لنڈے کے کپڑے اور عالمی معیشت 


( ہمارے مہربان علامہ خادم رضوی صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ ملک پر چڑھا 70 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ہمارا اللہ کا ایک ہی بندہ اتار دے گا۔ اس مضمون سے ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ عالمی تجارت کس کس طرح کس کس شے سے متاثر ہوتی ہے، جو عام آدمی کو نہ معلوم ہوتا ہے، نہ اسے سمجھ آتی ہے اور نہ اس کو سمجھنے کی حاجت ہوتی ہے )

کچھ عرصہ سے بین الاقوامی تجارت عالمی سطح کے ایک اور مسئلے سے دوچار ہے۔ ترقی پذیر ملک پہنے ہوئے کپڑوں کی تجارت میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہیں کیونکہ اس سے درآمد کرنے والے ملکوں کی نہ صرف معیشت بلکہ ثقافت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اگرچہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا کاروبار کئی صدیوں سے جانا پہچانا ہے۔

روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں مثال کے طور پر ” ٹامی ہیل فگر“ کی ٹی شرٹ پانچ سے چھ ڈالر میں مل جائے گی اسی طرح روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی معروف برانڈ کی شرٹ 300 روبل میں دستیاب ہو سکتی ہے۔ کپڑے سستے ہونے کی وجہ انہیں گانٹھ کی صورت میں وزن کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ فی کلوگرام قیمت کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ کپڑا کتنا پہنا گیا ہے۔ عام طور پر زیادہ پہنا ہوا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو پہنا ہی نہیں گیا ہوتا۔

اسی تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ 2018 میں بیان دیا تھا کہ اس کاروبار کے سبب امریکی لوگوں کا روزگار کم ہو رہا ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا رہا تو روانڈا کو امریکہ میں نئے کپڑوں کی منڈی سے نکال دیا جائے گا۔ البتہ روانڈا نے ایسا کرنا بند نہیں کیا یوں روانڈا اور امریکہ میں رقابت چل رہی ہے۔

اس وقت دنیا میں سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی تجارت کا حجم 4 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اس میں 70% حصہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کا ہے باقی چین اور جنوبی کوریا کا۔ اس کا ایک بڑا حصہ ایشیائی اور مشرقی یورپی ملکوں میں بھیجا جاتا ہے مگر سب سے زیادہ افریقہ میں درآمد ہوتا ہے۔ مگر اب رجحان یہ ہے کہ ترقی پذیر ملک ان کی درآمد پر زیادہ ٹیکس عائد کرکے اس کی درآمد کو محدود کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس عمل میں جنوبی افریقہ اور بھارت پیش پیش ہیں۔

صنعتی ملکوں میں پہنے گئے کپڑے بڑی تعداد میں خاص خیراتی اداروں کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ انہیں فلاحی مقاصد کی خاطر خصوصی دکانوں میں فروخت کر سکیں مگر ان ملکوں میں غربت کم ہونے کے سبب کھپت سے کہیں زیادہ کپڑے وصول ہوتے ہیں جو برآمد کنندگان کو بیچ دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر برظانیہ سے ایک ٹن کپڑے 315 پاؤنڈ کے عوض برآمد کیے جاتے ہیں۔ مخصوص اداروں اور فیکٹریوں سے ہر ہفتے تقریباً 500 ٹن ایسے کپڑے نکلتے ہیں۔ ان مقامات پر عموماً مشرقی یورپی افرادکام کرتے ہیں جو کپڑوں کو مختلف اقسام میں علیحدہ کرکے ان پر لیبل لگا کر پلاسٹک کے پیکٹوں میں بند کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ افریقہ میں مردوں کے سیکنڈ ہینڈ کپڑے عورتوں کے سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی نسبت مہنگے ہیں کیونکہ امریکہ سے بہت بڑے سائز کے کپڑے آتے ہیں جو درآمد کنندگان کے لیے ” آلٹر“ کروا کے بیچنا منافع بخش نہیں ہے، کیونکہ اضافی خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی ڈیمانڈ بہت ہے۔ لوگ چین کے نئے کپڑوں پر امریکیوں کی اترن کو ترجیح دیتے ہیں۔ افریقی صارفین کو شکایت ہے کہ چین کے نئے کپڑوں کی ایک تو کوالٹی کمتر ہے دوسرے وہ دیکھنے میں بھی فیشنی نہیں ہوتے۔

افریقی کاٹن اینڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ امریکہ سے سیلوفون پیکٹس میں بند کپڑے سیکنڈ ہینڈ نہیں بلکہ بالکل نئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے افریقہ کی بڑی ملبوسات بنانے والی فیکٹریاں اپنا مال بیچنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ انہیں اپنا بنایا ہوا مال بہت کم بھاؤ پر بیچنا پڑتا ہے۔ امریکی ماسوائے ڈمپنگ کے اور کچھ نہیں کر رہے۔

معاملہ جو بھی ہو البتہ افریقہ کی مارکیٹ میں اس وقت سیکنڈ ہینڈ ملبوسات کو فوقیت حاصل ہے مثال کے طور پر تنزانیہ میں، جہاں کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ افراد ہے سلانہ 54 کروڑ ملبوسات درآمد کیے جاتے ہیں جن میں 18 کروڑ نئے ہوتے ہیں۔ خود ملک میں کل دو کروڑ ملبوس تیار ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح ملک میں ملبوسات کی کمی ہرگز نہیں ہے۔

مغربی تجزیہ نگار افریقہ کے مسئلے کو سمجھتے ہیں جیسے کہ 2008 میں ٹورنٹو یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق کے نتائج شائع کیے تھے جن کے مطابق سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی درآمد کی وجہ سے 1981 سے 2000 کے درمیان افریقی ملکوں میں کپڑے اور ملبوسات کی پیداوار دوگنا کم ہو چکی تھی۔

روانڈا میں ملبوسات کے صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ روزگار کے مواقع دو گنا کم ہو گئے ہیں اور وہ شکایت کرتے ہیں کہ اگر امریکی یا یورپی ساختہ لباس پانی کی بوتل کی قیمت میں بیچا جا رہا ہو تو مسابقت کرنا ممکن نہیں رہتا۔

لیکن امریکہ کو روانڈا کے ردعمل پر تشویش نہیں جو اپنی سوا کروڑ کی آبادی کے سبب سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی اتنی بڑی مارکیٹ نہیں ہے جتنا یوگنڈا، تنزانیہ اور کینیا کی جانب سے جو اس قسم کے مال کو اپنے ملک میں لانے سے روکنے کا قطعی ارادہ کیے ہوئے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ صنعتی ملکوں کے سیکنڈ ہینڈ ملبوسات کے برآمد کنندگان، افرقی ملکوں کی سیونگ انڈسٹری کو بھی جوابدہ کرنا چاہتے ہیں جو سستے کپڑے سے ملبوسات تیار کرکے سخت خسارہ سہہ رہے ہیں اور سیکنڈ ہینڈ کپڑوں سے مسابقت یکسر نہیں کر پاتے۔ یقیناً ایسے معاشی حالات میں ہندوستان اور پاکستان جیسے ملکوں سے جہاں محنت سستی ہے، مال لانا پڑتا ہے۔

سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی عالمی تجارت 1990 کی دہائی سے بڑھنا شروع ہوئی تھی جو تب ایک ارب ڈالر سالانہ تک چلی گئی تھی۔ بحث میں وہیں پر آتے ہیں کہ کیا اس تجارت سے مقامی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان۔ کئی تحقیقات سے سامنے آیا ہے کہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی تجارت سے روزگار پیدا ہوتا ہے خاص طور پر ٹرانسپورٹ، دھلائی اور سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کو پھر سے سینے کے خدماتی شعبوں میں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ غریب لوگوں کو سستے کپڑے میسر ہوتے ہیں۔

مگر دوسرے بہت سے ماہرین زور دیتے ہیں کہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی تجارت ملک کے اندر ملبوسات کی پیداوار کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ 2003 میں سلے ہوئے کپڑوں کی تجارت میں سیکنڈ کپڑوں کی شرح جنوبی ایشیا میں 15% اور افریقہ میں 30% رہی۔ قیمتوں کے حساب سے بہت زیادہ فرق تھا مثال کے طور پر سیکنڈ ہینڈ کپڑے نئے سلے ہوئے کپڑں کی قیمت کے 15 سے 20% قیمت میں بکے۔
جہاں تک درآمد کا معاملہ ہے تو کینیا اور کیمرون میں سلے ہوئے کپڑوں کی درآمد میں 80% حصہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا رہا جبکہ روانڈا میں یہ شرح 90% رہی۔ کہا جاتا ہے کہ افریقہ کی ایک تہائی آبادی سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی خریدار ہے۔ گھانا اور زمبابوے کی 95% آبادی اور تیونس کی 60%۔

تیونس میں نئے کپڑے خاص مواقع پر زیب تن کیے جاتے ہیں اور وہ بہت مہنگے ہوتے ہیں چنانچہ ظاہر ہے کہ اہل تیونس عام طور پر پہننے کو سستے سیکنڈ ہینڈ ملبوسات پر ہی گذارا کرتے ہیں۔ یہی بات کینیا اور زمبابوے میں رہنے والوں پر بھی صادق آتی ہے۔

علاوہ ازیں گذشتہ صدی کے اواخر میں افریقہ میں ایک ثقافتی تبدیلی بھی وقوع پذیر ہوئی ہے کہ وہاں کے باسیوں نے اپنی معیشت کی رو سے روایتی ملبوسات کی بجائے یورپی طرز کا پہناوا اپنا لیا ہے۔

سیکنڈ ہینڈ کے بارے میں ایک رومانوی روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ اصطلاح ازمنہ وسطٰی کے انگلستان میں تب مروج ہوئی تھی جب بادشاہ اپنے ملبوسات کے مجموعے سے ملبوسات بطور تحائف دینا پسند کرنے لگے تھے۔ ایسے تحائف کو موجب فخر خیال کیا جاتا تھا اور سیکنڈ ہینڈ کہنا توہین نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسا لباس پہننے والے افراد کو بادشاہ کا مقرب مانا جاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).