قصہ انشاءاللہ ممبر اسمبلی کا۔۔۔ اور امیر المجاہدین


جب دو سال قبل عدالت عظمی کے کہنے میں آ کر بالآخر بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو راجہ صاحب کا خیال تھا کہ یہی موقع ہے ملک و ملت کی باگ ڈور سنبھالی جائے اور معاشرے میں پھیلی بے حیائی اور فحاشی کو بزور بازو روکا جائے ۔ اس سے قبل راجہ صاحب محلہ کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہو چکے تھے۔ یاد رہے مذکورہ کمیٹی کا قیام راجہ صاحب موصوف کی زیر سرپرستی ہی عمل میں آیا تھا۔ پہلے نصف درجن اجلاس بھی انہی کی زیر صدارت منعقد ہوئے تھے جن میں راجہ صاحب اور ان کے نو عمر صاحبزادے (جن کی عمر بھی اتفاق سے اس وقت نو ہی تھی، نو ماہ)  پہ مشتمل دو رکنی سٹیرنگ کابینہ نے راجہ صاحب کو محلہ کمیٹی کا تاحیات قائد منتخب کر لیا تھا۔ انہیں میں سے ایک اہم اجلاس میں یہ تاریخی فیصلہ بھی کیا گیا کہ مسائل کا تدارک صرف اسی صورت ممکن ہے کہ محلہ کمیٹی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد بے نام محلہ کمیٹی کو تحریک اتحاد العالمی (الباکستان) کے با وزن نام سے موسوم کر دیا گیا جب کہ قیادت کا تاج حسب سابق راجہ صاحب کو پہنائے رکھنے کی توثیق کی گئی۔
راجہ صاحب کے بد خواہ اس دو رکنی کابینہ پر تانگہ پارٹی کی پھبتی کستے تھے لیکن بعد ازاں خود ہی شرمندہ ہو جاتے تھے، کیوں کہ تانگہ میں بہرحال پانچ سواریاں ہوتی ہیں۔ راجہ صاحب کسی طور بھی اپنے فہم دین پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں تھے۔نماز روزے میں اگرچہ سختی کے حامی نہیں تھے، لیکن ان کی نظر میں خواتین کا سیاست میں حصہ لینا شریعت کے سخت خلاف تھا۔ لہذا محض پارٹی کے اراکین میں اضافے کی خاطر وہ اپنی با پردہ اہلیہ کو سیاست میں گھسیٹنے کے قائل نہیں تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے نونہال ولی عہد کا ووٹ ان کی اہلیہ ہی بطور وکیل دیا کرتی تھیں۔ اگرچہ کل پارٹی کانفرنس میں تمام افراد محرم ہی ہوتے تھے لیکن چائے کے وقفے کے دوران، چائے والا ایک کپ لے کر کسی بھی وقت وارد ہو سکتا تھا لہذا راجہ صاحب  حفظ ما تقدم کے طور پہ اہلیہ کو بچے سمیت بٹھانے کی بجائے، ایک خالی کاغذ پر ان کا انگوٹھا پہلے ہی لگوا لیا کرتے تھے۔ پارٹی کا جنرل باڈی اجلاس ہو یا ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس، ہمیشہ ہی بہت تزک و احتشام سے منعقد ہوتا تھا اور جائے وقوعہ عموماً راجہ صاحب کی بیٹھک ہوا کرتی تھی ۔ بیٹھک میں فرنیچر کے نام پہ اسراف سے حتی الامکان گریز کیا گیا تھا۔ ایک کرسی ہی راجہ صاحب کی منزل تھی اور یہی نکتہ آغاز بھی۔
نام کی تبدیلی کے بعد زیر بحث مسائل کی نوعیت بھی محلے کی سطح سے بلند ہو کر عالمگیر ہو چکی تھی۔ بیٹھک کے باہر لگا ایک بلیک بورڈ گویا تحریک اتحاد العالمی کا شعبہ اطلاعات و نشریات تھا۔ اس تختۂ سیاہ پر جہاں پہلے محلے  کے سبزی فروش کے خلاف کریلوں کی گرانی، منیاری کی دکان پر بے پردہ خواتین کی ارزانی اور موبائل فون پہ مصروف نوجوانوں کی نگرانی سے متعلق قرارداد پیش کی جاتی تھی وہیں اب گاہے گاہے روہنگیا، شام اور فلسطین کا ذکر کیا جانے لگا تھا۔ گویا محلے سے سیدھا گلوبلائزیشن کا رخ کیا گیا تھا۔ درمیان میں آنے والے شہری، علاقائی، صوبائی اور قومی سٹیشنوں پر رکے بغیر راجہ ایکسپریس اب عالمی سطح کے معاملات میں دلچسپی لے رہی تھی۔
دو سال کی طویل جدوجہد کے بعد تحریک میں درجن بھر سرفروشوں کا مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ ہر کامیاب انقلاب کی طرح اس عظیم الشان تحریک کے ابتدائی کارکن غریب عوام ہی تھے۔ کریانہ فروش اسلم، فرج مکینک مجید، درزی شاہد اور پان سگریٹ کا کھوکھا لگانے والا امجد، سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کا رکن بننے والے ابتدائی خوش نصیب تھے۔ صنف نازک کا پھول کی پتی سا کلام  ابھی تک ”مرد دانا” کے ہیرے جیسے جگر پر بے اثر تھا۔ اسی اثنا میں ایک دہائی کے وقفے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا غلغلہ اٹھا اور راجہ صاحب کی مانو مراد بر آئی ۔
کیا دن تھے جب اپنے درجن بھر متوسلین کے جلو میں راجہ صاحب نماز باجماعت ادا کرنے مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔ گھر سے ملحق مسجد کا رستہ دانستہ طور پر بازار اور چوک سے ہو کر طے کیا جاتا تھا۔ نیت کا حال اللہ جانتا ہے لیکن ایسا یقینی طور پر اضافی ثواب کے لیے ہوتا تھا، یار لوگ اس کو بھی الیکشن کمپین سے معنون کرنے میں حظ اٹھاتے تھے۔ حد تو یہ ہوئی کہ راجہ صاحب کے سگے چچا نے ایک روز بھری مسجد میں کہہ دیا کہ اگر تم واقعی سچے نمازی بن گئے ہو تو وضو کے فرائض بتاؤ۔ تاہم راجہ صاحب نے بزرگوں کے احترام کا جو سبق بچپن سے سیکھا تھا اس پہ ہی کاربند رہے اور ”خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے” والا مشہور عالم جملہ ہمارے گناہ گار کانوں نے اسی موقع پر پہلی بار سنا تھا۔ وضو اور غسل جیسی انتہائی نجی مصروفیات کا بھلا راہبری سے کیا تعلق؟
راجہ صاحب کے چچائے مذکور نے بتدریج خاندان کی اکثریت کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور راجہ صاحب کی بڑھتی ہوئی دین داری کو منافقت سے تعبیر کیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ راجہ صاحب کو ووٹ دینے پر برادری سے نکال دینے کی آزمودہ دھمکی بھی دے ڈالی ۔
راجہ صاحب کے تکیے والے پتوں نے ہوا دینا شروع کی تو انہیں ریگزار سیاست کی تپش محسوس ہونا شروع ہوئی۔ ان حالات میں راجہ صاحب نے تحریک کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ عاملہ کے اس اجلاس میں اس بار ان کا تین سالہ ولی عہد بنفس نفیس موجود تھا کیونکہ کہ رانی صاحبہ یعنی راجہ جی کی نصف بہتر ایک بار پھر حاملہ تھیں۔
تیزی سے کم ہوتے ووٹ بینک کی افزائش کے لئے راجہ صاحب نے اپنے دیرینہ کارکنوں کے پرزور اصرار پر خواتین کا ووٹ مشروط طور پر قبول فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اور نوید برف والے کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اہل محلہ تک یہ بریکنگ نیوز پہنچائے گا۔ یوں بھی اسے سُوئے سے آئس بریکنگ کا تجربہ بدرجہ اتم حاصل تھا۔
میں ان دنوں کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا لہذا دروغ بر گردن راوی (یعنی راجہ صاحب)، اس اعلان کو سنتے ہی محلے کی بیبیوں میں جشن کا سماں تھا جس کے گھر میں جو شیرینی میسر تھی، بانٹی گئی۔ خرم کی مٹھائی کی دکان سے بھی عید کیک تقسیم کئے گئے، یہ اور بات کہ ذیقعد شروع ہونے میں محض گیارہ روز باقی رہ گئے تھے۔
مجلس عاملہ کا اگلا اجلاس  وجود زن سے رنگا رنگ تھا۔ محلے کے درخشاں روایت کے عین مطابق بیس میں سے محض دو خواتین خالی پیٹ آئی تھیں۔ اس پہ مخالفین نے مجلس حاملہ جیسی بازاری جگت لگائی جسے راجہ صاحب نے خاندانی وضع داری کے زیر اثر نظر انداز کر دیا۔ اسی تاریخ ساز اجلاس میں راجہ صاحب نے اپنی زوجہ محترمہ کو خواتین ونگ کا صدر نامزد کیا جس کی متفقہ طور پہ توثیق کی گئی۔ محلے کی معروف دائی، آپا صغراں کی خدمت میں مبلغ پچیس سو روپے پیش کئے گئے جو فی کس سو روپے کے حساب سے خواتین میں تحریکی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پیش کئے گئے۔ بچ جانے والی رقم پارٹی کے اگلے پروگرام کے فنڈ کے طور پہ آپا صغراں کے پاس امانتاً جمع کروا دی گئی۔
الیکشن میں  محض ایک ماہ باقی تھا اور راجہ صاحب اب کلین شیو سے باریش ہو چکے تھے۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب کو برکت کے لیے اکثر کھانے پر مدعو کیا جاتا تھا۔ مولانا کے کہنے پر ہی جمعے کے بعد سپیکر پہ راجہ صاحب انتہائی دل سوز آواز میں اپنا کلام پیش کرتے جس میں امت کے جملہ مسائل کا منظوم حل پیش کیا جاتا۔ پہلے پہل ٹوپی پہننا بھی راجہ صاحب کو مشکل لگتا تھا اور اب گویا سر پہ پگڑی نا ہو تو عریانیت کا شائبہ ہوتا۔
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر ایک بار پھر راجہ صاحب کے چچا  نے نامزدگی کے وزن پہ ایک رکیک لفظ کہا  جس کو رقیق القلب راجہ صاحب نے  خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اسی موقع پر راجہ صاحب نے موروثی سیاست کے خلاف اپنی فکر انگیز تقریر میں برسراقتدار پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فکر انگیز اس لئے کہ عین اسی وقت حکمران جماعت کے علاقائی صدر راجہ صاحب کے مقابلے پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے پہنچ گئے۔ اور راجہ صاحب کے انگلیوں پر گنے جانے والے مصاحبین کا سینکڑوں مخالفین کو دیکھ کر فکر مند ہونا عین فطری تھا۔ تاہم اس موقع پہ راجہ صاحب نے شاعر مشرق اور اپنے ذاتی کلام سے کچھ ایسے اشعار اتنی بے باکی سے سنائے کہ باطل کے ایوان لرز اٹھے اور حوصلہ چھوڑتے کرگس و زاغ اب جذبہ ایمانی سے سرشار شاہینوں کی طرح سر بکف اپنے اپنے گھوڑے، یعنی ماڈرن دور کے چنگ چی پر سوار ہوئے۔
انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی۔ بیٹھک کا دروازہ اب بند نہیں ہوتا تھا۔ چند مزید کرسیاں مجلس عاملہ کے اراکین، مفاد عامہ میں اپنے گھروں سے اٹھا لائے تھے۔ ایک تپائی پر نسیم حجازی کی رزمیہ داستانیں تحریکی لٹریچر کے طور پر سجا دی گئی تھیں۔ کہیں سے ایک سیکنڈ ہینڈ لاؤڈ سپیکر کا انتظام بھی ہو گیا تھا۔ جس پہ محلے کے رضاکارانہ طور پر ڈی جے بننے والے بچے راجہ صاحب کی تقاریر ، ملی نغمے اور نصیبو لعل کے گانے حاضرین کی فرمائش پر چلایا کرتے تھے۔ دونوں طرف جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک جانب راجہ صاحب ایک تحریک کی صورت موجود تھے تو دوسری جانب دس مختلف جماعتوں کے پینل صف آراء تھے۔ گویا معرکہ حق و باطل میں ایک کا مقابلہ دس سے تھا۔ اپنے پینل میں راجہ صاحب نے چیئرمین یونین کونسل کا عہدہ اپنے لیے جب کہ  اہلیہ کے لیے خاتون کونسلر کا عہدہ تجویز کیا تھا۔ موروثی سیاست کی نفی کرنے کے لیے باقی تمام امیدوار قرعہ اندازی کے ذریعے نامزد کئے گئے۔ جوں جوں وقت قریب آ رہا تھا راجہ صاحب کے کیمپ میں پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ لادینی قوتیں، دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر راجہ صاحب کے جانثاروں کو ایک ایک کر کے خرید رہی تھیں ۔ ایک بار پھر ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ اس مرتبہ مسٹر اینڈ مسز راجہ کے علاوہ محض دو ارکان شریک ہوئے۔ امجد اور شاہد نے راجہ صاحب کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ حکمران جماعت یا پھر اپوزیشن کی انقلابی تبدیلی والی جماعت کا ساتھ دیا جائے۔ راجہ صاحب نے حق کی خاطر مشورہ قبول کیا۔ اور حکمران جماعت کے ایک روز قبل وفات پانے والے امیدوار برائے کونسلر کی جگہ پُر کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں ایک روز باقی تھا لہذا گفت و شنید کے بعد باہمی رضا مندی سے یہ مرحلہ بھی سر ہوا۔ اور حق کی سربلندی کی خاطر اپنا آئیڈیل انتخابی نشان شمشیر چھوڑ کر راجہ صاحب شیر کے سوار بن گئے۔
دو سال تک کونسلر کے طور پر راجہ صاحب کی کاوشیں پھر کسی آرٹیکل میں سہی، لیکن حالیہ عام انتخابات قریب آتے ہی راجہ صاحب نے حکمران جماعت سے ٹکٹ کا مطالبہ کر دیا۔ ابھی سابق وزیراعظم نے اس پہ کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ  جلد ہی راجہ صاحب کو احساس ہوا کہ وہ تو الیکٹ ایبل ہیں اور ان کی اشد ضرورت کہیں اور ہے۔ موروثی سیاست پر تینوں حرف نشر مکرر کئے اور تبدیلی کا علم بلند کر دیا۔ اپنے دونوں بچوں کے ہاتھ میں بلا پکڑا کر بنی گالہ کا رخ کیا۔ لیکن شاید کپتان کو اب ہیروں کی پہچان نہیں رہی۔ نا ہی ٹکٹ دیا، نا ہی راجہ صاحب کو دو رنگی پرنا پہنا کر تصویر کھنچوائی۔
راجہ صاحب نے انصاف کی علمبردار جماعت کی اس نا انصافی کے خلاف سینکڑوں افراد کے ساتھ مل کر دھرنا بھی دیا۔
مجھے بھی احتجاج کی تصاویر واٹس ایپ کرتے رہے۔ کسی بھلے مانس نے بتایا کہ گزشتہ جمعے راجہ صاحب خاموشی سے واپس آ گئے تھے لیکن جمعہ کی نماز میں شریک نہیں ہوئے۔ بیٹھک کا دروازہ بھی بند ہے۔
میں نے کہا چلو شکر ہے سیاست کا بھوت اترا۔
لیکن آج صبح دفتر جاتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کی مصروف شاہراہ پر فلیکس لگے ہیں جن پر دو نورانی ، خضر صورت بزرگ جلوہ افروز ہیں۔ ایک تو مشہور زمانہ امیر المجاہدین اور دوسرے اپنے راجہ صاحب، انشاءاللہ ممبر اسمبلی۔
سوچ رہا ہوں دنیادار جماعتوں سے کیا لینا ، ووٹ کے بدلے جنت مل جائے اور کیا چاہیے ۔
پس تحریر۔
اس تحریر کے تمام کردار ہر گز فرضی نہیں اور نا ہی واقعاتی مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔
راجہ صاحب کے پوسٹر اور پینا فلیکس آج بھی پاکستان کے مشہور صنعتی شہر کی شاہراہوں پر آویزاں ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).