقبل تابناک ہے۔ ’یہ محض فلمسازوں، ادارکاوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حوصلہ افزا پالیسی بنائے، ڈسٹریبوٹر کی ذمہ داری ہے کہ ان کا ہدف محض فلم سے پیسہ بنانا نہ ہو اور سب سے آخر میں فلم بینوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرور جا کر فلمیں دیکھیں۔ ایک مرتبہ ضرور دیکھیں اگر اچھی نہیں لگی تو دوبارہ مت جائیں۔ ایک مرتبہ دیکھ تو ضرور لیں۔‘

فلم نقاد اوشا قاضی اس بات پر بھی متفق تھیں کہ قومی سینما کے مضبوط ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی سینما بھی متحرک ہو۔ پشتو اور پنجابی فلمیں زیادہ خراب حالات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں لیکن ان کے مضبوط ہونے سے اردو سینما بھی توانا ہو گا۔ ایک پاکستانی نوجوان کے پاکستانی فلم کے بارے میں سنجیدگی اور لگاؤ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستانی سینما کے شائقین ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp